سبط حسن
کہانی کو سیکھنے کے ذریعے(ریسورس )کے طور پر استعمال کرنا
سیکھنے سکھانے کا معاملہ محض معلومات کو رٹوا دینے پر ختم نہیں ہو جاتا۔ یہ دراصل ایک مربوط عمل ہے اور اس کے تین عناصر ہوتے ہیں۔ معلومات ، مہارتیں اور رویے ۔ مثال کے طور پر اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ارد گرد ہریالی ہو تو آپ بچوں کوسب سے پہلے پودوں سے متعلق معلومات دیں گے ۔ مثلاََ، پودے کس طرح ہمارے ماحول میں آکسیجن کا توازن برقرار رکھتے ہیں؟پودوں سے ہم ضروری ادویات اور خوراک وغیرہ حاصل کرتے ہیں اور یہ کہ پودے کس طرح اگتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
مہارتوں کے سلسلے میں ان کو سیکھنے کی مہارتیں مثلاً مشاہدہ، مفروضہ قائم کرنا، پیش گوئی کرنا، معلومات کو ایک تسلسل میں سمجھنا اور نتیجہ اخذ کرنا وغیرہ وغیرہ اورہاتھ سے کام کرنے کے طریقے، جیسے زمین کھودنا، قلم بنانا، پانی دینا، بیج لگانا وغیرہ بچوں کو سکھاتے ہیں۔ اگر بچّوں کو معلومات دے دیں اور انھیں مہارتیں بھی سکھا دیں تو پھر بھی آپ کے ارد گرد ہریالی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ پودوں کو پالنے کے لیے پودوں سے پیار،پودوں کا تحفظ اوران کی نشوونما کے لیے خیال رکھنا ضروری ہیں۔
معلومات، مہارتیں اور رویے جب باہم مل جائیں تو ان سب کو سیکھنے والا بچہ اپنے ارد گرد کی زندگی سے منسلک ہو جاتا ہے۔ جب وہ زندگی سے منسلک ہو جائیگا تو وہ زندگی پر سوال اٹھائے گا۔ مثال کے طور پر جو بچہ پودوں کے بارے میں ان تینوں عناصر کو سیکھ جائے گا تو وہ کسی کو پودوں کو کاٹتے دیکھ کر ایسے ہی بیٹھا نہ رہے گا۔ اسے تکلیف ہو گی اور وہ پودوں کی حفاظت کے سلسلے میں احتجاج کرے گا۔ جب مفاد پرست لوگ جنگلات سے درخت کاٹیں گے تو اس پر ان تین عناصر پر تربیت یافتہ بچے احتجاج کریں گے کیونکہ وہ درخت کاٹنے کے اثرات کو بخوبی سمجھتے ہوں گے۔ان تین عناصر پر مبنی تعلیم و تربیت محض ایک دفعہ رونما ہونے والا عمل نہیں، یہ اپنے اندر مسلسل نشوونما اور ارتقأ کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس طرح بچہ اپنے طور پر سیکھتا چلا جاتا ہے۔
اگر سیکھنے کے عمل کو صرف معلومات کو یاد کروانے تک محدود کر دیا جائے تو ایسی صورت میں سیکھنے کا عمل سرے سے شروع ہی نہیں ہوتا۔ بچہ معلومات کو یاد کرنے کے بعد امتحان میں اُگل دیتا ہے اور پھر ان معلومات کو بھول جاتا ہے۔ اگر معلومات کو سمجھا دیا جائے اور اس کے بعد سیکھنے کے اعلیٰ مدارج یعنی معلومات کے اطلاق ، تجزیہ اور تخلیق تک لے جایا جائے مگر مہارتوں اور رویوں سے اسے بے گانہ رکھا جائے تو پھر بھی زندگی سے عاری ایسا مزاج پیدا ہو گا جس کے پاس علم تو ہو گا مگر وہ اسے زندگی کے ساتھ منسلک نہیں کر سکے گا۔
جیساکہ اوپر پودوں سے متعلق مثال سے ظاہر ہوتا ہے، اگر بچوں کو صرف معلومات دے دی جائیں تو کیا وہ ایک ہرے بھرے ماحول کو بنانے میں ممد ہوں گے۔ اسی طرح اگر معلومات کے مدارج کو سیکھنے کی مہارتوں سے منسلک کر دیا جائے تو اعلیٰ علم تو پیدا ہو گا۔ اس علم کا مادی دنیا سے تعلق بھی قائم ہو جائے گا۔ جیساکہ پودوں کی مثال سے ظاہرہوتا ہے۔۔۔ بچے معلومات اور مہارتیں سیکھ کر پودوں کی افادیت اور ان کو اگانے کے معاملات کو بخوبی سمجھ جائیں گے مگر اس صورتحال میں اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ پودے نشوونما پائیں گے کیونکہ جب تک پودوں کے تحفظ اور ان سے پیار کا رویہ نہ ہوگا، پودے پھول پھل نہیں پائیں گے۔
یہ اسی طرح ہے کہ کسی عورت کو بچے کی نشوونما سے متعلق معلومات حاصل ہیں، وہ بچے کو سنبھالنے کی مہارتیں بھی جانتی ہے مگر اس میں ممتا کے رویے نہیں تو بچہ پل نہیں سکے گا۔ بچے کی وقت اور بے وقت ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ممتا ہونا لازم ہے۔صرف معلومات اور مہارتوں کے حصول کے بعد ایک ماہر پیشہ ور سائنس دان، ڈاکٹر، انجینئر یا مینجر تو ضرور بن سکتا ہے مگر وہ انسانوں میں کام کرنے کا اہل نہ ہو گا۔ جب تک اس میں انسانی احساس سے متعلق رویے نہ ہوں گے، وہ انسانوں کے لیے آسانیوں پیدا کرنے سے قاصر رہے گا۔
کہانی کسی بھی بچّے کو اپنے اندر سموئے تجربے کو مربوط ڈھنگ میں سیکھنے کی دعوت دیتی ہے۔ کسی بھی کہانی میں معلومات ، کرداروں کے رویے اور زندگی سے متعلق ان کی مہارتیں ایک دوسرے میں پیوست ہو کر کہانی تخلیق کرتے ہیں۔ دوسرے جانب کہانی کو پڑھنے والابچہ بھی اپنی انھی صلاحییّتوں کو بروئے کار لا کر کہانی کے اندر اترتا ہے۔ اس طرح دونوں کے تال میل سے کہانی کی گرفت بنتی ہے۔ کہانیوں کو بچے میں انفرادیت اور ناقدانہ سوچ پیدا کرنے کے لیے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس مشق سے بچے میں بیانیے پر سوال اٹھانے اور نیا بیانیہ تشکیل دینے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔ اس مشق کے دوران ان پہلووں پر خصوصی توجہ دی جاسکتی ہے۔
تخیّل یا چشمِ تصوّر میں غیر موجود کیفیات کو محسوس کرنا ایسی صلاحیت ہے جو انسانوں کو دیگر جانداروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ ایسی صلاحیت ہے جس کی بدولت کسی تجربے میں سے اسی طرح گزرا جا سکتا ہے کہ گویا یہ حقیقی ہو۔ مثال کے طور پر آئن سٹائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں تخیل کرنے کی صلاحیت اس قدر تھی کہ انھوں نے تخیل میں روشنی کی رتھ میں بیٹھ کر ، روشنی کی رفتار سے کائنات کا سفر کیا۔ اسی تجربے کی بنیاد پر انھوں نے نیوٹن کی طبیعیات کو زمین کی حدود سے نکال کر کائنات کی لا محدود وسعت عطا کردی۔
سائنسی تحقیق میں اپنے تجربے یا مشاہدے کو وسعت دینے کی ممکنات کو تخیّل کی مدد سے مفروضے کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کسی نے لکڑی کے تنوں کو ڈھلان پر لڑھکتے دیکھا تو اس نے اپنی چشمِ تصوّر میں دیکھا کہ اگر تنے کو چھوٹی لمبائی میں کا ٹ دیا جائے تو اسے بھی بڑے تنے کی طرح لڑھکنا چاہیے۔ لڑھکنے کے امکان کو تخّیل میں جانچنے کے بعد ایک مفروضہ بنایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جب تخّیل کا خام مال حقیقی معلومات ہوتی ہیں تو حقیقی زندگی میں تبدیلی کے امکانات کے مفروضے بنتے ہیں۔ یہ عمل بے لگام نہیں ہوتا بلکہ سائنسی تحقیق کو ممکنات کی راہ پر بنائے رکھتا ہے۔
اس کے برعکس اگر تخیّل کی سرگرمی ایسے خیالات پر مبنی ہے جن کا حقیقی دنیا سے نہ تو کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی اس دنیا کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔ اس عمل کا حاصل حقیقی ممکنات سے نہیں ہوتا۔ یہ غیر محدود طور پر دشتِ تخیّل میں گرداں رہتے ہیں۔ سائنسی مشاہدے پر مبنی مفروضے کو تجربے کے ذریعے جانچا جاتا ہے۔ اگر تجربے سے شہادت مل جائے تو مفروضہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایڈیسن کی مثال لیں۔ اس نے بلب ایجاد کرنے کے سلسلے میں بے شمار تجربات کیے مگر سب نا کامیاب رہے ۔ ارد گرد کے لوگوں نے اسے سمجھایا کہ اسے تجربات کا یہ سلسلہ ختم کردینا چاہیے۔ اس نے پھر بھی اپنا کام جاری رکھا۔
اس نے لوگوں کو سمجھایا کہ بلب ضرور ایجاد ہو گا۔ اب اتنے تجربات کے بعد صرف وہی تجربات رہ گئے ہیں جن میں سے کوئی نہ کوئی تجربہ کامیاب ہو جائے گا۔سوال یہ ہے اس نے تجربات کا سلسلہ کیوں جاری رکھا۔ دراصل وہ اپنے تخیّل میں ناکام تجربات کو محض نا کامیاب نہیں دیکھ رہا تھا۔ یہ ناکامیاں ایک عمل کا حصہ تھیں اور وہ اس کے بنیادی مفروضے کو تقویّت دے رہی تھیں۔ اس طرح وہ اپنے تخیّل میں واضح طور پر دیکھ رہا تھا کہ اس کی تحقیق جس طرف جارہی تھی اس میں باقی رہ جانے والے تجربات لازماََ اسے کامیابی کی طرف لے کر جائیں گے۔
تخیّل کرنا ایک مہارت ہے اور اسے مشق کے ذریعے بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایک مصور کی آنکھ اور اس کی تخیل کرنے کی صلاحیت عام لوگوں سے بہتر ہوتی ہے۔ اسی طرح سونگھنے ، دیکھنے ، ہاتھوں سے محسوس کرنے اور تخیل کرنے کی صلاحیتیں ایک شیف کو ایک عام آدمی سے منفرد بناتی ہیں۔
جس شخص میں تخیل کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو گی، کہانی کا اثر بھی اس پر زیادہ ہوگا۔ ایسے لوگ فلم یا کہانی کے تجربے کے دوران افسردہ ہوتے ہیں، رولیتے ہیں اور اگر کہانی ڈراؤنی ہو تو بہت زیادہ ڈر جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ پر رکھ کر با لکل انھی کی طرح ان کے احساسات اور جذبات کو محسوس کر نے کی اہلیت رکھتے ہیں۔یہی صلاحیت ، انسان ہونے کی شہادت ہے۔ انسان میں تشدد اور غارتگری کی بے پناہ صلاحیت ہے اور تاریخ اس کی واضح طور پر تصدیق کرتی ہے۔
اگر انسا ن اپنے اندر دوسروں کے احساس کی صلاحیت سے کام نہ لیتا تو نسل انسان ڈائینو سار کی طرح کب کی فناہو چکی ہوتی ۔ ڈائینو سار متشدد تھے، انھوں نے اسی حس کے تحت دوسروں کو تو مار ڈالا مگر خود بھی اسی تشدد کا شکار ہو گئے۔ جو متشدد ہوتا ہے اسے اس احساس کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بصورتِ دیگر ملائم خو جاندار کو ایسے احساس کی شاید ضرورت نہ ہو۔
بچوں کے تخیل کی تربیت کے لیے کہانیوں کو ایک موثر حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پرپریم چند کی کہانی ’کفن‘ سناتے وقت یہ سوالات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہانی تیرہ، چودہ سال کے بچوں کے لیے موزوں ہے۔
۔1 ۔ جب دونوں باپ، بیٹا جھونپڑی کے باہر بیٹھے ہوئے آلو کھا رہے ہوتے ہیں تو کہانی سنانا بند کر کے بچوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اب کیا ہو سکتا ہے۔بچے جو ممکنات بتائیں ان پر بچوں سے ان کی دلیل سنیں اور دیگر بچوں کی اس پر رائے لیں۔
۔2 ۔ کیا آپ نے کبھی کسی کے بارے میں ایسا سنا ہے کہ وہ اپنی معمولی سی خواہش کے لیے کسی دوسرے کی مدد سے گریز کرے، جیسا کہ اس کہانی میں باپ بیٹا آلو کھانے کو زیادہ اہمیت دے رہے تھے۔
۔3۔یہ باپ بیٹا جس قسم کی بے حسی والی زندگی گزار رہے تھے ، کیا آپ اس کی وجہ بتا سکتے ہیں؟
۔4۔روپے ختم کرنے کے بعد جب بیٹا اپنی بیوی کے کفن کے بارے میں پریشان ہوتا ہے تو اس کا باپ اسے تسلی دیتا ہے کہ اگر وہ دس دفعہ بھی لوگوں سے پیسے لے کر کھا جائیں تو پھر بھی لو گ کفن کے لیے انھیں پیسے ضرور دیں گے۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟ ہاں یا نہ دونوں صورتوں میں اپنے دلائل دیں۔
۔5 ۔ جب لوگوں میں ان دونوں باپ بیٹے جیسا احساس پیدا ہو جائے تواخلاقی پسماندگی کے علاوہ اس کی حقیقی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟
۔6۔کیا اقتصادی بد حالی کسی بھی فرد کو زندگی کے مروجہ طریقوں سے لاتعلق ہونے پر مجبور کر سکتی ہے؟
اسی طرح چیخوف کی کہا نی جس میں کوچوان کا بچہ مر جاتا ہے کے بارے میں یہ سوالات کیے جاسکتے ہیں:۔
۔1۔ کیا آپ کو کبھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس میں آپ دل گرفتہ ہوں اور آپ کسی کے ساتھ اپنے دل کی بات کرنے کے لیے تڑپ رہے ہوں؟ اگر ہاں تو اس احساس کی شدت اور ضرورت پر گفتگو کریں۔یاآپ نے کسی کو اس حالت میں دیکھا ہو تواس کے احساس پر بات کریں۔
۔ 2۔ جب کوچوان اپنے بچے کی موت کے دکھ میں تانگہ لے کر باہر جاتا ہے، اگر آپ اس کے تانگے میں سوار ہو جاتے اور کوچوان آپ سے اپنے بچے کے مرنے کی بات کرتا تو آپ کیا کرتے؟
۔3۔ اس کہانی میں جس قسم کے لوگوں پر مشتمل معاشرے کی بات کی گئی ہے اس کا اپنے ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ موازنہ کریں۔
آدمی اور شیر کی کہانی پر یہ سوالات کیے جاسکتے ہیں:۔
اگر آپ اپنی کہانی لکھنا چاہیں اورآپ کویہ کہانی اپنی مرضی سے لکھنے کی پوری آزادی ہو توآپ کونسی کہانی لکھنا پسند کریں گے۔ واضح رہے کہ اس کہانی میں آپ کے ارد گرد لوگ مثلاََ والدین یا اساتذہ جو کہتے ہیں اس سے قطع نظر اپنے دل کے مطابق لکھ سکتے ہیں۔
قسط اول
کیا آپ بیتی لکھنا ممکن ہے؟-1
قسط دوم
کیا آپ بیتی لکھنا ممکن ہے؟-2
قسط سوم
کیا آپ بیتی لکھنا ممکن ہے؟۔3
قسط چہارم
کیا آپ بیتی لکھنا ممکن ہے؟.4
قسط پنجم
کیا آپ بیتی لکھنا ممکن ہے؟.5
قسط ششم