طارق احمدمرزا
مبارک ہو،خیر سے پاکستان اقوام متحدہ کی کونسل برائے حقوق انسانی کا ممبر منتخب ہو گیا ہے۔یہ کونسل سن دوہزار چھ میں اقوام متحدہ کے سابق کمیشن برائے حقوق انسانی کو ختم کرکے وجود میں لائی گئی تھی ۔سابق کمیشن پر اعتراض یہ تھا کہ اس کے ممبرایسے ممالک بھی بن سکتے تھے جن کاانسانی حقوق کا اپنا ریکارڈقابل اعتراض ہوتا تھا۔لیکن کیانئی کونسل کی ممبرشپ کے قواعد وضوابط ایسے ہیں جو ایسے ممالک کی رکن بننے کی راہ روک سکتے ہیں جن میں انسانی حقوق کاریکارڈاچھا نہیں؟۔ظاہر ہے کہ عملاً ایسا نہیں۔
انتخاب سے قبل ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کینتھ روتھ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ایسے ممالک کو اقوام متحدہ کی کونسل برائے حقوق انسانی کی رکنیت کے لئے منتخب نہیں کرنا چاہئے جن کا اپنا انسانی حقوق کا ریکارڈ خراب ہے۔انہوں نے بعض دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کو کونسل کا ممبربنائے جانے کی بھی مخالفت کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کے ارکان پر منحصر ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی حکومتوں کو کونسل سے باہر رکھے تاکہ یہ کونسل حقوق انسانی کی صحیح چیمپئن بن سکے۔(بی بی سی ڈاٹ کام)۔ کانگو جیسے ملک کا بھی اس کونسل کا ممبر منتخب ہوجانا،جہاں انسانی حقوق کی افسوسناک پامالی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، کونسل کی ممبر شپ کی اہلیت کے معیار پر سوالیہ نشان ثبت کررہاہے۔
پاکستان کو انسانی حقوق کے ضمن میں سزائے موت کے خاتمہ،اقلیتوں کے تحفظ،آئین اور توہین مذہب کے قوانین،آزادی ضمیر اورآزادی اظہارپر قدغن ،چائلڈ لیبر ، کمسنی کی شادی،عورتوں،کسانوں ،ہاریوں،ملازمین بھٹہ خشت کی حالت زار،جیلوں کی ابتر حالت،ماورائے قانون قتل،فرقہ وارانہ تشدد،شدت پسندمذہبی گروہوں کی مبینہ پشت پناہی ،مبینہ جبری گمشدگیاں،اقلیتی لسانی اقوام کامبینہ استحصال اور دیگر کئی سلگتے مسائل سے بے اعتنائی یا غفلت برتنے پر عالمی سطح پہ تنقیدکا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کونسل کا ممبر منتخب ہوجانے کے بعد عالمی برادری یقیناًچاہے گی کہ پاکستانی حکومت مذکورہ بالا تمام ایشوز پرپاکستانی قوم اور عالمی برادری کو اعتماد میں لے اور انسانی حقوق کی بحالی اور دوام کے لئے مثبت اور راست اقدام اٹھائے۔
حالت تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے حقوق انسانی کے سربراہ بابرنواز خان پاکستان نیشنل ہیومن رائٹس کمشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس علی نواز چوہان کے ساتھ بدتمیزی کرکے انہیں کمرے سے باہر بھجوادیتے ہیں اور جواب میں کمشن کے اراکین سٹینڈنگ کمیٹی کو اپنی توجہ کمشن کی کارکردگی کی بجائے ملک میں انسانی حقوق کی طرف مرکوزرکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس قسم کی تمام میٹینگز وغیرہ ’’نشستن ،خوردن،کشتن،برخواستن ‘‘سے زیادہ کوئی عملی حیثیت نہیں رکھتیں۔
پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن نے کچھ رپورٹس بھی شائع کی ہیں لیکن متعلقہ قومی اداروں یا سرکاری محکموں نے ان کا کوئی نوٹس بھی لیا ہے یا نہیں،معلوم نہیں۔نوٹس لیا بھی ہو تو جب تک عام آدمی کی حالت جوں کی توں رہتی ہے یہ رپورٹس عام آدمی کے لئے ردی کے ڈھیر سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔
انکوائری کمیٹی برائے جبری گمشدہ افرادکے اجلاسات کی رپورٹس ہی پڑھ لیں یہی سرپھٹول دیکھنے اور پڑھنے کو ملے گی۔ہیومن رائٹس کمیشن کہتا ہے مناسب قانون سازی ہونی چایئے ، سینٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ قانون تو موجود ہے ادارے اس پر عملدرآمد نہیں کر رہے،پارلیمانی انکوائری کمیٹی کے ممبر خود بے بس ہیں۔
طرفہ تماشا ہے کہ حکومت یہ مؤقف اپنائے ہوئے ہے کہ یہ کمیشن چونکہ عدالتی کمیشن نہیں لہٰذا اس کی نگرانی کی ذمہ دار پارلیمنٹ ہے۔پارلیمنٹ اس کی نگرانی کیسے کر سکتی ہے جب وہ خود ہی بے بس ہو۔
جناب جسٹس(ر) جاوید اقبال صاحب کا کہنا تھا کہ گمشدگیوں میں بیرونی عناصر کا ہاتھ ہے جبکہ نسرین جلیل صاحبہ کا فرمانا ہے کہ جبری گمشدگی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہاتھ ہے لہٰذہ انہی کو تحقیقات پر مامور کیا جائے۔اگر نسرین جلیل صاحبہ درست فرماتی ہیں توپھر سوال اٹھتا ہے کہ بِلے کو دودھ کا راکھا کیسے بنایا جا سکتاہے؟۔
♥