مہاجرت اور اسلام مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی سابق شریک چیئر پرسن فراؤکے پیٹری نے کہا ہے کہ مسلمان جرمنی کو اپنا گھر بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں اپنے مذہبی عقائد اور سیاسی مقاصد میں تفریق واضح کرنا ہو گی۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن روزنامے ویلٹ ام زونٹاگ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسلام اور مہاجرت مخالف نعرے بازی کی بدولت حالیہ جرمن وفاقی انتخابات میں تیسری سے سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت کی سابق شریک چیئر پرسن فراؤکے پیٹری نے کہا ہے کہ مسلمان جرمنی کو اپنا گھر بنا سکتے ہیں۔
دائیں بازو کے نظریات کی حامل اس خاتون سیاستدان نے البتہ کہا کہ اس کے لیے جرمنی میں آباد مسلمانوں کو اپنے مذہب اور سیاست کو الگ ہی رکھنا پڑے گا۔
لیکن کیا مسلمان اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار ہیں کہ مذہب اور سیاست کو الگ الگ ہونا چاہیے؟
مسلمان یورپی ممالک میں سیکولر قوانین کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں مساجد اور مدرسوں کے قیام پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اسلام ایک سیاسی مذہب ہے اور جس ملک میں بھی مسلمان اکثریت میں آجائیں ان پر اسلامی شریعت نافذ کرنے کا بھوت سوار ہوجاتا ہے۔ ان ممالک میں مسلمان اپنی علیحدہ کالونیاں بسانا شروع کردیتے ہیں جہاں وہ اسلامی شریعت نافذ کرناشروع کر دیتے ہیں۔
ویلٹ ام زونٹاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بیالس سالہ پیٹری نے واضح کیا کہ اگر مسلم کمیونٹی یہ قبول کرتی ہے کہ مذہب ان کا نجی معاملہ ہے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی مطالبہ نہیں کیا جائے گا تو مسلمان جرمنی میں خوشی سے آباد ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی نے لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی ہے اور انہیں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ فراؤکے پیٹری کے مطابق ’پولیٹیکل اسلام‘ جرمن معاشرے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ مہاجرین کے بحران کے بعد یورپ اور بالخصوص جرمنی میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں جرمنی میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ شدت پسندانہ سوچ کو کس طرح تبدیل کیا جائے۔
اس صورتحال میں دائیں بازو کے کٹر نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں نے اسلام اور مہاجرت مخالف بیانیہ استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ووٹ بینک کو بڑھایا ہے۔ سن2015 کے اعدادوشمار کے مطابق جرمنی کی 82.3 ملین مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 4.5 ملین ہے۔
چوبیس ستمبر کے جرمن الیکشن میں بھی آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) نے اس نعرے کے ساتھ ووٹرز کو کامیاب طریقے سے اپنی طرف راغب کیا۔ یوں سن 2013 میں معرض وجود میں آنے والی یہ پارٹی پہلی مرتبہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ تاہم اس الیکشن میں کامیابی کے فوری بعد ہی فراؤکے پیٹری نے اس پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ اس پیشرفت کو اس پارٹی میں قیادت کی لڑائی کا نتیجہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فراؤ کے پیٹری اپنے کٹر نظریات کے باوجود اے ایف ڈی کی موجودہ قیادت کے مقابلے میں زیادہ ’روشن خیال اور لبرل‘ قرار دی جا سکتی ہیں۔ اے ایف ڈی سے علیحدگی کے بعد پیٹری ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام کے بارے میں پرعزم ہیں۔
ویلٹ ام زونٹاگ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ان کی سیاسی پارٹی میں دائیں بازو نظریات کے حامل انقلابی قسم کے افراد شامل نہیں ہوں گے اور ان کی نئی تحریک اسرائیل نواز ہو گی۔
DW/News Desk
One Comment