بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسند تنظیم ’جیش محمد کا ایک اہم کمانڈر‘ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ سری نگر ایئر پورٹ کے قریب پیرا ملٹری دستوں کے ایک کیمپ پر حالیہ خونریز حملے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ یہی شدت پسند تھا۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سری نگر سے موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس مارے جانے والے سینئر عسکریت پسند رہنما کا نام خالد تھا، جو جیش محمد نامی شدت پسند تنظیم کا ایک اہم کمانڈر تھا۔
کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل منیر احمد خان نے پیر نو اکتوبر کے روز بتایا کہ ماضی میں بھارتی سکیورٹی اہلکاروں پر کئی مسلح حملوں میں ملوث رہنے والا یہی عسکریت پسند رہنما گزشتہ ہفتے سری نگر ایئر پورٹ کے قریب بھارتی پیرا ملٹری دستوں کے ایک کیمپ پر کیے گئے خونریز حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی تھا۔
اس حملے میں اطراف کے مابین کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے فائرنگ کے تبادلے میں ایک بھارتی سرحدی محافظ اور تین عسکریت پسند مارے گئے تھے۔
انسپکٹر جنرل منیر احمد خان نے بتایا کہ ضلع بارا مولا میں عسکریت پسندوں کا یہ کمانڈر پولیس کے ساتھ فائرنگ کے ایک تبادلے میں مارا گیا۔ بھارتی پولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ شدت پسند رہنما ایک پاکستانی شہری تھا، جس نے پہلے بارا مولا میں پولیس کی ایک چیک پوسٹ پر فائرنگ کی تھی۔
اس کے بعد وہ ایک قریبی مکان میں محصور ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی دوران اس کا پولیس کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے نتیجے میں وہ مارا گیا۔
ڈی پی اے نے مزید لکھا ہے کہ بھارتی میڈیا رپورٹوں کے مطابق خالد نامی اس عسکریت پسند کی تربیت مبینہ طور پر پاکستان میں ہوئی تھی اور وہ 12 عسکریت پسندوں کے ایک گروہ کا کمانڈر تھا۔
کشمیر میں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ خالد اپنے ساتھيوں کے ہمراہ کشمیر میں کنٹرول لائن پار کر کے پاکستان کے زیر انتظام علاقے سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوا تھا۔ بھارتی حکام کے مطابق جیش محمد ایک ایسی عسکریت پسند تنظیم ہے، جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم بڑے شدت پسند گروپوں میں سے ایک ہے۔
جنوبی ایشیا میں دہشت گردی اور اس کے اثرات پر نظر رکھنے والی ایک ویب سائٹ کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک کے دوران ہزاروں خونریز واقعات میں اب تک کم از کم بھی 44 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ تاہم اس خطے پر بھارتی حکمرانی کے خلاف سرگرم کشمیری تنظیموں کے مطابق کشمیر میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد 44 ہزار سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔
DW
♣