مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس میں میاں نواز شریف نے تقریر فرماتے ہوئے آصف علی زرداری کا ذکر اچھے الفاظ میں کیااور گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ پہ بھی بات کی۔ میاں نواز شریف کی فطرت میں اسے عادت نہیں کہوں گی عادت تو بدلی بھی جا سکتی ہے مگر فطرت نہیں کہ وہ جب مشکل میں ہوتے ہیں تو وہ اپنے حریفوں کے بھی پاؤں میں پڑ جاتے ہیں اور جب مشکل سے نکل جاتے ہیں تو انہی لوگوں کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچنے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ۔
پچھلے چار سال میں نواز گورنمنٹ نے جو پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادتیاں کیں ان کی ایک طویل فہرست ہے مگر پیپلز پارٹی جو وفاق کی سیاست کرنے کی روایت رکھتی ہے جمہوریت کے تسلسل کیلئے خاموش رہی۔ نواز شریف کے اس دور حکومت میں پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ صرف صوبہ سندھ میں ہے جس پہ مسلسل وفاق کی طرف سے زیادتیاں ہوتی رہیں مگر پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ہمیشہ یہ کہتی رہی کہ ان زیادتیوں پر احتجاج بھی تحمل سے کیا جائے ورنہ پیپلز پارٹی پر بڑی آسانی سے یہ الزام لگا دیا جائے گا کہ یہ ایک خاص صوبے کی پارٹی ہے صوبائی لسانیت پھیلا رہی ہے اور وفاق سے تعصب رکھتی ہے۔
پچھلے دنوں احتساب عدالت میں پیشی پر رینجرز کے آنے پر جو وا ویلا (ن) لیگ نے مچایا ایسا ہی احتجاج جب پیپلز پارٹی کرتی تھی کہ سندھ میں رینجرز اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلسل زیادتی ہو رہی ہے تو نواز شریف گورنمنٹ کے وزراء خصوصاً چوہدری نثار کہتے تھے ہم رینجرز کے پیچھے کھڑے ہیں رینجرز نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کو دو سال تک دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات کی وجہ سے حراست میں رکھا حراست کے دوران ان پر بے پناہ جسمانی و زہنی تشدد کیا جاتا رہا اور چوہدری نثار آئے دن دھواں دھار پریس کانفرس فرماتے جس میں من گھڑت الزامات کی بوچھاڑ پیپلز پارٹی کے رہنماوں پر کی جاتی مگر نواز شریف اس پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔
میاں نواز شریف نے تاریخ کو دہرایا پہلے سیف الرحمٰن کے ذریعے احتساب بیورو بنا کر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں جس میں آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو شہید بھی شامل تھیں پر مقدمات قائم کیے گئے اور آصف علی زرداری ان مقدمات کی وجہ سے 11سال تک پابند سلاسل رہے اور پھر اسی سیف الرحمٰن نے بھری عدالت میں آصف علی زرداری سے معافی مانگی جس کے گواہ معروف صحافی حامد میر سمیت بہت سے لوگ ہیں۔سند ھ میں رینجرز پہلے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے لئے مشکلات کھڑی کر رہیں رہیں تھیں تو وفاق میں بیٹھی نواز گورنمنٹ بغلیں بجا رہی تھی وہ شاید بھول گئے تھے
چراغ سبھی کے بجھیں گے،ہوا کسی کی نہیں
اس طرح جب سندھ کے فنڈز کی بات ہوتی تھی تو اسحاق ڈار بات سننے کو تیار نہیں تھے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی طرف سے کئی بار احتجاج کیا گیا کہ سندھ کے فنڈ میں مسلسل کٹوتیاں کی جا رہی ہیں جس سے صوبہ میں انتظامی اور ڈویلپمنٹ کے معاملات چلانے میں مشکلات آرہی ہیں ۔اور آج جب میاں صاحب کی ناؤ ہر طرف سے طوفان کی زد میں ہے اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی کو ڈائیلاگ کی دعوت اس شاہانہ انداز سے دیتے ہیں جیسے کوئی احسان عظیم فرما رہے ہوں ۔
میاں صاحب نے تاریخ سے کبھی سبق نہیں سیکھا انہوں نے دشمنوں اور دوستوں کو ایک ہی چھڑی سے ہانکا ہے انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے ہی محسنوں کے گلے پر چھری چلانے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے اور مکافاتِ عمل کا شکار ہو جاتے ہیں ۔اگر وہ اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کرتے تو انہیں پتہ ہونا چاہیے تھا کہ مشرف کی آمریت کے بعد جمہوریت کی شمع جلانے کا سہرا پیپلز پارٹی پہ ہے۔ بی بی نے انتہائی دور اندیشی کے ساتھ پرویز مشرف سے ڈائیلاگ کیا اور جمہوریت کیلئے راہ ہموار کی اور اس میں نواز شریف کو بھی ساتھ لیا اور جس کی سزا انہیں موت کی صورت میں دی گئی ۔
مگر میاں نواز شریف نے اپنی احسان فراموشی کی روایت کو قائم رکھا اور پیپلز پارٹی کی سویلین بالادستی کی خواہش کو اس کی کمزوری سمجھا جب میاں نواز شریف کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا ہوا تو پیپلز پارٹی جمہوریت کی بقا ء کیلئے ان کے ساتھ کھڑی تھی مگر وہی نواز شریف جیسے ہی دباؤ سے نکلے سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں شروع کروا دیں ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں کرپشن تو کرپشن ان پر دہشت گردی کے سنگین مقدمات بنا دئیے گئے اور پھر جب دوبارہ کچھ قوتیں نواز شریف کے خلاف کھڑی ہوگئیں تو پھر انہوں نے پیپلز پارٹی سے توقعات باندھ لیں کہ وہ پھر ان کو بھنور سے نکالنے کیلئے سامنے آجائے گی ۔
وہ بھول گئے ہیں شاید کہ جب آصف علی زرداری نے 2015میں ایک تقریر کی تھی جس پر اسٹیبلشمنٹ نے ایک تنازعہ کھڑا کردیا تھا تو نواز شریف نے آصف علی زرداری سے طے شدہ ملاقات ہی منسوخ کر دی تھی جب کہ آصف علی زرداری نے اس وقت بھی ایک اصولی بات کی تھی کہ سیاستدانوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اگر نواز شریف پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے تو انہیں اس وقت آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا مگرانہوں نے اور ان کی کابینہ نے اس وقت آصف علی زرداری کے خلاف بیان دینا شروع کردیئے۔
اور اب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نواز شریف پر اعتبار کرنے کو تیا ر نہیں کیونکہ ایک بل سے آپ ایک ہی دفعہ ڈسے جا سکتے ہیں بار بار نہیں میاں نواز شریف اوران کے خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات ہیں جن پر عدالتیں اپنا فیصلہ سنا چکی ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اداروں کو چیلنج کرنے کی بجائے مقدمات کا سا منا کریں اور کوئی افہام و تفہیم کا راستہ تلاش کریں تاکہ اس ملک میں جمہوریت کا عمل چلتا رہے۔
اپنی ذات کے دفاع میں وہ جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کے اردگرد ان کے مشیران انہیں محاذ آرائی پر اکسا رہے ہیں جس کا نقصان جمہوریت کو ہوگا انہیں اس وقت دور اندیشی کی ضرورت ہے انہیں چاہیے کہ وہ اب بھی اپنی سابقہ غلطیوں کی معافی پیپلز پارٹی سے مانگیں اور جمہوریت کی بقا ء کیلئے اپنی اناء کو قربان کریں ۔
♦