بزرگ شاعر، عالم اور ماہر تعلیم پروفیسر سید عابد علی عابد کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ بیٹے سید مینوچہر کی خودنوشت سنگ میل لاہور والوں کی جانب سے2009میں’’میرے شب و روز‘‘ کے عنوان سے چھپی ہے۔ سید مینوچہر،عابد صاحب کے اکلوتے بیٹے ہیں اور غالباً چاروں بہنوں میں سب سے چھوٹے بھی ہیں۔ شبنم عابد علی جو بعد کو شبنم شکیل کے نام سے جانی پہچانی گئیں ہمارے ساتھ یونیورسٹی اور ئینٹل کالج میں پڑھتی تھیں۔ نہ صرف پڑھتی تھیں بلکہ ہماری انجمن اردو کی سیکرٹری بھی تھیں اور ہم اس انجمن کے صدر تھے۔ شبنم انٹرکالجئیٹ مشاعروں میں بہت مقبول شاعرہ تھیں۔ ہمیں تو شبنم کے ساتھ صرف ایک مشاعرہ میں بہ حیثیت ٹیم شریک ہونے کا موقع ملا جس میں شبنم نے بڑا انعام حاصل کیا ہمارا حصہ صرف اتنا رہا کہ ٹرافی ہمارے کالج کے حصہ میں آئی۔
اللہ بخشے ہمارے مرحوم دوست ارشاد حسین کاظمی نے پھبتی کہی تھی کہ تم’’شبنم کے ’’تابعِ مُہمل‘‘ ہویا’’یابعِ مَحمِل‘‘؟ اب نہ پھبتی کہنے والا رہا نہ ہمارا شبنم سے رابطہ قائم رہا۔ وقت گذر جاتا ہے یادیں رہ جاتی ہیں۔ سویڈن میں ایک بار سویڈش اکیڈمی والوں نے پاکستان کی تین شاعرات پر ہمیں تعارفیہ لکھنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ ہم نے شبنم کو اس کے اسلام آباد کے پتے پر خط لکھا۔ جو اب آیا میں وہی1960ء والی بے چین روح ہوں۔ ہم نے جواب میں اسے لکھا کہ’’لڑکی! تمہارے مجموعہ کا پہلا شعر پڑھتے ہی مجھے تمہاری بات کا یقین آگیا تھا۔’’آپ اپنے درپئے آزار ہوجاتے ہیں ہم۔ سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہوجاتے ہیں ہم‘‘۔ میری بیوی نے یہ خط پڑھا تو کہا کہ آپ شبنم کو لڑکی لکھ رہے ہیں حالانکہ وہ تونانی اماں بن چکی ہے۔‘‘ ہم نے کہا تھا’’اور ئینٹل کالج والی تیز طرار، ذہین ،خوش لباس خوش شکل وضع دارلڑکی کا تصور قائم رکھنے حرج ہی کیا ہے؟‘‘۔
اب شبنم کے بھائی کی خودنوشت پڑھی ہے تو ہمیں وہ نوجوان لڑکا مینو شاہ یاد آرہا ہے جس سے ہم صرف ایک بار عابد صاحب کے صدر والے گھر میں ملے تھے۔ عابد صاحب ان دنوں دل کے شدید دورے سے جانبر ہوئے تھے اور ابھی بیماری کے اثرات سے نپٹ رہے تھے۔ مینوچہر کی خودنوشت پڑھنے کے بعد بھی ایک لاڈلے بیوروکریٹ کا تصورابھرتا ہے۔ جس نے لڑکپن ابا کی محبت سے محرومی میں گذارامگر زندگی بھر ایسے افسروں سے اس کا واسطہ رہا جو اس کے ابا کی علمیت اور بزرگی کے معترف تھے۔ حنیف رامے چیف منسٹر تھے تو ان کے علاقہ میں دورہ پر گئے یہ ان کا اپنا گھر کا علاقہ تھا اس لئے بڑے کروفر کا مظاہرہ کررہے تھے کہ ڈی سی نے ان کا تعارف کروایا کہ ہمارے اسے سی عابد صاحب کے بیٹے ہیں۔ فرمایا’’عابد صاحب تو میرے مرشد ہیں‘‘(میرے شب وروز صفحہ183)۔
اسی طرح شیخ منظور الٰہی سے ان کا تعلق رہا (صفحہ259) شیخ منظور الٰہی نے عابد علی عابد کی علمیت کا جس تو صیفی انداز میں ذکر کیا ہے وہ تو ان کی خو دنوشت کے چھپنے پر منیو چہر کے سامنے آئے گا میں چونکہ اس مسودہ کو دیکھ چکا ہوں اس لئے علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ شیخ منظور الٰہی سے بڑھ کر میں نے عابد علی عابد کا کوئی عقیدت مند نہیں دیکھا۔ مینو چہر’’قسمت کے بہت قائل ہیں‘‘ (صفحہ12)اس لئے ان کے ابا کی علمیت اور شخصیت ان کی قسمت بنانے میں ان کی ممدومعاون رہی اور انہیں اس کا اعتراف بھی ہے ورنہ ہمارے ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کو مجید نظامی کے قول کے مطابق ’’علامہ اقبال کے گھر پیدا ہونے پر ہی بڑا غصہ ہے نیز وہ علامہ اقبال سے آگے نکل جانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں(اپناگریباں چاک صفحہ 266)۔
عابد صاحب کی فارسی زبان کی علمیت کا جوواقعہ شاداں بلگر امی کے حوالہ سے مینو چہر نے لکھا ہے وہ ان کا سناسنایا ہے۔(صفحہ13) مگر ہم عابد صاحب کی علمیت کے عینی گواہ ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں دوسری کل پاکستان اردو کانفرنس منعقدہ1967ء میں قبلہ عابد صاحب شریک تھے اور ایک سیشن کی صدارت فرمارہے تھے۔ اس سیشن میں ہمارے ایک مرحوم عالم دوست علامہ یعقوب امجد نے یہ نکتہ اٹھایا کہ اردو میں جو الفاظ عربی زبان سے آئے ہیں ان کا تلفظ لازماًعربی ہی کا رہنا چاہئے ورنہ ان کی معنویت میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ عابد صاحب قبلہ نے اپنے خطبہ صدارت میں اتنے عالمانہ انداز میں اس مغالطہ انگیزی کی تردید کی اور اساتذہ اردو کے بے شمار اشعار اپنے حافظہ کی مدد سے سامعین کے سامنے اپنے موقف کی تائید میں پیش کئے کہ لوگ عش عش کراٹھے اور مدتوں عابد صاحب کے حافظے کی داددیتے رہے۔ عابد صاحب کا استدلال یہ تھا کہ اردو والوں نے جو الفاظ عربی سے لئے ہیں انہیں اپنا لیا ہے اس لئے وہ اسی صورت میں مستعمل ہونگے جس صورت میں اساتذہ شعرائے اردو غالب، ذوق، سوداور میرنے انہیں باندھا ہے۔ عربی والے لاکھ کافر کو کافر باندھتے رہیں ہم غالب اور ذوق کے تتبع میں اسے کافر ہی باندھیں گے۔ ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلایا چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
مینو چہر نے نواب بہاولپور کی اولاد میں جائیداد کے تقاسمہ پر جھگڑوں کا ذکر کیا ہے(صفحہ200) تو ہمیں شیخ منظور الٰہی کی سلسلہ روزوشب یا دآرہی ہے۔ شیخ صاحب بہاولپور کے کمشنر تھے۔ گورنر کی بلائی ہوئی کمشنرز کا نفرنس میں شرکت کو گئے تو ہزہائینس نواب بہاولپور نے نواب کالا باغ کے نام یہ پیغام بھجوایا کہ’’میری زندگی میں ہمارے خاندان کی زرعی جائیداد پر زرعی اصلاحات کا نفاذ نہ ہو۔ بچوں کے مفادات کی نگہداشت میں بہتر طریق سے کر سکتا ہوں‘‘۔ میں نے عرض مدعا کیا تو’’گورنر صاحب کاردعمل فوری تھا اور حیران کن۔ نواب صاحب کو میری طرف سے عرض کریں کہ وہ اس جھمیلے میں نہ پڑیں۔ ماں باپ بچوں کے لئے کچھ بھی کریں وہ کبھی شکر گذار نہیں ہوتے‘‘(سلسلہ روزوشب صفحہ 63) ۔
اس کے بعد شیخ صاحب نے بڑے مزے کا فقرہ لکھا ہے کہ مستقبل کا علم تو صرف خدا کوہے اور انسان پیش آنے والے حادثہ سے بے خبر ہوتا ہے مگر قدرت ان کی زبان سے کیا کہلوارہی تھی! پیش لفظ میں مینو چہر کا کہنا ہے کہ’’یہ خودنوشت ایک طویل عرصے کے بیشتر واقعات کی شیرازہ بندی ہے‘‘ مگر بیشتر واقعات مینو چہر کے اپنے دیکھے ہوئے نہیں۔ بخاری صاحب کے لطائف مستعار، صوفی صاحب کے ارشادات دوسروں کے حوالہ سے، فیروز خاں نون کی بات الطاف گوہر کی زبان سے، دیوان سنگھ مفتون کی ناقابل فراموش میں بیان کردہ بات بغیر حوالہ کے اور تو اور آپ نے رئیس امروہوی کے’’بیگمات آیندبہ رکشا، داشتہ آید بکار‘‘ والے شہرہ عالم قطعہ کو چراغ حسن حسرت سے منسوب کردیا ہے۔(صفحہ99) غرض یہ شیرازہ بندی محض مینوچہر کے قلم کی رہین منت ہے اور خود نوشت دوسروں کی باتوں پر انحصار کرنے کانام نہیں اس لئے آپ بیتی کو آپ بیتی کہا جاتا ہے۔
پروفیسر کے کے عزیز نے اپنی کافی ہاؤس والی یاد داشتوں میں عابد علی عابد کو موسیقی کا عاشق قرار دیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو موسیقی کی باقاعدہ تعلیم دلواتے تھے۔ مینو چہر نے اپنے ابا کے موسیقی سے شغف کا ذکر توکیا ہے(صفحہ11) مگر اپنے گھر میں موسیقی کے کسی استاد کی آمدورفت کا ذکر نہیں کیا۔ شاید یہ مینو شہر کے ہوش کے زمانہ سے پہلے کی بات ہو!
ہمارے جاننے والوں میں پیر صلاح الدین مرحوم کا ذکر ہے (صفحہ143) پیر صاحب کو قرآن پاک سے عشق تھا اور آپ نے قرآن کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا ان کی فرصت کے اوقات اسی مبارک کام میں گذرتے تھے۔ مگر مینو چہرنے ضیاء الحق کے اس ظلم کا ذکر نہیں کیا جو اس عاشق قرآن سے ساتھ روارکھا گیا اور جسے ناکردہ جرم کی پاداش میں مارشل لاء قوانین کے تحت سرعام منہ کالا کرنے کی سزا دی گئی۔ ڈاکٹر محمد عارف کا ذکر ہے کہ وہ ورلڈ بینک میں ملازم رہے (صفحہ263) مگر جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے ڈاکٹر محمد عارف امریکہ میں پی ایچ ڈی کرنے تو ضرور گئے یا ایک دوبار علاج کیلئے گئے مگر ورلڈ بینک میں ملازم نہیں رہے۔ واللہ علم باالصواب۔
پھر ملک محمد افضل کا ذکر ہے’’جو بڑے دیانت دار اور خلیق جوڈیشل افسرتھے بڑی اچھی شہرت کے مالک۔ ہائی کورٹ کی ججی کیلئے نہایت موزوں مگر چونکہ عقیدے کے لحاظ سے قادیانی تھے اس لئے کچھ رخنہ پڑگیا۔ بہرحال خداتعالیٰ کی ذات نے انہیں پوری طرح خوش وخرم رکھا‘‘(صفحہ231)ڈاکٹر سلام کا ذکر ہے اور ان کی ان کوششوں کا کہ وہ پاکستان میں اپنا سائنسی ادارہ بنانا چاہتے تھے(صفحہ44) جو ہمارے بدقسمت ملک کو نصیب نہ ہوااور اٹلی میں ٹریسٹ کے مقام پر بنا۔
ریڈیو کے حمید نسیم کاذکر ہے مگر مینوچہر نے ان کی خودنوشت ناممکن کی جستجو نہیں پڑھی ورنہ وہ یہ نہ لکھتے کہ’’ریجنل ڈائریکٹر بننے کے بعد فل سٹاپ لگ گیا‘‘(صفحہ108) حمید نسیم ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھے کہ پی آئی اے کی آرٹس اکیڈمی کے ڈائریکٹر بنے اور عمر بھر فن اور پی آر سے وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مذہب کی طرف رجوع ہوئے۔
سید مینوچہر کی اس خودنوشت میں مافوق الفطرت واقعات کا ذکر بھی ہے اور یہ کالے جادو سے خوف زدہ نظرآتے ہیں کیونکہ ان کے ابا کا گھر کا لے جادو کی وجہ سے اجڑا تھا۔ خداجانے اب ان کا کیا عالم ہے؟
شہرت بخاری صاحب کی خودنوشت’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ تو ویسے ہی کمزور خود نوشت سمجھی جاتی ہے اس کے مندرجات کی تردید کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
عابد صاحب شدید علیل ہوئے تو محمود نظامی نے عبدالمجید سالک اور چراغ حسن حسرت سے ان کے بارہ میں تعزیتی شذرے تیار کروالئے کہ خدا نخواستہ ان کی وفات کا حادثہ ہوجائے تو ریڈیو کے پاس تعزیتی مواد تیار ہو اور یہی نشریات والوں کا بنیادی اصول ہے۔ مگر عابد صاحب توٹھیک ہوگئے محمود نظامی کراچی گئے تو اچانک دل کا دورہ پڑنے سے جان بحق ہوگئے۔ دوسرے دوحضرات بھی عابد صاحب سے پہلے رہگزائے قضا ہوئے ان کی وفات پر تعزیتی شذرات عابد صاحب نے نشر کئے۔(صفحہ77)۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں کون جانتا ہے کہ کون کب اور کہاں جاں بحق ہوگا اس کا علم صرف ذات باری تعالیٰ کو ہے۔
’’میرے شب وروز‘‘ سنگ میل والے نیازاحمد نے لکھوائی اور انہی کے نام معنوں ہے۔ خود نوشت ہونے کے ناطے اس میں کئی ایسی باتیں ہیں جو بیان نہ ہوتیں تو مصنف کی باتوں پر دوسروں کو انگشت نمائی کا موقعہ نہ ملتا۔ قرۃ العین حیدر پر ان کی ناپختہ تنقیدی باتیں انہیں زیب نہیں دیتیں انہیں حذف کیا جاسکتا تھا ویسے بھی ان باتوں کا ان کی سوانح سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
مینوچہر سید کی یہ خودنوشت اپنے مندرجات کی وجہ سے چونکانے یا کوئی نئی بات بیان کرنے والی خود نوشت نہیں کہلاسکے گی۔*
♦