ِِتعلیم کا مطلب خود آگاہی اَورخود شناسی ہے۔اِنسان کی ذات کی تکمیل کے لیے تعلیم کے عمل کا سہارا لیا جاتا ہے ۔یا پھر یوں کہہ لیں کہ اِنسان کی سماج سے مطابقت پیدا کر نے کے لیے اُسے مثبت تعلیم دی جاتی ہے ۔بے شعور اِفراد تعلیم حاصل کر کے سماج کونہ صرف اعلیٰ قیادت مہیا کر تے ہیں بلکہ بہتر زندگی گزارنے کے بھی قابل ہو جاتے ہیں۔اگرچہ بُنیادی تعلیم کی اَہمیت و افادیت اَپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن عملی طور پر انسان ’’اعلیٰ‘‘ اُسی وقت بنتا ہے، جب اُسے کسی جامعہ سے فارغ التحصیل ہو نے کی’’ سند‘‘ مل جائے ۔
یہ سندِ فراغت جہا ں کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے ۔وہی انسان کے اعلیٰ اخلاق اَور سماجی اِقدار سے بہتر آگاہی کی بھی عکاسی کرتی ہے ۔حاضر زمانے میں ’ آکسفورڈ‘’کیمبرج‘ اَور ’ہاورڈ‘ جیسی یونی ورسٹیوں کا عالمی سطح پر ایک نام ہے ۔آج کل ’’آکسفورڈ برانڈ‘‘ کی مارکیٹ میں دُوسروں کی نسبت کچھ زِیادہ ’مانگ‘ ہے ۔اِس نجی تعلیمی جنگ میں غریب ممالک کے اَمیر حکمران اَپنے بچے مندرجہ بالا یونی ورسٹیوں میں ’’داخل ‘‘ کرواتے ہیں۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے زِیاد ہ تر حکمران اِنہی تعلیمی اَداروں کے ’’فارغ التحصیل‘‘ ہیں ۔اَب تو یہ بات اِیشیائی اَور خاص طور پر پاکستانی غریب عوام بطور ’’خدائی تقدیر ‘‘ سمجھ کر قبول کر چکے ہیں کہ’’ حکمران وہی بنتا ہے جو مغربی تعلیمی اداروں میں خاک چھان کر آیا ہو‘‘ ۔اس ساری تعلیمی ایمرجنسی میں پاکستان کے غریب لوگ آکسفورڈ یونی ورسٹی جیسے اداروں میں اپنے بچے داخل کروانے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے،بلکہ پاکستان کے غریب لوگ ’’سمسٹرسسٹم ‘‘ میں اَپنی خون پسینے کی کمائی خرچ کرنے میں مگن ہیں ۔
سنہرے مستقبل کا خواب دیکھنے والے لاتعداد پاکستانی اِس وقت ایک ایسی کشمکش کا شکار ہیں جس سے چھٹکارے کا کوئی ذریعہ ابھی تک نظر نہیں آ رہا ہے ۔ پاکستان میں ایک اہم مسئلہ سرکاری یونی ورسٹیوں میں داخلے کا بھی ہے ۔صرف ملک کے اندر ’’مشہور ‘‘ یونی ورسٹیوں میں داخلہ کسی آزاد شیر کو پنجرے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔پہلے پہل اُمید وار برائے حصولِ علم کی پرکھ ’’شخصی میچورٹی‘‘ پر کی جاتی ہے ۔اَور اِس کے بعد دیگر مشکل سے مشکل مراحل آتے ہیں ۔جگہ جگہ دشوار گزار راستوں سے گزر کر ہی کچھ ’’خوش نصیب ‘‘ ان یونی ورسٹیوں میں داخل ہو پاتے ہیں۔
پاکستان کے اقتدار و اختیار پر قابض اقلیتی طبقہ ہمیشہ اپنی اولادو ں کو ’’میرٹ‘ ‘ پر داخل کروا لیتا ہے ۔جبکہ متوسطہ طبقے کے نوجوان این۔ٹی ۔ایس ٹیسٹ کے بعد انٹرویو اَور دیگر لوازمات پورے کر تے کر تے ’’تھک ‘‘جاتے ہیں ۔ہماری نجی یونی ورسٹیز کا تو کہنا ہی کیا !!!! ۔ کئی ایک یونی ورسٹی کی فی سمسٹر کی فیس 70ہزار روپے ہے ۔اَب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ شام کو چار ،پانچ سو کمانے والے پاکستانی اتنے پیسے کہاں سے ادا کر سکتے ہیں ؟۔یہی سوال ہماری نوجوان نسل کے حصولِ تعلیم کے جذبے کو ختم کر رہا ہے ۔
دوسری طرف جدید تحقیق میں ہماری یونی ورسٹیز بہت پیچھے ہیں ۔ابھی تک کسی بھی انسانی وسائل کے شعبے کی ترقی میں پاکستانی ماہرین کا کو ئی خاطر خواہ کردار نہیں ہے !۔ہمارے ملک میں اگرچہ لاتعداد نجی اور سرکاری یونی ورسٹیاں موجود ہیں، تاہم اس کے باوجود عالمی سطح پر مشہور و معروف ناموں کی ہمارے پاس کمی ہے ۔یونی ورسٹیوں کی فیسوں کا ’’شیڈول‘‘ کسی ’’ جبری خراج‘‘ سے کم نہیں ہے ،اور جاری کردہ ڈگریوں کو کو ئی پوچھتا نہیں ہے ۔یہ ہے ہمارے ملک کی اعلیٰ تعلیم کا حال !۔
یہ بات ہم بہت ہی افسوس سے لکھ رہے ہیں کہ تعلیمی ترقی کے حوالے پاکستان بہت ہی پیچھے رہ جانے والے ممالک میں شامل ہے ۔ روشن خیالی ،محب الوطنی ،خود شناسی اَور وفاداری وہ اعلیٰ تعلیمی مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے یہ سارا تعلیمی ماحول بنا جاتا ہے ،ورنہ نسلِ نو گھروں کے اندر بھی پڑھنا لکھنا سیکھ سکتی ہے ۔ بد قسمتی سے موجودہ زَمانے میں اِن مقاصد کے حصول کے لیے بنائے گئے تعلیمی ادارے اپنے مقاصد کے حصول میں بڑی بری طرح ناکام ہو رہے ہیں ۔ بے رحمانہ ’’تشدد ‘‘کی حمایت کسی بھی مہذب سماج میں نہیں کی جاتی مگر ہماری یونی ورسٹیوں میں تشدد کے سرعام’’ پریکٹیکل‘‘ کیے جاتے ہیں ۔
دوسروں کی سوچ ،فکر اَور فلسفے کو تسلیم کر نے سے گریز کر نے کی’’ متشددانہ سوچ‘‘ ہماری نوجوان نسل کو عدم برداشت کے دَریا میں ڈال رہی ہے ۔تشدد کے حوالے سے پنجاب یونی ورسٹی ’’ٹاپ‘‘ پر ہے ۔ مخصوص عناصر کی بھڑکائی گی آگ کے نتیجے میں ہم پاکستانی ایک ایسے سماج کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں عدم برداشت کے رویے عام ہو رہے ہیں۔عبد الولی خان یونی ورسٹی والا واقعہ ابھی تک کئی ایک پاکستانیوں کے اذہان سے محو نہیں ہوا ہے ۔اِس طرح کے واقعات تنگ نظری کے ساتھ ساتھ جہالت کے بھی عکاس ہیں ۔
پاکستانی تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے تشدد کے رُجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے حکمرانوں کے ساتھ ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا کر دا بھی ادا کر نا ہو گا ۔اِسی طرح محب الوطنی کا پرُ چار جب جبری ہو جائے تو پھر کئی ایک سرکش اََور باغی قسم کے لوگ بھی جنم لیتے ہیں ۔ اور ریاست بلکہ عوام کی اکثریت کی نظروں میں بھی ’’غدار ‘‘ کہلائے ۔ اِسی طر ح خود شناسی کی منزل بھی ہم تقریباََ حاصل کر نے میں ناکام دکھائی دَے رَہے ہیں ۔اَیسے حالات میں مہنگی تعلیم اَور بے وقعت ڈگریوں کا کیا فائد ہ ہے ؟؟۔ یہ ہے وہ سوال جو ہر ذِی شعور پاکستانی کے ذہن میں اُٹھ رہا ہے ۔!!!۔کیا پاکستانی حکومت کے پاس اس سوال کا جواب ہے؟؟؟۔
♦