ظفر آغا
آج ہندوستان سر سید احمد خان کا دوسوواں یو م پیدائش منا رہا ہے اور ہندوستانی مسلمان کے لئے سر سید احمد خان کی دو سو ویں سالگرہ منانے سے خوش نصیب مو قع شاید کوئی اورنہیں ہو سکتا کیونکہ سر سید کسی شخصیت کا نام نہیں ہے بلکہ سر سید ایک تحریک کا نام ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ سر سید تحریک ہندوستانی مسلمانوں کی وہ تحریک ہے جو نہ صرف اہم تحریکوں میں سے ایک ہے بلکہ اس تحریک کی افادیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی اس وقت تھی جب سر سیدحیات تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان فکری اعتبار سے جس قدر پسماندہ سر سید کے وقت تھا ، کم وبیش وہ اتنا ہی پسماندہ آج بھی ہے۔
لیکن سر سید تحریک تھی کیا اور ان کے اغراض و مقاصد کیاتھے ؟
سر سید تحریک کو محض ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ سر سید تحریک کا مقصد ہندوستانی مسلمان کو زمیندارانہ فکر سے نکال کر اس کو جدید انڈسٹریل تہذیب سے جوڑنا تھا۔ سر سید کے بارے میں عموماً یہ رائے دی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو جدید تعلیم سے جوڑنے والی شخصیت تھے اس لئے قابل قدر ہیں۔
سر سید کا یہ محاسبہ ان کے کا رناموں کا ایک تہائی سے زیادہ کا محاسبہ نہیں ہے۔ کیو نکہ تعلیم کے تعلق سے یہ سوال بھی جڑا ہوا ہے کہ سر سید مسلمانوں کو آخر جدید تعلیم سے کیوں جوڑنا چاہتے تھے ! اور اس گتھی کو سلجھانے کے لئے سر سید تحریک کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے لئے اس ہندوستان میں واپس جانا ہوگا جو مغلوں کے زوال کے بعد 1857 اور اس کے بعد کے مسلمانوں کو ملا۔
سن 1857 ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ بھی تھا اور ایک موقع بھی تھا جہاں سے محض ہندوستانی مسلمان ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کو ایک نیا سفر شروع کرنا تھا۔ مغلوں کے زوال کے ساتھ نہ صرف ایک خاص شاہی سیاسی نظام کا خاتمہ ہو گیا بلکہ ایک تہذیب اور اس سے جڑے ادارے بھی ختم ہو گئے۔ بہت سی سیاسی ، سماجی ، معاشی اور کلچر ل قدر یں راتوں رات کھو کھلی ہو گئیں۔
مثلاً 1857 تک ہندوستانی مدارس حصول علم کا سر چشمہ تھے۔ لیکن انگریزی کے عروج کے ساتھ جو نئے نصاب کے ساتھ جدید تعلیم کے اسکول اور کالج کھلے انہوں نے صدیوں پرانے مدارس ہی نہیں بلکہ وہاں چل رہے نصاب تعلیم کو بھی بے معنی کر دیا۔اسی طرح انگریز اپنے ساتھ نئے قوانین اور نئی عدالتیں لے کر آیا جس نے مسلم دور کے قاضیوں پر مبنی نظام عدلیہ کو ہی بے سود کر دیا۔ وہ فارسی زبان جو درباری زبان تھی انگریزی کے آگے دو کوڑی کی زبان ہو گئی اور تیل بیچنے بھر کی بچی۔
یعنی وہ مسلم تہذیب جس کا سورج مغل دور میں عروج پر تھا اس کا ہی کم وبیش غروب ہو گیااور 1857 کے بعد مسلمان اندھیرے غار میں غرق ہو گیا۔اب اس کے سامنے سوال تھا کہ وہ فکری اعتبار سے کیا کرے اور کہاں جائے۔ ایک جانب اس کا شاندار ماضی تھا اور دوسری جانب انگریز اپنی انڈسٹریل تہذیب کے ساتھ اس کے لئے ایک نیا حال و مستقبل لئے کھڑا تھا !۔
سن 1860 کی دہائی میں مغلوں کے زوال کے بعد پہلی بارمسلمانوں میں اس سوال کے جواب کی تلاش شروع ہو ئی اور اس کے جواب میں دو مکاتب فکر پیدا ہوئے۔ ایک مکتب فکر کا نام تھا دارالعلوم دیو بند اور دوسرے مکتب فکر کا نام تھا سر سید تحریک۔ دیو بند تحریک کا مرکزی خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب یہ ہے کہ وہ بنیادی اسلام سے ہٹ گیا ہے اس لئے وہ زوال پذیر ہے۔ اس کی بقا کا راستہ واپس بنیادی اسلام میں ہے جو اس کو مدارس سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی لئے دیو بند تحریک کی شروعات مدرسہ دارالعلوم سے ہو ئی جو آج بھی قائم اور آباد ہے۔
اس کے بر خلاف سر سید ایک بالکل مختلف مکتب فکر لے کر آئے۔ سر سید کا خیال تھا کہ 1857 تک مسلمان جس زمیندارانہ نظام میں جی رہا تھا وہ پورا نظام ہی بے سود اور بے معنی ہو چکا تھا۔ اس نظام کے ساتھ اس نظام کی قدریں بھی تقریباًبے معنی ہو چکی تھیں۔ اس لئے مسلمان کو فکری ، سماجی ، تعلیمی اور معاشی یعنی پوری تہذیبی سطح پر ایک نئی دنیا کی شروعات کرنی ہو گی۔ اب سوال یہ تھا کہ وہ دنیا کیسی ہو گی۔ سر سید کی رائے میں انڈسٹریل انقلاب پر مبنی وہ ایک جدید دنیا تھی جس کی داغ بیل مغرب میں رکھی جا چکی تھی اور یہی سبب تھاکہ مغرب مشرق سے بہت آگے نکل چکا تھا۔
مغرب کی دنیا کیسی دنیا تھی! مغرب میں جابر شہنشاہی نظام کی جگہ ایک نیا جمہوری نظام جنم لے رہا تھا۔ 1857 کے بعد شاہی سیاسی نظام بے سود ہو چکا تھا۔دیکھئے اس سلسلے میں سر سید کیا کہتے ہیں: ’’ اگر ہمارے ہم وطن اطمینان سے غور کریں اور اگر وہ سابق حکمرانوں کے اعمال کو انصاف اور اخلاق کی کسوٹی پر پرکھیں تو وہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ان حکومتوں نے ہمارے ملک کو بے حد نقصانات صرف اس لئے پہنچائے کہ اس سے ایک تھوڑے سے افراد کو فائدہ ہوا۔ پچھلے بادشاہوں اور راجاؤں کی حکومت نہ تو ہندو مذہب کے مطابق تھی نہ اسلامی مذہب کے ، وہ صرف ظلم و تشدد پر مبنی تھی‘‘۔
یعنی سر سید شاہی آمرانہ سیاسی نظام کو بے معنی سمجھ رہے تھے اور ساتھ ہی سیاسی نظام میں ان کے لئے ہندو۔ مسلم سوال بے معنی تھا۔ با الفاظ دیگر ان کے ذہن میں ایک سیکولر سیاسی نظام کا خاکہ تھا جو مغرب میں جنم لے چکا تھا۔
یعنی سر سید کی سیاسی دنیا زمیندارانہ دنیا کے بجائے ایک جمہوری دنیا تھی جو ایک جدید تصور تھا۔ سر سید مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے لئے اس دنیاکے طرف دار اور حامی تھے۔ یہ مسلمانوں کو جدید نظام سے جوڑنے کا بھی سب سے بہتر راستہ بھی تھا۔ سر سید نے کھل کر اس راستے کی نہ صرف تائید کی بلکہ مسلمانوں کو اسی راہ کی تبلیغ بھی کی۔ یہ سر سید کا پہلا بڑا کارنامہ تھا کیونکہ مغلوں کے زوال کے بعد مسلمان اسی شاہی خواب وخیال میں تھا جس کو نہ تو حاصل کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی وہ سود مند تھا۔
سر سید نے مسلمانوں کو جدید دنیا سے جوڑنے کا جو دوسرا ذریعہ ڈھونڈا وہ تھا سائنسی مزاج کا ذریعہ۔ سب واقف ہیں کہ سر سید نے علی گڑھ اینگلو محمڈن اسکول اور کالج کے قیام سے قبل سائنسی مزاج کا قیام کیا تھا۔ اس سوسائٹی کا بنیادی مقصد مسلم معاشرے کو اندھے عقیدوں سے نکال کر ان میں جدید سائنسی مزاج پیدا کرنا تھا۔ یعنی سر سید مسلم معاشرے میں ایک جدید فکر کی داغ بیل ڈالنا چاہتے تھے جس کو وہ اپنے جریدے کے ذریعہ اردو زبان جاننے والوں تک پہنچا رہے تھے۔ کیو نکہ کوئی جدید معاشرہ بغیر سائنسی مزاج کے ممکن ہی نہیں ہے۔ سر سید کی یہ کاوش بھی مسلم معاشرے کو جدیدیت سے جوڑنے کی ایک اہم کاوش تھی۔
فکری اعتبار سے سر سید کو جب یہ یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کی ترقی کا واحد راستہ زمیندارانہ نظام اور قدروں سے نکل کر ایک جدیدانڈسٹریل دنیا اور جدید فکر کا ہی راستہ ہو سکتا ہے تو ان کے سامنے یہ سوال تھا کہ مسلمان اس جدید دنیا میں پہنچیں کیسے۔جدید انگریزی تعلیم ہی وہ واحد راستہ تھا جس کے ذریعہ مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر قوم جدیدیت سے جڑ سکتی تھی اور آج بھی وہی ایک راستہ ہے جو جدید سائنسی اور انڈسٹریل دنیا سے انسان کو جوڑتا ہے اور وہ تعلیم جدید اسکول اور کالج کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
اسی لئے سر سید نے اپنی زندگی کا آخری حصہ علی گڑھ اینگلو محمڈن اسکول اور کالج کے قیام اور اس کے ارتقاء میں صرف کر دیا۔یاد رکھیے علی گڑھ مسلم یونیور سٹی سر سید کے لئے مسلم قوم کو مسلمانوں کو جدید فکر سے جوڑنے کا ذریعہ تھی۔ یعنی علی گڑھ یو نیور سٹی سر سید تحریک کا ایک حصہ ہے کلیہ نہیں۔ بہر کیف آج علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کسی حد تک مسلمانوں کو جدیدیت سے جوڑنے کا کام کر ہی ہے۔
یاد رکھیے کہ سر سید نے جدید فکر کے لئے مسلم شریعت میں اصلاح کی بھی تائید کی اور آج طلاق ثلاثہ جیسے مسائل ہم کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ سر سید اپنی کا وشوں میں پوری طرح کا میاب نہیں ہو سکے۔
سر سید کی دو سو ویں یوم پیدائش ایک با مسرت مو قع تو ہے ہی ، لیکن اس موقع پریہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہندوستانی مسلمان صحیح معنوں میں سر سید کی جدید فکر سے پوری طرح مستفید ہو سکا ! سچ تو یہ ہے کہ آج بھی مسلمان اس زمیندارانہ قدروں کا اسیر ہے جو مغلیہ سلطنت کے زوال کا سبب بنی۔ ہمارے ایک چھوٹے سے طبقے نے انگریزی تعلیم کا راستہ تو اپنا لیا ہے لیکن عام مسلمانوں میں آج بھی سائنسی مزاج کا فقدان ہے اور آج بھی شریعت کے نام پر ایسے رسم و رواج قائم ہیں جن کا اسلام سے کبھی کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
یعنی مسلمان فکری نشاۃ ثانیہ سے آج بھی بہت دور ہے اور زوال کا شکار ہے۔ اس زوال سے باہر نکلنے کا راستہ آج بھی سر سید تحریک ہی ہے۔ اس لئے اس عظیم المر تبت شخصیت کی دو سو ویں یوم پیدائش پر ایک بار پھر سر سید تحریک کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
روزنامہ سیاست حیدرآباد، انڈیا