آصف جیلانی
جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکل چوتھی بار عام انتخابات تو جیت گئیں لیکن نازی حدوں کو چھوتی ہوئی جارحانہ قوم پرست جماعت ’’متبا دل برائے جرمنی‘‘ اے ایف ڈی ،تیسری بڑی قوت بن کر ابھری ہے اور ساڑھے بارہ فی صد ووٹ حاصل کر کے 709اراکین کی وفاقی پارلیمنٹ ، میں 94نشستوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔ اگلے چار سال تک یہ قوم پرست جماعت چانسلر مرکل کا سیاسی تعاقب کرتی رہے گی اور جرمنی کی لبرل جمہوریت کے لئے ایسا چیلنج پیش کرتی رہے گی جس کا اسے پچھلی کئی دہائیوں سے سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ممکن ہے کہ یہ جماعت جرمنی کی سیاست کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دے۔
کئی عجیب و غریب پہلوہیں اس نو زائیدہ جماعت کے۔ ابھی صرف چار سال ہوئے ہیں اس جماعت کو قائم ہوئے اور گذشتہ مارچ میں اسے علاقائی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دوسری نازی اور کٹر قوم پرست جماعتوں کی طرح اس کے حامیوں میں اقتصادی طور پر پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد شامل نہیں بلکہ اس جماعت کو بڑی حد تک خوشحال طبقہ کی حمایت حاصل ہے۔
اس نئی جماعت کے بانیوں میں پیش پیش ، چانسلر مرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے سابق ممتاز رہنما الیگزانڈر گاولینڈ ہیں جو وکیل اور صحافی ہیں۔ ان کے ساتھیوں میں زیادہ تر اقتصادی امور پر لکھنے والے صحافی ، پی ایچ ڈی ، پروفیسر اور بزنس طبقہ سے تعلق رکھنے والے ممتازافراد شامل ہیں ۔ اسی بناء پر شروع شروع میں یہ جماعت ، پروفیسر پارٹی کہلاتی تھی۔ لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ ماہر معاشیات ، صنعت اورتجارت سے تعلق رکھنے والے حلقوں کی یہ جماعت ،اسلام دشمن جماعت کیسے بن گئی۔ گذشتہ مارچ کے علاقائی انتخابات میں کامیابی کے بعد اچانک اس پارٹی نے اپنے منشور میں جلی حرفوں میں کہا کہ ’’اسلام کا جرمنی سے کوئی تعلق نہیں‘‘ اور ہم جرمنی میں شریعہ کا نفاذ قبول نہیں کریں گے۔
جرمنی کے مسلم رہنماؤں نے جب اس مسئلہ پر اے ایف ڈی سے گفتگو کی تو یہ گفتگو ناکام رہی کیونکہ مسلم رہنماوں نے اس جماعت کو نازی پارٹی قرار دینے پر اصرار کیا ۔وجہ یہ تھی کہ پارٹی کے قاید الیگزانڈر گاولینڈ اپنے اس موقف پر اٹل تھے کہ جرمنی کو دو عالم گیر جنگوں میں اپنی فوج پر فخر کرنا چاہئے ، ان کا اصرار تھا کہ یہ ہمارا ورثہ ہے اور اسی بناء پر ہم اپنے ملک اور اپنے ماضی کی بازیابی چاہتے ہیں۔
دوسری عالم گیر جنگ کے بعد سے جرمنی میں مضبوط جمہوریت کے ذریعہ بڑے منظم طریقہ سے نازی طرز فکر کا قلع قمع کرنے اور نازی ماضی سے قطع تعلق کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ لیکن پچھلے سال انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جب چانسلر مرکل نے دس لاکھ پناہ گزینوں کو جرمنی کی سرزمین پر پناہ دی تو ان کے خلاف ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور نازی قوم پرست جماعتو ں نے چانسلر مرکل اور لٹے پٹے پناہ گزینوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا اور ایسی جذباتی فضاء طاری کردی کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نازیوں کی ہم نوا ہوگئی۔ اور نتیجہ یہ کہ سن ساٹھ کے بعد پہلی بار نازیوں کو وفاقی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کہ جگہ مل گئی۔
خود جرمنی میں سنجیدہ افراد کو عام انتخابات میں اے ایف ڈی کامیابی پر گہری تشویش ہے ۔ اس تشویش کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اے ایف ڈی کی کامیابی کے پیچھے اسلام دشمنی نمایاں ہے۔ اسلام دشمنی کا بڑھتا ہوا رحجان اس وجہ سے پریشان کن ہے کہ ترک اس وقت جرمنی میں سب سے بڑی مسلم اقلیت ہیں۔ ویسے تو ترکوں کے جرمنی سے روابط سلطنت عثمانیہ کے دور سے ہیں لیکن دوسری عالم گیر جنگ کے بعد جب جرمنی کو تعمیر نو کے لئے بڑے پیمانہ پر افرادی قوت کی ضرورت ہوئی تو ترکوں نے جرمنی کی مدد کی اور سن ساٹھ کے عشرہ میں ترک بڑی تعداد میں جرمنی میں آباد ہونے شروع ہوئے اور سن ستر کے عشرہ میں لبنان اور عراق سے بھی ترکوں نے جرمنی کو اپنے دوسرے وطن کے طور پر اپنایا۔ اس وقت ترک مسلمانوں کی جرمنی میں تعداد ستر لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
اس صورت حال میں اے ایف ڈی کے بانی الیگزانڈر گاولینڈ کا یہ نعرہ کھوکھلا لگتا ہے کہ جرمنی کا کبھی اسلام سے تعلق نہیں رہا۔ پہلی عالم گیر جنگ میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا اور دوسری جنگ میں تباہی کے بعد جرمنی کی تعمیر نو میں ترک مسلمانوں نے ایسے ہاتھ بٹایاجیسے وہ اپنے وطن کی تعمیر نو میں جٹے ہیں۔
اے ایف ڈی کی انتخابی کامیابی اس بناء پر بھی تشویش کی باعث ہے کہ گذشتہ چار برس کے دوران اس جماعت کا یورپ کی سیاست پر گہرا اثر مرتب ہوا ہے اور اس کی وجہ سے یورپ میں کٹر قوم پرستی کے رجحان کو فروغ ملا ہے۔ گو فرانس میں نسل پرست جماعت نیشنل فرنٹ 1972سے سرگرم عمل ہے اور اس وقت اس کے 85ہزار سے زیادہ اراکین ہیں لیکن اے ایف ڈی کے معرض وجود میں آنے کے بعد یورپ کے دس ملکوں میں کٹر قوم پرستی کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے ، جس کے پس پشت اسلام دشمنی نمایاں ہے اورپناہ گزینوں کے داخلہ پر پابندی کا مطالبہ حاوی ہے۔ان میں ہنگری میں ’’بہتر ہنگری کی تحریک‘‘ تیزی سے مقبول ہوئی ہے۔ اس نسل پرست تحریک کا سربراہ 38سالہ نوجوان گبور وونا ہے جس نے ہنگری کی سیاست میں تہلکہ مچا دیا ہے۔
آسٹریا میں نازی پارٹی ایف پی او ، فریڈم پارٹی آف آسٹریا پچھلے سال صدارتی انتخاب جیتے جیتے رہ گئی لیکن پارلیمنٹ میں اس کی نمایندگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اب یہ تیسری بڑی پارٹی ہے جس کے اراکین کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اسلام دشمنی کے ساتھ پارٹی تارکین وطن کے داخلہ کے سخت خلاف ہے ۔ اس کا موقف ہے کہ آسٹریا کی اپنی شناخت کے تحفظ کے لئے لازمی ہے کہ ملک میں غیر ملکیوں کا داخلہ مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ ۔ اس پارٹی کے سربراہ ہاینس کرسٹین اسٹراشے گذشتہ جنوری میں ٹرمپ کی انتخابی جیت پر مبارک باد پیش کرنے ٹرمپ ٹاور گئے تھے۔
ڈنمارک کی پیپلز پارٹی، جرمنی کی اے ایف ڈی سے بے حد متاثر ہے ۔2015کے انتخابات میں اس پارٹی کو 21فی صد ووٹ ملے اور یہ اب دوسری بڑی جماعت ہے۔ ڈنمارک کی پیپلز پارٹی امیگریشن کے سخت خلاف ہے ، اس کا کہنا ہے کہ ڈنمارک کسی صورت میں کثیر النسل ملک نہیں بن سکتا اس لئے لازمی ہے کہ امیگریشن پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
فن لینڈ میں بھی قوم پرستی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔فن لینڈ کی قوم پرست جماعت نے جو فن پارٹی کہلاتی ہے ، پچھلے عام انتخابات میں 17فی صد ووٹ حاصل کئے ۔ اس کی پالیسی کا تمام تر زور امیگرنٹس کے داخلہ پر پابندی پر ہے جب کہ فن لینڈ میں غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کا کوئی زور نہیں ہے۔
کٹر قوم پرستی میں اس وقت سوئٹزر لینڈ سب سے آگے ہے اور اس نازی قوم پرستی کی سر خیل پیپلز پارٹی ہے۔ جس نے اس سال اوائل میں ریفرنڈم میں امیگریشن کی سخت مخالفت کی تھی اور ایسے پوسٹر شائع کئے تھے جن میں سفید بھیڑ کو ایک کالی بھیڑ کو لات مار کر سویزرلینڈ کی سرحد سے باہر دھکیلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس سے پہلے ایک ریفرینڈم میں مساجد کے میناروں پر پابندی کے حق میں مہم کے دوران مساجد کے میناروں کو مزائلزدکھایا گیا تھا۔آخر کار 58فی صد ووٹروں نے میناروں پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا اور پابندی منظور ہوگئی۔
ادھر رودباد انگلستان کے دوسرے کنارے پر گو ایک عرصہ سے کٹر نازی جماعتیں سرگرم عمل ہیں جن مین نیشنل فرنٹ، برٹش نیشنل پارٹی ، نیشنل ایکشن اور انگلش ڈیفنس لیگ پیش پیش رہی ہیں لیکن جرمنی کی اے ایف ڈی کے گہرے تعاون کی بدولت نئی جماعت یو کے آئی پی نے اسلام اور امیگریشن کے خلاف جذبات کو ہوا دی ہے ۔
پچھلے دنوں لندن میں پولیس نے ممنوعہ نازی پارٹی نیشنل ایکشن کے خلاف کاروائی کی ہے اور اس کے گیارہ اراکین کو گرفتار کیا ہے ۔ جنہیں بعد میں رہا کردیا گیا لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ برطانیہ میں نازی پارٹی کے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت یورپ کٹر قوم پرستی کے جال میں گرفتار ہے، جس کی وجہ سے مسلمان اور غیر ملکی تارکین وطن سخت نفرت اور کشیدگی کا سامنا کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں ان کا مستقبل غیر یقینی کی تاریکی میں ڈوبتا نظر آتا ہے ۔
♦
One Comment