گزشتہ پانچ سو سالوں نے کئی نقلاب دیکھے ہیں۔ ہماری اس زمین کو واحد ماحولیاتی اور تاریخی کرے میں متحد کر دیا گیا ہے۔ معیشت نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ بنی نوع انسان آج اس دولت سے لطف اٹھا رہا ہے جس کا تصور صرف کہانیوں میں ملتا تھا۔ سائنس اور صنعتی ترقی نے انسان کو بے پناہ طاقت اور توانائی بخش دی ہے۔ سماجی ڈھانچہ بدل چکا ہے۔ سیاست بدل چکی ہے۔ روزمرہ کی زندگی اور انسانی نفسیات بدل چکی ہے۔ لیکن کیا ہم پہلے سے زیادہ خوش ہیں ؟ دوسرے سینکڑوں سوالوں کے ساتھ یہ وہ اہم سوال ہے جو یول نوا ہریری نے اپنی نئی کتاب بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ میں اٹھایا ہے۔
یہ کتاب آج کل ٹورانٹو کے علمی ادبی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ کل شام کے کھانے پر ہماری اس کتاب کے بارے میں گفتگوہوتی رہی۔ شریک گفتگو ڈاکٹر خالد سہیل اور امریکہ سے آئی ہوئی مہمان ڈاکٹر لبنی مرزا تھی۔ یہ دونوں اچھے ڈاکٹرز بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں اور اکثر لکھتے رہتے ہیں۔ اس کتاب میں پیش کیے گئے خیالات سے اختلاف اور اتفاق کی بہت گنجائش ہے۔ مگر بہت لوگ یہ کتاب خرید رہے ہیں۔ پڑھ رہے ہیں۔ تو سولات کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے مصنف پوچھتا ہے کہ کیا انسان نے گزشتہ پانچ سو برسوں میں جو دولت جمع کی ہے وہ اس کے لیے کسی مسرت کا باعث بنی ہے؟ کیا کبھی نہ ختم ہونے والی توانائی کے ذخائر ہمارے لیے خوشیوں کے نہ ختم ہونے والے خزانے کھولتے ہیں۔
تھوڑا سا پیچھے جا کر دیکھیں تو کیا ستر ملین سال کے سفر نے دنیا کو رہنے کے لیے پہلے سے بہترجگہ بنا دیا ہے۔ کیا نیل آرم سٹرانگ جس نے چاند پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑے ہیں تیس ہزار سال پرانے اس بے نام شکاری سے زیادہ خوش تھا جس کے ہاتھوں کے نشان فرانس کی ایک قدیم غار سے ملے ہیں۔ اگر نہیں ؟ تو پھر زراعت کی ترقی، شہر بنانے، لکھنے پڑھنے، سلطنتیں کھڑی کرنے، سائنس اور صنعت کی کیا ضرورت تھی۔ ہمارے تاریخ دان یہ سوال نہیں پوچھتے۔ وہ یہ نہیں پوچھتے کہ قدیم بابل کے شہری اپنے اجداد سے زیادہ خوش تھے۔ یا کیا اسلام کی آمد نے مصری لوگوں کی زندگی پہلے سے زیادہ پر مسرت بنا دی۔ یا پھر یورپین سلطنتوں کے خاتمے نے افریقہ کے ملین لوگوں کی خوشیوں پر کیا اثر ڈالا ؟
یہ انتہائی اہم سولات ہیں جو کوئی تاریخ سے پوچھ سکتا ہے۔ انسانی مسرت کے بارے میں ہمارے وقت کے بیشتر سیاسی اور نظریاتی پروگرام کمزور یا بے اعتبارخیالات پر مبنی ہیں۔ قو م پرست سمجھتے ہیں کہ ہماری خوشیوں کے لیے سیاسی حق خود ارادیت ناگزیر ہے۔ کمیونسٹوں کا مانناہے کہ پرولتاری آمریت یا مزدور راج میں ہر کوئی خوش رہ سکتا ہے۔ سرمایہ داروں کا اصرار ہے کہ صرف آزاد منڈی ہی عوام کی عظیم اکثریت کو حقیقی خوشیاں دے سکتی ہے۔ ایسا معاشی ترقی اور خوشحالی سے ہو سکتا ہے۔ لوگوں کو اپنے آپ پر دارومدار اور ہنر سیکھنے سے ہو سکتا ہے۔
لیکن اگر سنجیدہ تحقیق اس خیال کو رد کر دے تو کیا ہو گا ؟ اگر معاشی ترقی انسان کو مطمئن نہیں کر سکتی تو سرمایہ داری نظام کا کیا فائدہ ہے۔ اگر یہ پتہ چلے کہ بڑی سلطنتوں کے شہری عام طور پر خودمختار ریاستوں کے شہریوں سے زیادہ خوش ہیں۔ مثال کے طور پر گھانا کے لوگ اپنی مقامی آمریتوں سے زیادہ برطانوی راج میں زیادہ خوش تھے۔ اور اگر یہ سچ ہو تو پھر نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور اور حق خود ارادیت کی کیا اہمیت و افادیت ہو گی۔ یہ سارے فرضی یا قیاسی امکانات ہیں۔ اس لیے کہ اب تک تاریخ دانوں نے یہ سولات اٹھانے سے گریز کیا ہے۔ جواب کی تو بات ہی نہیں۔ تاریخ دان ہر چیز پر تحقیق کر چکے ہیں۔ سیاست، معیشت، جنس ، بیماریاں، جنسیت، خوراک، لباس۔ مگر وہ شاذو نادر ہی رک کر پوچھتے ہیں کہ یہ سب چیزیں انسانی خوشیوں پر کیسے اثر اندوز ہوتی ہیں۔
عام خیال یہ ہے کہ تاریخی سلسلہ عمل میں انسان کی مجموعی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کچھ لوگ اپنی صلاحیتوں کو انسانی مصائب کے خاتمے اور اپنی آرزوں کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے قرون وسطی کے اباو اجداد سے زیادہ خوش رہنا چاہیے۔ اور قرون وسطی والوں کو پتھرکے زمانے کے لوگوں سے زیادہ خوش رہنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ خیال زیادہ قائل کرنے والا نہیں ہے، ہم دیکھ چکے ہیں کہ نئے رویے اور نئی مہارتیں ضروری نہیں کہ بہتر زندگی کا باعث ہوں۔ زرعی انقلاب کے نتیجے میں کسان اپنی ضروریات کے لیے سخت محنت پر مجبور ہوا۔ وہ پہلے سے زیادہ بیماری اور استحصال کا شکار ہوا۔
اسی طرح یورپین سلطنتوں نے نئے خیالات، تکنیک اور فیصلوں کے ذریعے انسان کی اجتماعی طاقت میں اضافہ کیا، تجارت کے نئے راستے کھولے ، لیکن یہ اربوں افریقیوں، دیسی امریکیوں اور آسٹریلیا کے اصلی باشندوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں تھی۔ انسان میں طاقت کے غلط استعمال کے ثابت شدہ رحجانات کی موجودگی میں یہ مان لینا معصومیت ہو گی کے مزید طاقت اور اثر و رسوخ انسان کو پہلے سے زیادہ خوشی دے سکتا ہے۔
کچھ لوگوں کی رائے اس کے بر عکس ہے۔ ان کا خیال ہے طاقت بد عنوان بناتی ہے۔ پہلے زرعی انقلاب اور پھر صنعتی انقلاب نے ہم لوگوں کو غیر فطری زندگی گزارنے پر مجبو کر دیا۔ یہ زندگی ہمارے اندر کی حقیقی تڑپ کی تسکین نہیں کر سکتی۔ متوسط طبقے کی شہری خوشحال زندگیوں میں کوئی ایسی چیز نہیں جو انہیں وہ جوش و خروش دے سکے جو شکار کے زمانے کے انسان کو شکاری دستے کے ساتھ مل سکتی تھی۔ ہما ری ہر نئی ایجاد ہمارے اور باغ جنت کے درمیان مزید ایک میل کا فاصلہ بڑھا دیتی ہے۔
( نوٹ کتاب سے ا قتسابات اور اس پر تبصرے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یاد رہے کہ یہاں کتاب کا لفظی ترجمہ نہیں کیا جا رہا بلکہ اہم خیالات کو اپنے الفاظ اورآسان انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے )۔