علی احمد جان
پنجاب میں سکھوں کی خالصہ سرکار کے خاتمے یا بہ الفاظ دیگرمہاراجہ رنجیت سنگھ سے منسوب تخت لاہور کے زمین بوس ہونے کے ٹھیک سات روز بعد 16 مارچ 1846 کوامرتسرمیں ایسٹ انڈیا کمپنی اور ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ جموں وال کے ایک معاہدہ طے پایا ۔ میثاق امرتسر کے نام سے موسوم اس معاہدے کےنتیجے میں کشمیرکی جس ڈوگرہ ریاست کاقیام عمل میں آیا تھا اس کی بنیاد ایک سو ایک سال سات مہینے اور دس دن بعد ۲۶ اکتوبر ۱۹۴۷ کو کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخطوں کے ساتھ اکھڑ گئی۔پاکستان اور دنیا بھر میں قوم پرست کشمیری اس دن کو یوم سقوط سری نگر کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ ہندوستان اور اس کے حامی کشمیری اس دن کو یوم الحاق کشمیر کا نام دیتے ہیں۔
کشمیر پر دو سو سال تک دہلی کے مغلوں اور کابل کے درانیوں کی حکومت کے بعد1820 میں لاہور کی خالصہ سرکار کا تسلط ہوا جس کے بانی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پہلے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کو بطور جاگیر دی اور پھر1820 میں ہندو ڈوگرہ راجہ گلاب سنگھ کے باپ کشور سنگھ کو موروثی راجہ بنا کرکشمیر میں ڈوگرہ شاہی کی بنیاد رکھی۔
ریاست کشمیر کا اصل بانی ڈوگرہ مہا راجہ گلاب سنگھ جموں وال اپنے باپ کی موت کے بعد 1822 میں تخت نشین ہوکررنجیت سنگھ کی خالصہ سرکار سے نہ صرف مکمل تعاون کرتا رہا بلکہ اس کی حمایت اور مدد سے موجودہ جموں و کشمیر کو اپنے قکمرو میں شامل کرنے کے بعد لداخ اور گلگت تک پیشقدمی بھی کی۔ چونکہ ڈوگرہ خود کو جموں وال کہلانا پسند کرتے تھے اس لئے گلاب سنگھ اور اس کے بھائیوں کو رنجیت سنگھ کے دربار میں جموں برادران بھی کہا جاتا تھا۔
گلاب سنگھ کا بھائی دیہان سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں وزیر تھا جس نے رنجیت سنگھ کو اپنی مٹھی میں لے رکھا تھا۔ گلاب سنگھ کو رنجیت سنگھ سے اپنے کسی جنگی منصوبے کو منوانےاور مالی و عسکری ا مداد حاصل کرنے میں اپنے بھائی دیہان سنگھ کی موجود گی میں زیادہ مشکلات پیش نہیں آتی تھیں ۔
رنجیت سنگھ کی موت کے بعد کے حالات سے نمٹنے کی گلاب نے پہلے سے ہی تیاری کر رکھی تھی ۔ رنجیت سنگھ کے نامزد ولی عہد بیٹے کھڑک سنگھ کو امور مملکت چلانے میں نااہل قرار دے کرسکھوں کے ہری مندر کی تنظیم خالصہ تخت نے نظر بند کرکے ان کے بیٹے نونہال سنگھ کےسر پر تاج رکھا ہی تھا کہ اس کی بھی موت واقع ہوگئی ۔ رنجیت کی پہلی بیوی سے اس کے بیٹے شیر سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا گیا جو ایک سادہ مزاج آدمی تھا جس کے متعلق پیدائش کے وقت جب یہ کہا گیا کہ وہ اور اس کا جڑواں بھائی اصل میں کسی جولاہا اور برھئی کا خون ہیں تو رنجیت سنگھ نے بھی ان کو صحیح النسب ہونے کادرجہ نہیں دیا تھا۔
شیر سنگھ کی سادہ مزاجی سے سے دیہان سنگھ اور گلاب سنگھ نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور خالصہ سرکار کا خزانہ اور جوہرات کی تجوریاں خالی کردیں۔ شیر سنگھ بھی مارا گیا تو رنجیت سنگھ کے پانچ سالہ بیٹے دلیپ سنگھ کوجو اس وقت اپنی ماں کے ساتھ جموں میں تھا اس کو بلا کر تخت لاہور پر بٹھا دیا گیا ۔ کمسن دلیپ سنگھ کے تخت پر بیٹھنے کے بعد جب خالصہ سرکارکی مالی حالت زیادہ خراب ہوئی تو سکھوں کی تنظیم خالصہ تخت نے گلاب سنگھ کو بلا کر سرکاری خزانے سے لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے اور بصورت دیگرسنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی دی۔ گلاب سنگھ کو لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے اور آئندہ طرز عمل ٹھیک کرنےکے وعدے پر معافی تو مل گئی مگررقم لاہور کے دربار میں جمع کرانے کی نوبت نہ آسکی۔
انگریزوں سےپہلی جنگ میں شکست پر تخت لاہور کے کمسن والی دلیپ سنگھ اور ایسٹ اینڈیا کمپنی کے مابین 9مارچ 1846 کو امرتسر میں ایک معاہدہ ہوا ۔ اس معاہدے کے تحت کمسن دلیپ سنگھ کو ان کی ریاست سے محروم کرکے ان کو ایک برائے نام مہاراجہ کی حیثیت دی گئی اور خالصہ سرکار پر ایک بھاری رقم بھی جنگی تاوان کی صورت میں جرمانہ کیا گیاجس کی ادائیگی کی ان کے پاس نہ سکت تھی اور نہ ہی وسائل۔
اس معاہدے کے ایک ہفتہ بعد 16 مارچ1846 کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے گلاب سنگھ کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا جس کے تحت75 لاکھ نانک شاہی کے عوض ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کشمیر ان کے ہاتھ فروخت کردی گئی۔ رقم کی ادائیگی فوراً ہی ہوگئی کیونکہ گلاب سنگھ کے پاس جو لاہور کے خزانے سےچرائی رقم خالصہ سرکار کو واجب الادا تھی وہ انھوں نے انگریزوں کو چکاکرکرکے کشمیر کی ریاست خرید لی ۔
اب گلاب سنگھ خود مہاراجہ بن گیا تھا اور وہ اپنی ریاست کے داخلی معاملات میں خود مختار تھا ۔ تقریباً ایک صدی تک انگریزوں کے ماتحت ڈوگرہ راج میں کشمیر میں جو ترقی ہوئی اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اس دورمیں سری نگر اور جموں کے تعلیمی ادارے، یہاں صنعت و حرفت کا فروغ اور لوگوں کا معیار زندگی پنجاب، سرحد اور دیگر ملحقہ علاقوں سے بہتر نظر آتے ہیں ۔ لیکن یہ ترقی صرف کشمیری بولنے والوں کے چند شہروں تک محدود رہی اور دور دراز لداخ، بلتستان، اور گلگت میں اس کے ثمرات نظر نہیں آتے۔ اس دور میں جموں و کشمیر کی ریاست میں مضبوط ادارے بھی بنائے گئے جن میں سے ایک فوج کا ادارہ بھی تھا جس کی تنظیم، نظم و نسق ہندوستان کی فوج کی ہم پلہ تھی۔
کشمیرکی ڈوگرہ ریاست کے قیام کے سو سال بعد تقسیم ہند کے وقت اس کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ کے سامنے بھارت اور پاکستان کے درمیان فیصلہ کرنے کی مشکل گھڑی آئی۔ مہاراجہ کشمیر کے نزدیک گلاب سنگھ کی قائم کردہ اپنی خاندانی ریاست کو بچانا اور اس کی خود مختاری پہلی ترجیح تھی ۔ اس نے کبھی بھی مسلم لیگ یا نیشنل کانگریس کی حمایت نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کے راہنماؤں سے تعلقات اور راہ و رسم بڑھائی تھی۔ اگر خود مختاری قائم رکھنا کسی وجہ سے قابل عمل نہ ہو تو اس کی ترجیح پاکستان سے الحاق اس وجہ سے ممکن تھی کہ ایک طرف کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کی خواہشات کے احترام میں ہی مہاراجہ کی مقبولیت تھی اوردوسری طرف کانگریس کےسوشلسٹ نظریات کے بر عکس مسلم لیگ کی جاگیرداری اور نیم خودمختار ریاستیں برقرار رکھنے کی پالیسی مہاراجہ کے لئے انتہائی موافق تھی۔
پاکستان بن جانے کے بعد اس کی قیادت کو کشمیر کے جغرافیہ، سماجی و سیاسی حالات سے آگاہی بہت کم تھی یا اس پہاڑی ریاست میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی ورنہ اس کی طرف سے نیم خود مختار ریاستوں کے الحاق کے لئے ان کے والیان کی رضامندی کے بجائےکشمیر کی مسلم اکثریت کے پیش نظر عوامی رائے کی تجویز مان لی جاتی۔ چونکہ والیان ریاست کی رضامندی مسلم لیگ کی ہی تجویز تھی اس لئے اخلاقی اور قانونی طور پر پاکستان نے کشمیر میں عوامی رائے کی حمایت بھی نہیں کی۔ حالانکہ جواہر لال نہرو نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ کشمیر کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔
کشمیر میں شیخ عبداللہ نے اپنے ہم نسب پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مل کر مہاراجہ کشمیر کی کمزور پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں تیز کردیں تو ان کو ریاست کی سرکار نےانھیں جیل میں بند کردیا ۔ شیخ عبداللہ کی طرف سے ہندوستان سے پینگیں بڑھانے کے جواب میں سردار ابراہیم خان مسلمانوں کی جماعت مسلم کانفرنس بنا کر مسلم لیگ کے راہنماؤں سے تعلقات استوار کرنے لگے۔ کشمیر میں ہندوستان کی تقسیم کے حوالے سے سیاست 1946 سے ہی عروج پر تھی۔
اس دوران پنجاب میں سکھ ،ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے جن کے اثرات سےریاست کے ہندو اور سکھوں کی اکثریتی آبادی والے علاقے متاثر ہوئے ۔ ریاست کی پولیس سے مسلمانوں کی بے دخلی، فوج میں بغاوت کے ساتھ مسلمانوں کی چھوٹے پیمانے پر بغاوتوں کے سلسلے جاری رہے۔ اس دوران ہندوستان اور پاکستان میں افواج کے انگریز افسران نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی فوجی تصادم کا حصہ نہیں بنیں گے۔
چونکہ پاکستان کے فوج کے سربراہ جنرل گریسی نے قائد اعظم کے جنگ کے حکم کو ماننے سے انکار کیا تھا اس لئے کشمیر میں قبائلی علاقوں سے لیویز کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب بات اور بڑھ گئی تو قبائلیوں کے لشکر بھیجے گئے جنھوں نے کشمیر میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی۔ جب قبائلیوں کے لشکرمظفر آباد میں قتل و غارت، لوٹ مار اور عورتوں کی عصمت دری اور اغوا کے بعد ر سری نگر کی جانب رواں ہواتو پاکستان میں قبائلی مجاہدین کے فتح یاب ہونے کی خبروں کے ساتھ ساتھ اس کا بھی انتظار ہونے لگا کہ کب مہاراجہ کو ماردیا جائیگا، گرفتار کیا جائیگا یا وہ خود بھاگ جائیگا تو ایسے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سردار ابراہیم خان نے پلندری میں ایک آزاد حکومت قائم کرکے اپنی طرف سے آزادی کا بھی اعلان کردیا ۔ ان حالات میں پاکستان کی قیادت سے مہاراجہ کشمیر کے رابطے یا بات چیت کے امکانات ختم ہوگئے ۔
مہاراجہ کشمیر کے پاس جب دو راستے رہ گئے کہ وہ مسلمان باغیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دے یا پھربغاوت کچلنے کے لئےہندوستان سے فوجی مدد مانگے۔ مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان سے فوجی ا مداد کی درخواست کی جس پر ہندوستان کی قیادت نے فوجی امداد کو ریاست کے الحاق سے مشرط کردیا ۔ جب حالات اور زیادہ خراب ہوئے اور قبائلیوں کے ہاتھوں ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تو مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دئے جس کے بعد ہندوستانی افواج کشمیر میں داخل ہوئیں ۔ اس کے ایک دن بعد ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی الحاق کی منظوری دی۔
الحاق کے ساتھ جواہر لال نہرو کی ایک اور شرط بھی تھی کہ شیخ عبداللہ کو جیل سے رہا کرکے وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ شیخ عبداللہ چونکہ اپنے سوشلست مزاج کی وجہ سے اشرافیہ کی حکومت کے خلاف تھے انھوں نے مہاراجہ ہری سنگھ سے کہا کہ وہ اقتدار سے الگ ہوجائے اور اپنے بیٹے کرن سنگھ کو آئینی صدر ریاست مقرر کردے۔
ہری سنگھ ۱۹۵۲ تک برائے نام مہاراجہ رہا اوراور ان کا بیٹا صدر ریاست۔۱۹۵۳ میں شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم اور کرن سنگھ کو صدر ریاست کے عہدےسے ہٹا کر کشمیرمیں بھی ہندوستان کی دیگر دوسری ریاستوں کی طرح گورنر اور وزیر اعلیٰ تعینات کئے گئے۔ سردار ابراہیم خان کی پلندری میں قائم ہونے والی آزاد حکومت مظفر آباد منتقل ہوگئی اوریکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا۔یوں ایک صدی سے زائد عرصے تک قائم رہنے کے بعد جموں و کشمیر کی ڈوگرہ ریاست کا عملی طور پر26 اکتوبر 1947 کو خاتمہ ہوگیا۔
♦