بیرسٹر حمید باشانی
تین چیزیں لمبے عرصے تک نہیں چھپ سکتیں۔ سورج، چاند اور سچائی۔ مہاتما بدھ نے یہ سادہ مگر سچی بات بہت پہلے کہی تھی۔ خواجہ آصف کے سچ پر مجھے اس دانشمند آدمی کا یہ قول بے ساختہ یاد آیا۔ خواجہ آصف نے آدھا سچ بولاتو اس قدر طوفان اٹھا۔ اگر وہ پورا سچ بول لیتے تو قیامت برپا ہو جاتی۔
وزیر خارجہ نے جو فرمایا اس میں کوئی انکشاف نہیں۔ کوئی نئی بات نہیں۔ پوری دنیا پہلے دن سے یہ سچ جانتی ہے اور اس کا ببانگ دہل اظہار کرتی ہے کہ افغانستان میں لڑائی امریکہ اور سویٹ یونین کی لڑائی تھی۔ پوری دنیا میں امن اور جنگ پر سنجیدہ رائے رکھنے والا کوئی شخص اس سے اختلاف نہیں کرتا۔ اس لڑائی پر دنیا بھرمیں ہزاروں کی تعداد میں کتابیں لکھی گئی۔ ادب تخلیق ہوا۔ فلمیں بنائی گئیں۔
اگر اس حقیقت سے کسی نے انکار کیا تو یہ صرف اس وقت پاکستانی ریاست پر نا جائز طور پر قابض ایک ٹولہ تھا۔ انہوں نے ملک پر شب خون مار رکھا تھا۔ جمہوریت کا خون کیا ہوا تھا۔ ریاستی تاریخ کے مقبول ترین اور منتخب شخص کو کینگرو کورٹس کے ذریعے قتل کیا ہوا تھا۔ان کے ہاتھ عوام کے خون سے رنگے تھے۔ اور ان کی آستینوں سے لہو ٹپکتا تھا۔
انہوں نے عوام کو ڈرا رکھاتھا۔ مگر یہ خود اس سے کئی زیادہ خوف اور ڈر کا شکار تھے۔ انہیں اپنی سیاہ کاریوں کا احساس تھا۔ اور انجام کا خوف بھی۔ وہ جانتے تھے کہ وہ جس جگہ پر قابض ہیں وہ ان کی جگہ نہیں ہے۔ انہیں اپنے ہونے کا جواز چاہیے تھا۔جو وہ کبھی اسلام میں ڈھونڈتے تھے کبھی شریعت میں۔ پھر ایک دن افغانستان کی شکل میں ان کو اپنے ہونے کا جواز نظر آیا۔
چنانچہ وہ ایک ہی جست میں امریکہ کے دیہاڑی دار مزدور بن گئے۔ اس سیدھی سادی مزدوری کو انہوں نے اسلام، جہاد اور انسانی ہمدردی کے پردوں میں لپیٹ کر ایک مقدس شکل میں پیش کیا۔ اس طرح وہ فٹ سولجر، کرائے کے سپاہی یا قلی کے کردار سے اوپر اٹھ کر مجاہد کے درجے پر فائز ہو گئے۔ حریت پسند بن گئے ۔ اس طرح انہوں نے جھوٹ کی ایک اپنی ایک دنیا بسائی۔ ایک بیانیہ تخلیق کیا۔ اور اس جھوٹے بیانیے کو ریاستی طاقت کے ذریعے عوام پر مسلط کیا۔
ولیم پال ینگ نے دی شیک میں شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا کہ جھوٹ قلعے ہوتے ہیں جن کے اندر آپ محفوظ اورطاقتور محسوس کرتے ہیں۔ ان جھوٹ کے قعلوں کے زریعے آپ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ دوسروں کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر قلعوں کو دیواروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کچھ دیواریں بناتے ہیں۔ یہ آپ کے جھوٹ کا جواز ہوتیں ہیں۔ چنانچہ ان سفاک حکمرانوں نے کئی دیواریں بنائی ، کئی جواز گھڑے۔جہاد اور اسلام کے نام پر مدرسوں سے مزدور بھرتی کیے۔ ان مزدوروں کو مجاہد کا خطاب دیا۔ اور ان کو افغانستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنے پر لگا دیا۔
یہ انسانی تاریخ کی ایک گھناونی لڑائی تھی جس کا اگلہ مورچہ دنیا کی سب سے بڑی رجعت پسند اور بنیاد پرست قوتوں کے پاس تھا ، ان کی پشت پر جدید انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ مکار اور سفاک آمروں کا ٹولہ تھا اور ان کی پیچھے کمیونزم سے خوفزدہ جنگ باز تھے ، اور ڈالروں کی بوریاں تھی۔ اس طرح یہ رجعت پسند اورجنگ باز قوتوں کا ناپاک اتحادتھا جس نے افغانستان میں وہ کھیل شروع کیا جو تین عشروں کے خون خرابے کے بعد آج بھی جاری ہے۔
اس کے ساتھ وہ بیانیہ بھی جو تین عشرے پہلے اس نا پاک کھیل کے آغاز پر آمروں نے تخلیق کیا تھا۔ پھر اس کو مقدس اور سرکاری حیثیت دی تھی۔ زبردستی عوام پر مسلط کیا تھا۔ پھر اس بیانیے کی حفاظت اور تسلسل کو یقینی بنانے کا بندو بست کیا گیا۔ اور اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ آمریت کے بظاہر خاتمے کے باوجود ریاست پر آمریت کے سائے برقرا رہیں۔ آمریت کی پالیسیاں اور اس کا بیا نیہ جوں کا توں چلتا رہے۔ چنانچہ ہم نے کئی بار حیرت و افسوس سے دیکھا کہ وہ سیاست کار جو اقتدار میں آنے سے پہلے اس بیانیے کو نہیں مانتے تھے اقتدار میں آنے کے بعد خاموشی اختیار کر لیتے یا اس کی تعریف کرتے۔
صرف اقتدار کے ایوانوں میں ہی نہیں ہر اس جگہ پر اس بیانیے کی حفاظت کا بندو بست کیا گیا جہاں سے اس کو چیلنج کیا جا سکتا تھا۔ یا اس کو بدلا جا سکتا تھا۔ملک کے اس وقت کے دو بڑے اخبارات اور اکلوتے سرکاری ٹیلی ویثرن میں اس بیانیے کی حفاظت پر اپنے لوگوں کومامور کیا جاتا رہا۔اس طرح تین عشروں تک اس جھوٹے بیانیے کی کسی مقدس چیز کی طرح حفاظت کی گئی۔
خواجہ آصف جیسے سیاست کار پہلے دن سے ہی سچ جانتے تھے۔ مگر ان لوگوں نے اس سچ کو کسی مقدس راز کی طرح اپنے سینے میں چھپائے رکھا۔ اور جب پاکستان کی ایک پوری نسل اس جھوٹے بیانیے کا شکار ہو چکی۔ ایک گمراہ نسل تیار ہو چکی۔ ایک خاص مائنڈ سیٹ بن گیا تو ان لوگوں نے سچ بولنے کا فیصلہ کیا۔بقول غالب
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا
اتنی دیر اور تباہی کے بعدبھی وہ جو سچ بول رہے ہیں یہ آدھا سچ ہے۔ اورکسی دانشمند نے کہا تھا کہ آدھا سچ جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ جھوٹ تو پھر بھی کہیں نہ کہیں پکڑا جاتا ہے، مگر آدھا سچ لوگوں کو فریب میں مبتلا کیے رکھتا ہے۔ اب آدھا نہیں پورا سچ بولنے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے یہ بیانیہ تخلیق کیااگر ان کے چہروں سے پوری طرح نقاب اتارا جائے تو دنیا ہٹلر اور اس کے فاشزم کو بھول جائے اور یہ دیکھ کر کانپ جائے کہ ہمارے فاشسٹ کتنے سفاک تھے اور ہمارا فاشزم کتنا بھیانک تھا۔
♦