کیا میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نواز اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے مابین اختلافات ناقابل حل ہونے کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ یا اختلافات کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ کوئی بھی اپنے نام نہاد اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اگر ان مفروضوں کو من وعن تسلیم کر لیا جائے تو سوال اٹھتا ہے۔ کیا میاں نواز کی قیادت میں نواز لیگ کے نام نہاد “مزاحمتی دھڑے”میں اتنا دم خم اور تنظیمی و سیاسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ مزاحمتی تحریک کے ذریعے ایسٹیبلشمنٹ کو شکست دے دیں گے؟۔ یا مقتدر حلقے میاں نواز شریف اور نواز لیگ کو سیاسی عمل سے خارج کر کے تاریخ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب پانے کے لئے نواز شریف کی سیاسی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا پڑے گی۔
میاں نواز شریف کو ملک کے اقتدار اعلیٰ پر براجمان کرانے اور مقبول عوامی لیڈر بنانے تک ریاستی اسٹیبلشمنٹ نے ہر قسم کے غیر جمہوری حربے استعمال کئے۔ ایک وقت تھا جب نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے جمہوری قوتوں کے خلاف اٹیکنگ باولر کا کردار بڑی خوبی سے سرانجام دیا۔ جبکہ اب یہ کردارعمران خان کو سونپ دیا گیا ہے۔
نوازشریف کی سیاسی موقعہ پرستیوں، قلابازیوں اور جمہوری اداروں کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز کرنے کے قصے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ جونیجو اور بے نظیر حکومتوں کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کا سازشی گٹھ جوڑ شائد ذرا دور کی کہانیاں معلوم ہوتی ہوں مگر اسٹیبلشمنٹ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے گیلانی حکومت کی بے دخلی کی راہ ہموار کرنے کا معاملہ تو کل کی بات ہے۔
تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف کے قومی سلامتی پالیسی پر جمہوری اداروں کی بالادستی قائم کرنے، ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرنے کے بلند بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی سے نجات حاصل کرنا تو دور کی بات وہ تو اپنی حکومت اور جماعت میں موجود اسٹیبلشمنٹ کے حامی عناصر اور وزرا کے دباؤسے چھٹکارہ پانے سے بھی گریزاں رہے۔ میاں نواز نے وزارت عظمیٰ سے مستعفیٰ ہونے کے مطالبے کی بھر پور مزاحمت کرتے رہے مگر اہم قومی پالیسی معاملات پر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سر تسلیم خم کئے رکھا۔
اس وقت نواز شریف کے لئے چیلنج چوتھی بار وزارت اعظمیٰ کے منصب پر فائز ہونا نہیں بلکہ نواز لیگ کو آج کی بحرانی اورغیر یقینی صورت حال سے صحیح سلامت نکال کر لیگ کے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانا اور آئیندہ الیکشنوں میں کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف کو ایوان اقتدار سے باہر دھکیلنے والی مقتدر قوتیں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے آسانی سے ہونے دیں گی۔
یہ خوش فہمی ذھن سے نکال دینی چاہے کہ میاں نواز اور ن لیگی لیڈر ملک میں منتخب جمہوری اداروں کی بالادستی قائم کرنے کے لئے مقتدر ریاستی قوتوں سے محاذ آرائی کرنے یا ٹکرانے کی صلاحیت، جرات یا کوئی منصوبہ رکھتے ہیِں۔ نیب مقدموں سے نواز گھرانہ بری ہوتا ہے، میاں نواز یا کسی اور کو سزا ئے قید بھگتنی پڑتی ہے۔ ایسے خدشات کی موجودگی کے باوجود، اگر میاں نواز کی سیاسی تاریخ، نواز لیگی لیڈروں کی طبقاتی وابستگی، مقتدر حلقوں کی پشت پناہی سے ذاتی اور طبقاتی مفادات کے لئے سر گرم موقعہ پرستوں کے گروہوں کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کہنے میں دشوای پیش نہیں آئے گی کہ ان تلوں میں تحریکی تیل کا ایندھن نا پید ہے۔
میاں نواز اور اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ مچولی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔ اس کے آثار کچھ کچھ نمایاں ہونا شروع ہو رہے ہیں۔
خاقان عباسی کو وزیرآعظم کی مسند پر بٹھا کر میاں نواز نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کا دروازہ کھلا رکھنے کا عندیا دیا۔ خاقان عباسی بڑی مہارت سے میاں نواز اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف، خرم دستگیر، سعد رفیق کے علاوہ ساری کابینہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشآمد کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
ن لیگ میں اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ آواز چوہدری نثار کا فی الوقت خاموشی اختیار کرنا اور چھوٹے میاں شہباز شریف کی وفاقی حکومتی معاملات پر کھلے عام لب کشائی بھی معنیٰ خیز ہے۔ پارٹی صدارت کی اہلیت کے قانون پر رائے شماری کے دوران سینٹ کے اجلاس سے ایم کیو ایم کے تقریبا سارے سینیڑز، پی پی پی کے تین سینیٹرز، سینیٹر اسراالحق اور سینیٹر مشاہد حسین کی غیر حاضری کس کے اشارے پر ھوئی۔ پھر ایم کیو ایم کے ایک سینیٹر کا اس قانون کی حمایت میں ووٹ ڈالنا۔ اگر اپوزیشن کے سب سینیٹر اس قانون کے خلاف ووٹ ڈالتے تو کیا نواز شریف ن لیگ کی صدارت پر براجمان ہو سکتے تھے۔ صاف ظاہر ہے میاں نواز شریف کے لئے سیاست کے سب دروازے بند نہیں کئے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کئی سالوں کی محنت اور سرمایہ کاری کا کرشمہ نواز لیگ کا صفایہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔
میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل دھیمے سروں میں آئیندہ الیکشن تک دھیرے دھیرے چلتا رہے گا۔ نواز لیگ کی ساخت، تنظیم، میاں نواز کے گرد موقعہ پرستوں کے ھجوم کی وجہ سے انکا اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرنا شیخ چلی کے خواب سے زیادہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
نواز شریف فیملی کو نیب مقدمات سے نجات ملتی ہے یا پھرایک دو کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ یہ مسائل اپنی جگہ اہم ہیں۔ مگر ڈیل کی لاٹری کا قرعہ چھوٹے میاں “خادم اعلیٰ” کے نام نکالنے کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو چکی ہیں۔ نواز شریف کو فی الحال مصلحتا مریم نواز کی سیاسی خواہشات پر بند باندھنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
بڑے میاں سے منہ موڑنے کے بعد مقتدر قوتیں چھوٹے میاں پر مہربان دکھائی دیتی ہیں۔ شہباز شریف پر مقتدر قوتیں بھی راضی، پنجاب کی فرقہ پرست قانونی اورغیر قانونی مذہبی فرقہ پرست تنظیمیں بھی خوش۔ سی پیک کی تکمیل کے لئے چین کی پسندیدگی سونے پہ سہاگہ۔ اب نواز لیگ کی کوکھ سے ق لیگ کی طرح کنگ پارٹی پیدا کرنے کی باتیں شائد دم توڑ جائیں کیونکہ چھوٹے میاں صاحب کی زیر قیادت ن لیگ نے یہ کردار ادا کرنے کے اشارے مقتدر قوتوں تک پہنچا دئے ہیں۔
شہباز شریف کیلئے مقتدر قوتوں کی جانب سے ابھرتے ہوئے سیاسی “رائزنگ سٹار” بننے کے اشارے بھی ملنا شروع ہوچکے ہیں اور چھوٹے میاں بھی کمر کسے اڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ مقتدر قوتیں عمران خان کو لیلیٰ اقتدار سے دور کیوں رکھنا چاہتی ہیں۔ اس سوال کا جواب خان صاحب سے بہتر کون دے سکتا ہے۔ حالات و واقعات اور قرائن یہ ہی بتاتے ہیں کہ 2018 الیکشنوں کے بعد عوام کو ایک بار پھر دھاندلی دھاندلی کی احتجاجی صدائیں سننے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔
♠