لیاقت علی ایڈوکیٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس اجمل میاں آج کراچی میں انتقال کرگئے۔ اجمل میاں متحدہ ہندوستان دارالحکومت کے دہلی کے ایک کاروباری خاندان میں یکم جولائی 1934میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم شعیب محمدیہ سکول آگرہ سے حاصل کی تھی۔آگرہ میں ان کے والد کا تاج شو کمپنی کے نام سے جوتوں کا بہت اچھا کاروبار تھا۔
تقسیم ہند کے بعد اجمل میاں کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا ۔ کراچی میں ان کے والد نے الفنسٹن سٹریٹ صدر( حال زیب النسا سٹریٹ ) پردوبارہ اپنا جوتوں کا کاروبار شروع کر دیا ۔ کراچی میں ان کے والد کی دوکان انگلش بوٹ ہاوس کے نام سے مشہور تھی ۔ اجمل میاں نے میٹرک کا امتحان کراچی یونیورسٹی سے 1949 میں پاس کیا تھا۔
اجمل میاں پر الزام تھا کہ انھوں نے میٹر ک کبھی پاس کیا ہی نہیں تھا اور ایف ۔ائے فرسٹ ایئر میں محض ایک بیان حلفی پیش کرنے پر انھیں داخلہ مل گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ان کی تاریخ پیدائش کو لے کر اجمل میاں کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی ۔ اپنی پٹیشن میں سجاد علی شاہ نے الزام لگایا تھا کہ اجمل میاں کی اصل تاریخ پیدائش یکم جولائی 1932 ہے نہ کہ یکم جولائی 1934جیسا کہ انھوں نے اپنے عدالتی ریکارڈ میں درج کر رکھا ہے۔ سجاد علی شاہ کی یہ پٹیشن سپریم کورٹ کے جسٹس ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے 30 ۔اپریل 1998کو مسترد کر دی تھی ۔
سجاد علی شاہ کے الزام کی بنیاد وہ سی وی بنا تھا جو جسٹس اجمل میاں نے سپریم کورٹ کا جج بنتے وقت دیا تھا اور یہ سی وی پی۔ ایل۔ ڈی 1999 میں چھپا بھی تھا ۔اپنے سی وی میں جسٹس اجمل میاں نے اپنے میٹرک پاس کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ ان پر الزام لگانے والوں کا موقف تھا کہ کیونکہ میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں تاریخ پیدائش درج ہوتی ہے اسی لئے اجمل میاں نے میٹرک پاس کرنے کا کوئی حوالہ نہیں دیاتھا۔
تاکہ ان کی اصل تاریخ پیدائش کا پتہ نہ چل سکے جب کہ اجمل میاں کا موقف تھا کہ انھوں نے اپنا سی وی جسٹس حمودالرحمان کے سی وی کو پیش نظر رکھتے ہوئے تیار کیا تھا اور جسٹس حمود الرحمان نے چونکہ اپنے سی وی میں میٹرک کے امتحان کا ذکر نہیں کیا تھا لہذا انھوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا ۔ ان کے نزدیک ایسا انھوں نے بدنیتی سے نہیں کیا تھا بلکہ یہ کوتاہی سہوا ہوئی تھی۔
کراچی یونیورسٹی سے گرایجوایشن کرنے کے بعد وہ بیر سٹری کرنے برطانیہ چلے گئے ۔ انگلستان سے واپسی پر انھوں نے کراچی میں پریکٹس کا آغاز کیا تھا۔ مارچ 1978 میں انھیں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا ء الحق نے سندھ ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج مقرر کیا تھا۔ اجمل میاں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس( مارچ 1985 ۔ مارچ 1987)کے طور پر بھی اپنے فرائض انجام دیئے تھے۔
یہ جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لا کا دور تھا اس دور میں نہ صرف جج بننا بلکہ ترقی کی منازل طے کرنا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک کہ فوجی حکومت کی خوشنودی حاصل نہ ہو۔ اجمل میاں ہر لحاظ سے فوجی حکمرانوں کی توقعات پر پورا اترے تھے۔4 ۔ ستمبر 1988 کو صدر غلام اسحاق خان نے جسٹس اجمل میاں کو چیف جسٹس سند ھ ہائی کورٹ مقرر کردیا ۔10 دسمبر 1989 کو انھیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ نواز شریف کا دوسرا دور حکومت تھا۔
اجمل میاں چیف جسٹس سپریم کورٹ کیسے بنے یہ واقعہ بھی بہت انوکھا ہے۔ جب چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ اور وزیر اعظم نواز شریف کے مابین 1997 تنازعہ شدت اختیار کر گیا تو جسٹس رفیق تارڑ جو ان دنوں مسلم لیگ کے سینٹر تھے اور وزیر اعظم کے عدلیہ پر غیر رسمی مشیر تھے کی کوششوں سے سپریم کورٹ کا جوکوئٹہ بنچ تشکیل ہوا تھا اس کی سربراہی جسٹس سعیدالزماں صدیقی کو سو نپی گئی تھی ۔
جسٹس سعید الزماں صدیقی نے دس برادر ججوں کے بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے 2 ۔دسمبر1997 کو چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ کو عدالتی فرائض ادا کرنے سے روک دیا تھا اور سنیئر موسٹ جج جسٹس اجمل میاں کو قائم مقام چیف جسٹس نامز د کر دیا تھا۔جسٹس اجمل میاں نے اسی دن قائم مقام چیف جسٹس سپریم کورٹ کا حلف اٹھا لیا تھا ۔23 دسمبر 1997 سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں دس رکنی سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس کے عہدے سے معزول کرکے انھیں سپریم کورٹ کا جج بنادیا تھا اور جسٹس اجمل میاں کو چیف جسٹس مقرر کردیا ۔ جسٹس اجمل میاں نے اسی روز اپنے عہدے کا حلف لے لیا تھا۔
جسٹس اجمل میاں کو چیف جس بلا شبہ اہم رول ادا کیا تھا ۔ جسٹس اجمل میاں نے رفیق تارڑ کے اس احسان کا بدلہ اس وقت اتار دیا تھا جب جو وہ ن لیگ کے صدارتی امیدوار نامزد ہوئے تھے ۔ ان کے مخالف پی پی پی کے امیدوار آفتاب شعبان میرانی نے ان کے کاغذات نامزدگی کوالیکشن کمیشن کے روبرو چیلنج کیاتھا ۔ الیکشن کمشنر عبدالقادر جونیجو نے آفتاب میرانی کی پٹیشن منظور کرتے ہوئے رفیق تارڑکے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیئے تھے۔
رفیق تارڑ نے الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے رفیق تارڑ کے کاغذات نامزدگی منظور کرنے کا حکم دیا تھا۔ آفتاب شعبان میرانی لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔ آفتاب میرانی کی اپیل کا فیصلہ کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا جو بنچ بنا اس میں جسٹس اجمل میاں، جسٹس شیخ ریاض احمد اور جسٹس چوہدری محمد عارف شامل تھے۔ آفتاب شعبان میرانی کی رفیق تارڑ کے خلاف اس اپیل کا فیصلہ جسٹس اجمل میاں نے لکھا اور بھرپور انداز میں رفیق تارڑ کے موقف کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ انھیں ریلیف بھی فراہم کیا تھا۔
جسٹس اجمل میاں پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنے گھر کام کرنے والے سپریم کورٹ کے ملازم کے جرم پر مبینہ طورپر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ جسٹس اجمل میاں کے اس گھریلو ملازم پر الزام تھا کہ اس نے مبینہ طور پر جج صاحب کی کراچی میں واقع سرکاری رہائش گاہ کے سرونٹ کوارٹرز میں رہائش پذیر ایک دوسرے ملازم کی بیٹی سے زنا بالجبر کا مرتکب ہوا تھا ۔
اجمل میاں ایک روایتی جج تھے جو حکمرانوں کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے کیرئیر کو ترقی دینے کے لئے سب کچھ کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں گو کہ ریٹائیر ہونے کے بعد وہ الماری میں رکھے اپنے ضمیر کو جھاڑ پونچھ کر باہر نکالتے اور ٹی۔وی ٹاک شوز میں دیانت اور اصول پسندی کے لیکچر دیتے پائے جاتے تھے ۔
♣
One Comment