اخبار انڈیا ٹوڈے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بھارت کے طول و عرض میں علماء کی کی ایک کثیر تعداد عورتوں سے ایک رات گزارنے کے بیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ پچاس ہزار روپئے تک وصول کر رہے ہیں۔ اور یہ وہ عورتیں ہیں جو واپس اپنے خاوند کے پاس جانے کے لئے شرعی مجبوری کے حل کے لئے ان علماء سے رجوع کرتی ہیں۔ اس رپورٹ نے ایک ایسی زیرزمین حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ جس کی طرف عام طور پر لوگوں کی نظر نہیں جاتی۔ اخباری رپورٹرز کی اس مسئلے کی طرف توجہ سپریم کورٹ میں حال ہی میں تین طلاق کے مسئلے پر چلنے والی دھواں دھار بحث کی وجہ سے مبذول ہوئی۔ جس کے بعد رپورٹرز نے سٹنگ آپریشنز کے ذریعے کئی علماء کو بے نقاب کیا۔
اس رپورٹ کے نتیجے میں ہندو اور مسلم لیڈروں نے ایسے لوگوں کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کرکے انہیں قرار واقعی سزائیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان علماء نے اپنی خدمات کی باقائدہ تشہیر بھی کی ہوئی ہے۔ اور اسی کی بدولت یہ رپورٹر مراد آباد کے لال باغ کے علاقہ میں واقع جامعہ مسجد مدینہ کے امام محمد ندیم تک پہنچے۔
امام صاحب شادی شدہ ہیں۔ رپورٹر نے امام کو بتایا کہ اس کی ایک رشتہ دار خاتون کے ساتھ طلاق کا مسئلہ ہوگیا ہے اور وہ واپس اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے تو کیا وہ اس کی مدد کرسکے گا۔ امام کے ہاں کہنے پر رپورٹر نے پوچھا کہ امام کی بیوی کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا ۔ جس پر امام نے کہا کہ وہ پہلے بھی بہت ساری حلالہ شادیاں کرچکا ہے اور یہ کہ اسے بیوی کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ صرف ایک رات ہی کا تو مسئلہ ہے۔ اس کے بعد امام ندیم نے بتایا کہ ایک لاکھ روپئے کے عوض وہ گارنٹی دے گا کہ ایک رات کی مباشرت کے بعد وہ خاتون کو یقینی طور پر طلاق دے دے گا جس کے بعد وہ اپنے سابقہ شوہر کے لئے شرعی طور پر حلال ہو جائے گی۔
رپورٹرز کی ٹیم نے دہلی میں جامعہ نگار کے امام زبیر قاسمی سے ملاقات کی جس کی پہلے سے دو بیویاں ہیں۔ امام نے رقم کے عوض نکاح حلالہ پر رضا مندی ظاہر کی ۔ جس پر اس سے پوچھا گیا کہ دو بیویوں کی وجہ سے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا تو امام صاحب کا کہنا تھا دو بیویاں ہونا تو اس کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ جب بھی وہ گھر سے باہر رات گزارتا ہے تو ہر ایک سمجھ رہی ہوتی ہے کہ وہ دوسری کے پاس ہے۔ قاسمی نے کہا کہ وہ لوگ فکر نہ کریں سارا کام پچاس ہزار روپے کے عوض ہو جائے گا۔
گندگی کے تعاقب میں رپورٹرز کا اگلا شکار دہلی کے دارلعلوم محمودیہ کا امام محمد مستقیم تھا جو ایسی مطلقہ عورتوں کے ساتھ سونے کا شوقین نکلا کیونکہ ایسا وہ پہلے بھی کئی بار کرچکا تھا۔
دوران گفتگو مستقیم نے بتایا کہ وہ ایک ہی وقت میں تین عورتوں کے ساتھ حلالہ کرچکا ہے جبکہ شادی اس نے صرف ایک ہی سے کی تھی اور باقی دو کو بغیرنکاح کئے ہی حلال کردیا تھا۔
جب امام سے حلالہ کی فیس کا پوچھا گیا تو اس نے مدرسے کے چندے کے طور پر بیس ہزار کا مطالبہ کیا جبکہ اپنی فیس کے بارے میں کہا کہ جو توفیق ہے وہ ہی دے دیں۔
بلند شہر کے علاقہ تل گاؤں کی میواتی مسجد کے امام ظہیر اللہ نے انڈر کور ٹیم کو نکاح حلالہ کے ایک امیدوار سے ملوایا۔ جس کانام عارف تھا۔
عارف بوڑھا ہونے کے باوجود اپنی مردانگی کے بارے میں پر یقین تھا اور اپنے مسلدکھا رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میرا آج کا دن تو پہلے ہی بک ہے۔ مگر کل یا پرسوں سے وہ چوبیس گھنٹے اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے حاضر ہے اور وہ ایک رات گزارنے کا پچیس ہزار روپے لے گا۔
اتر پردیش کے ضلع ہاپر میں ٹیم کا واسطہ مولوی محمد زاہد حلالہ سپیشلسٹ سے پڑا۔ مولوی صاحب سکھیدہ گاؤں میں وواقع ایک مدرسے کے مہتمم ہیں۔
مولوی صاحب نے کہا ’’ہمارے پاس اس کام کے لئے آدمی موجود ہیں اگر آپ ان لوگوں پر اعتماد نہیں کرتے تو پھر میں حاضر ہوں۔‘‘
جب رپورٹر نے پوچھا کہ اس کام کے لئے کتنی رقم کی ضرورت ہوگی تو مولوی نے کہا کہ یہ ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپئے کا خرچہ ہوگا نہ اس سے کم اور نہ ہی اس سے زیادہ۔
گوکہ بھارت کی امام کونسل کے سربرہ مولانا مقصود الحسن قاسمی کے بقول حلالہ کا کاروبار اسلام کے منافی ہے اور یہ ایک فوجداری جرم کی ذیل میں آتا ہے اور ان کے مطابق ایسے لوگوں کو دھکے دیکر مسجدوں سے نکال دینا چاہئے۔
مگر دوسری طرف اس مذموم کاروبار میں ملوث لوگ اپنی اس قبیح حرکت کا جواز بھی اسلام ہی کے حوالے سے پیش کرتے ہیں۔ تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ اس ماشرتی برائی کا منبع کہاں ہے۔
نوٹ: یہ پوسٹ حلالہ کے حرام یا حلال ہونے کی بحث کے متعلق ہر گز نہیں بلکہ اسلامی معاشرے میں تیزی سے پھیلتے ہوئے ایک گھناؤنے عمل میں بارے میں ہے۔
http://www.dailymail.co.uk/…/PAYING-sex-Islamic-scholar-sav…۔