آصف جاوید
عسکری ریاستوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ عسکری مقتدرہ ،عوام کو غلام اور قومی وسائل کو باپ کا مال سمجھ ملک پر قابض رہتی ہے۔ عسکری مقتدرہ کو عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، بلکہ صرف جنگی سازوسامان اور فوجی طاقت بڑھانے کا خبط ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا میں دو عسکری ریاستیں ہیں، جو دنیا کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں، ایک شمالی کوریا اور دوسری پاکستان۔ دونوں ہی ایٹمی طاقتیں ہیں، اور خود کو مستقل طور پر خطرے میں محسوس کرتی ہیں۔
عسکری ریاستوں کی بقاء اس میں ہوتی ہے کہ ان کا کوئی مستقل دشمن ہو، اور ان کی سیکیورٹی کو مستقل بنیادوں پر خطرہ ہو، اور ریاست کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں ہوتی ہے، جو جنگ و جدل اور تشدّد کے ماہرہوں ۔ پاکستانی ریاست اس لئے اپنے آپ کو عسکری ریاست (گیریژن اسٹیٹ)سمجھتی ہے، کہ اسے انڈیا سے مستقل بنیادوں پر خطرہ ہے۔ اور اس خطرے کو ہی بنیاد بنا کر عسکری مقتدرہ نامی عفریت نے 22 کروڑ عوام اور ان کے قومی وسائل کو یرغمال بنا یا ہوا ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے، کیونکہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم کی غربت یتیم نہیں، جہالت اس کی ماں اور پسماندگی اس کا باپ ہے۔ یوں پاکستانی قوم ، غربت، جہالت اور پسماندگی کا تین رکنی کنبہ ہے۔
پاکستان کے قبضہ گیروں کو پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے پر تو فخر ہے، مگر اس بات پر کوئی شرمندگی نہیں ہے، کہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو پینے کاصاف پانی میسّر نہیں ہے۔ گاؤں دیہات تو دور کی بات ہیں، زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں سینی ٹیشن کا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ ملک کے پچاس فیصد گاؤں دیہات ، چھوٹے قصبات میں چھوٹے بچّوں کے اسکولوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔
ریاست کی جانب سے تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ مگر ہماری قوم کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی بجائے ایٹم بم بنا کر دیا جاتا ہے، جس کو اپنے ہی پالے ہوئے دہشت گردوں سے بچانے کے لئے ، حفاظت بھی ہم ہی کو کرنی پڑتی ہے۔ ہم ایٹم بم بنا کر پڑوسیوں کو تو ڈرا دھمکا سکتے ہیں، مگر ایٹمی ری ایکٹر بنا کر اپنی صنعتوں کے لئے بجلی پیدا نہیں کرسکتے۔ ہماری صنعتیں بجلی اور پانی کی کمیابی کی بناء پر سسک رہی ہیں، ٹیکسٹائل کی صنعت جو ہمیں زرِ مبادلہ کما کر دیتی تھی، برباد ہو کر رہ گئی ہے، مگر ہم ایٹمی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔
اگر ہمیں کہیں سے کوئی بھیک یا امداد ملتی ہے، یا ہماری فوج بیرونی آقاؤں سے جب بھی کوئی کرائے کی فوج کا اسائنمنٹ لیتی ہے، تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بھی ہمارے جرنیل فوجی سامان کی خریداری سے ملنے والے کمیشن کے حصول کے لئے لٹا دیتے ہیں۔ قومی آمدنی کا بظاہر 940 ارب روپے( سال 18-2017 ) فوجی اخراجات پر لگتا ہے، مگر خفیہ فنڈ اور عسکری کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کو تو کوئی حساب ہی نہیں ہوتاہے۔ اور نہ ہی کوئی حساب مانگ سکتا ہے۔
غربت ،جہالت اور پسماندگی کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی، یہ مختلف وجوہات کا ایک پیچیدہ گورکھ دھندا ہے۔پاکستان کو قائم ہوئے ستّر سال گزر گئے، مگر ہم آج تک پاکستان سے غربت ، جہالت اور پسماندگی کو عملی طور پر ختم کرنے کے لئے کوئی پائیدار لائحہ عمل مرتّب نہیں کر سکے ہیں، آج تک کوئی ایسا مربوط نظام قائم نہیں کرسکے ہیں ، جو غربت ، جہالت اور پسماندگی کو جڑسے اکھاڑ سکے۔ گذشتہ ستّر سالوں سے ہمارے سسٹم میں موجود خرابیاں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ زندہ رہنے کے لئے پاکستانی قوم کو اب غربت ، جہالت اور پسماندگی کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑنا پڑے گی۔
ستم ظریفی دیکھئے، غربت کے خاتمے کے لیے ریاست کے ماہرِ اقتصادیات جب بھی کوئی طریقہ وضع کرتے ہیں تو اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ایسا میکینزم اختیار کیا جائے ، کہ نہ ہینگ لگے ، نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے، یعنی پاکستان سے غریب کو ختم کر دیا جائے تاکہ پاکستان سے غربت خودبخود ختم ہوجائے ۔
آئیے تجزیہ کر تے ہیں کہ ہماری پسماندگی کی وجوہات کیا ہیں۔ ہماری پسماندگی ہماری غربت اور جہالت کا شاخسانہ ہے۔ غرت ، جہالت اور پسماندگی ختم کرنے کے لئے ہمیں تجزیاتی فکر سے کام لیتے ہوئے ان بنیادی وجوہات کا تعیّن کرنے کی ضرورت ہے، جہاں سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔
سوشل سائنسز کے ایک ادنی‘طالب علم کے طور پر اور تحقیقی جبلّت کے زیرِ اثر جب میں نے اس مسئلے پر غور وفکر کیا تو میرے ذہن ِ نارساء میں کچھ ایسے ٹارگٹ ایریاز آئے ہیں ، جو اصل خرابی کی ممکنہ جڑ یں ہیں۔ اگر ہم دیانتداری کے ساتھ تجزیہ کریں ، اور ان ایریاز میں موجود مسائل کی نشاندہی کرکے ، کوئی مربوط و مضبوط اور موثّر نظام وضع کریں ، تو یقینا“ہم غربت ، جہالت اور پسماندگی سے چھٹکارہ حاصل کرسکتے ہیں۔
ٹارگٹ ایریاز
۔1-ریاست اور حکومت کے کاروبارِ مملکت میں عسکری اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مداخلت ختم کرنا، اور ان کے لامحدود کردار کو محدود کرکے آئین و قانون کے دائرے میں قیدکرنا۔
۔2-ملک میں ایک مضبوط و موثّر جمہوری سیاسی نظام قائم کرنا ، اور اقتدار کو نچلی سطح تک لانے کے لئے بنیادی جمہوریت کانظام اور شہری حکومتوں کا قیام عمل میں لانا۔
۔3-مذہب کو ریاست سے اور ریاست کو سیاست سے علیحدہ کر کے غیر جانبدار ریاست کی تشکیل کرنا
۔4-مسئلہ کشمیر سے دستبردار ہوکر انڈیا سمیت تمام پڑوسی ممالک سے خوشگوار تعلقات برقرار رکھنا
۔5۔ ملک میں سماجی فلاح و بہبود اور انسانی ترقّی و بھلائی کا ایک جامع اور وسیع نظام قائم کرنا
۔6۔ ترجیحی بنیاد پر انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ اور قومی وسائل کو ترقّی دینے کا نظام قائم کرنا
۔7۔ ملک میں امن و امان و قانون کی بالادستی ، اور موثّر و طاقتور نظامِ انصاف قائم کرنا
۔ 9-جدید بنیادی و اعلی‘تعلیم او راعلی‘ فنّی تربیت و مہارت کا نظام قائم کرنا
۔9۔ مذہب کی پابندیوں سے آزاد دنیا کا جدید ترین معاشی نظام قائم کرنا
۔10۔ جدید زراعت اورزراعت پر مبنی صنعتوں کا نظام قائم کرنا
۔11-کرپشن کے خاتمے اور بے رحم احتساب کا نظام قائم کرنا
۔12۔ ہیوی، میڈیم ، اسمال اور کاٹیج انڈسٹری قائم کرنا
۔13۔آمدنی اور ٹیکسیشن کا جدید نظام قائم کرنا
مندرجہ بالا اقتباس میری زیرِ تصنیف کتاب ” پاکستان سےغربت ،جہالت اور پسماندگی کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟“ سے لیا گیا ہے، موضوع بہت ہمہ گیر اور وسیع ہے، سوشل سائنسز کے موضوعات پر لکھنے میں بہت زیادہ احتیاط اور تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا زیرِ تذکرہ مباحث پر منطقی گفتگو کو کسی نتیجے تک پہنچانے کے لئے 500 سے زیادہ صفحات پر پھیلنے کے امکانات ہیں، کتاب کی طباعت اور اشاعت اگلے سال کے وسط تک ہی ممکن ہوسکے گی۔
♦
5 Comments