ڈی اصغر
جن لوگوں نے بھی یہ سوشل میڈیا ایجاد کیا تھا ، غالباً وہ ہمارے ملک سے پوری طرح سے ناواقف تھے ۔ پورے کرۂ عرض پر یہ سماجی رابطے بڑھانے اور دوریاں مٹانے کا باعث سمجھا جاتا ہے ۔ مگر ہم چونکہ بنیادی طور پر منفرد ہیں ، اِس لیے اِس اظہار کے ذریعے کو بھی ہم نے اپنے یكتا رنگ میں یوں سمجھیں رنگ دیا ہے۔
اب ہماری اندھی نفرتوں اور پنہاں غم اور غصے کو ایک پلیٹ فارم میسر آ گیا ہے ۔ جسے دیکھیےاپنے آزادی اظہار کے حق کو مادر پدر آزادی سے بلا کسی شرم و حیا کے استعمال کر رہا ہے ۔ جھوٹ ، افواہ ، الزام ، بہتان ، دشنام ، گالی گلوچ نہایت فخریہ انداز میں ادھر برؤئے کار لائے جاتے ہیں۔
چند سیکنڈز میں دُنیا بھر میں اِس کی مدد سے آپ رائے عامہ پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ ہمارے سیاسی لیڈران بھی اِس مقابلے میں پیچھے نہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ سو الغرض طوفان بد تمیزی کو ایک وسیلہ مل چکا ہے ۔ یہاں ایک لیڈر نے کچھ بیان دے ڈالا اور ان کے مداحوں اور مخالفین میں ٹویٹر یا فیس بک کے میدان کارزار میں گھمسان کی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ خوب توپیں چلتی ہیں، اورپھڑکتے ہوئے جملوں کے گولے برستے ہیں ۔ ایک دوسرے کو غدار ، ملک دشمن اور جانے کن کن خطابات سے نوازا جاتا ہے ۔
اپنے پسندیدہ لیڈر کی شان میں مدح سرائی ہوتی ہے اور اس کو کسی دیوی دیوتا کا نعوذ بااللہ استھان فراہم کر دیا جاتا ہے ۔بس اگر وہ لیڈر ہے تو انقلاب ممکن ہے، وہ نہیں تو بس کچھ بھی نہیں۔ اظہارالتفات اوروفاداری جب جنونی مراحل میں داخل ہو جائے تو وہ خبط کے زمرے میں آتے ہیں۔ جب سے یہ میڈیا سَر گرم ہوا ہے عقل اور اس کی صلاحیتیں کچھ ٹھنڈی پڑ گئی ہیں ۔
کئی حضرات اِس محاذ پر صبح و شام اپنا وقت صرف کرتے ہیں ، گویا اِس پر ہر وقت بسیرا ان کی روزی روٹی کا سلسلہ قائم رکھے ہوئے ہے ۔ بھانت بھانت کے جھوٹے سچے ٹرینڈز اور ہیش ٹیگز تشکیل دئے جاتے ہیں ۔ اپنے مخالفین کو زچ کرنے کے لئے من گھڑت قصّے اور کہانیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بلکے جھوٹی سچی تصاویر بھی فوٹو شاپ کی مدد سے پوسٹ کی جاتی ہیں۔
یہ تاثر ابھارا جاتا ہے کے ان کی مقبولیت دَر حقیقت پوری قوم کی اجتماعی آرا کی عکاسی کر رہی ہے ۔ مجھ سے کند ذہن بھی یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں ، کہ ہم سے منفرد معاشرے کے لیے اِس ذر یعے سے مثبت رحجانات کا قائم ہونا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ خدا بھلا کرے موبائل فون کا جن کی بدولت راہ چلتے عوام انناس اپنی اپنی دلی خواہشات کا اظہار کر سکتے ہیں، جس کا شائستگی یا تہذیب کے دائرے میں مقیّد ہونا غالباً لازم نہیں گردانا جاتا۔
سیاست دانوں کو ایسے عقل کے اندھے جو در حقیقت فکری احساس سے عاری روبوٹس ہیں بہت اچھے لگتے ہیں۔ کیوں کے یہ بیچارے انھیں اپنی تمام تکلیفوں کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ اگر ان کا لیڈر بر سر اقتدار آ گیا تو دودھ اورشہد کی نہریں بہ جائیں گی، یہ ملک جنّت کا نمونہ ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔ کوئی ان نا سمجھ بے چاروں سے یہ تو پوچھے کہ عقل بڑی کے بھینس؟
شتر بے مہار کی طرح صحیح اور غلط کی تمیز سے عاری یہ نوجوان جن کے ہاتھوں میں اس مملکت خدا داد کی باگ ڈور ہو گی ، یہ سوچ کر دل کانپ سا جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ ہمارے دانشور جو جذباتیت میں یہ دعوی فرماتے ہیں۔، رہتی دنیا تک اس ملک کی حفاظت خود الله ربالعزت فرمایں گے۔ یہ توجیہ سن کر ایک شاعر کا وہ مصرعہ ذہن میں گردش کرتا ہے۔ “اس سادگی پے کون نہ مر جائے اے خدا“۔
کوئی ناگوار واقعہ ہو جائے، اور پھردیکھئے ٹی وی پر براجمان‘ معاشرے کے نام نہاد ٹھیکے داروں کو ٹی وی کی اسکرینوں پرجعلی ماتم کرتے ہیں۔ ہائے ہائےیہ انتہا پسندی جانے کہاں سے آگئی۔ کوئی ان عقل کے اندھوں سے یہ تو دریافت کرے کے یہ کس دنیا کے باسی ہیں؟ انہیں کیا اپنے موبائل ٹویٹراور فیس بک اور اطراف میں تمام سکھ شانتی دکھائی دیتی ہے۔
پھر جو مہمانان گرامی ان کے پروگراموں میں موجود ہوتے ہیں، ان کی توجیہات اپنے میزبان سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔ یہ سب نام نہاد دانشور گھما پھرا کر سیاست دانوں اور حکمرانوں کیمالی بد عنوانیوں کو اس پاگل پن کا با عث گردانتے ہیں۔
معاشرتی اقدار میں انتہا پسندی اس درجہ تک سرایت کر چکی ہے کہ دلیل اور فکر کی گنجایش مفقود ہے۔ یا تو سیاہ ہے یا سفید۔ اگر آپ ان کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھتے ہیں تو، یا تو آپ بک چکے ہیں یا آپ بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ، الغرض غدار ہیں۔ آپ لاکھ سر پھوڑیے مگر حاصل ندارد۔
ایک قدرتی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ، ان کی بورڈ کے شتریوں کے ساتھ اب کیا کیا جائے ۔ اِس ناچیز لکھاری کی ناقص رائے کے مطابق ، ان سے کسی قسم کے بحث یا مباحثہ سے گریز کیا جائے اوران کو ان کی رن بھومی میں تنہا چھوڑ دیا جائے ۔ دَر حقیقت یہ اپنی اخترائی دُنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں ۔ ان کی رہنمائی کرنا یا ان کو دلائل کی بنیاد پر سمجھانا وقت کا ضیاع ہے ۔
بہتر یہ ہے کہ حقیقت اورتجربات جو اِس دُنیا کے سب سے بڑے اساتذہ ہیں ، شاید ان کی بدولت ان کو کچھ سمجھ آ جائے ۔ رہا سوال ہمارے ملک کے مستقبل کا ، تو وہ ہم سے زیادہ سیانےجب کہتے ہیں نا اللہ سب دیکھ لے گا ، تو ٹھیک ہے بس آرام سے سو جائیے اور خواب ۔خرگوش کے مزے لو ٹیے۔ اوپر والا ہے نا!۔