ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
اگرچہ یہ ایک علمی بحث ہے کہ کلچر مذہب کی تراش خراش کرتا ہے، اسے اپنے مزاج کے مطابق ڈھالتاہے اور اس کی ایسی نوک پلک سنوارتا ہے کہ بلاخر بیگانگیت اور دوہی کا احساس ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اب کلچر کا حقہ پانی معیشت کے دم سے ہے، تو گویا اس سارے معاملے میں معیشت ہی کو اولیت حاصل ہوگئی، اور یہ تہذیبی کل کے زنجیر کا وہ حلقہ ہے جو اگر ہل جائے تو پوری زنجیر ہل جاتی ہے۔
لیکن یہاں پر ہماری بحث کلچر اور مذہب کے درمیان جدلیاتی رشتے کو کریدنا ہر گز نہیں۔ البتہ ہماری اس بحث میں اصل نکتہ جس پر میں توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ تاریخی عمل کے نتیجے میں لوگ کس طرح مذہب کی تشریح اور اس کے مختلف احکامات کی تعمیل کرتے ہیں اور اپنے مخصوص سماجی اور معاشی انداز سے اس کو کیسے جوڑتے ہیں۔
جب میں اپنے گرد و پیش، خصوصا گذشتہ بیس پچیس سالوں میں پشتون سماج کا تجزیہ کرتا ہوں تو ایک بنیادی تبدیلی یہ سامنے آئی ہے کہ مذہب اور کلچر کا باہمی رشتہ کمزور پڑا ہے، چونکہ عام حالات میں مذہب بطور ادارہ اور اس سے متصل تمام تر سرگرمیاں مخصوص سماجی ساخت کی تابع ہوتی تھیں، “ملا” یا “خطیب” کمیونٹی کو جوابدہ تھا، اس کی ملازمت اور نان نفقہ کا انتظام سماجی سطح پر اجتماعی زمہ داری سمجھی جاتی تھی ، اور آج بھی ہے۔
لیکن سرد جنگ کے بعد جب مذہب نے سیاسی رخ اختیار کیا، ہزاروں کے حساب سے مدارس وجود میں آئے، مذہب کے نام پر جہانگیری اور فتوحات کی تحریکیں چل نکلیں، سماج کو ان تحریکوں میں حصہ ڈالنے اور اسے اندرونی طور پرعقیدوی لحاظ سے پاک صاف کرنے کی فطری خواہش بھی پیدا ہو گئی۔
یہ تبدیلیاں کافی حد تک مرحلہ وار اور دوام دار رہی ہیں۔ جب میں خود غور کرتا ہوں تو پہلی تبدیلی جو واقع ہوئی وہ یہ تھی کہ رمضان میں جب سحری کیلئے ڈھول پیٹنا شروع ہو جاتا تو عین اسی وقت سے مساجد میں صلوات شروع ہو جاتیں۔ جو صلوات ہم آج مدنی چینل پر سنتے ہیں گویا یہی ہم بچپن میں اپنی مسجد سے بلند ہوتی ہوئی سنتے تھے۔ پہلی تبدیلی یہی آئی کہ ان صلواتوں کی جگہ جنگی ترانوں نے لینی شروع کردی جن شہدا یا اکابرین کے نام یاد کئے جاتے تھے، وہ سب کیلئے نئے تھے، چونکہ ترانے پشتو میں تھے اور صلوات عربی میں شاید یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
اس کے بعد ایک اور تبدیلی یہ آئی کہ سرکار دوعالم حضرت محمد (صلہم) کے نام سے“یا” کا صیغہ ہٹا دیاگیا، مقامی علما نے پہلے پہل کافی مزاحمت کی، لیکن ہوکر رہا۔ چونکہ یہ ایک لحاظ سے تکنیکی اور متنی مسئلہ تھا اسلئے عام عوام کو اس پر کوئی تردد نہ ہوا البتہ پھر لوگوں کو تعویز ، گنڈے اور مزاروں پر جانے سے روکنے کی ایک بھرپور تحریک چل نکلی، اور اب بھی چل رہی ہے۔
یوں اسی دوران تبلیغی تحریک نے بھی امام مسجد سے ممکنہ تصادم کو موثر انداز سے حل کرایا، یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ امام کو ہٹانے کے بجائے انہیں مزید تقویت پہنچانے کا باعث ہوگا اور وہی ہو کر رہا۔عین اسی وقت میں سرد جنگ کا دھکم پیل شروع ہوا ، جہادی تنظیمیں منظم کی گئیں اور مذہبی ادارے اس کی آماجگاہیں بنیں۔
اس کے بالا بالا پارلیمانی نظام سے متصل مذہبی پارٹیوں کو بھی خوب پذیرائی حاصل ہوئی، مدارس انکے سب سے بڑے ووٹ بینک ثابت ہوئے، اور یوں سماج کے زیر اثر چلنے والا مذہبی ادارہ نے ایک جداگانہ شناخت قائم کرلی۔ بطور پاور ہاوس چلنے والے ان اداروں میں مخصوص مذہبی آئیڈیالوجی سے وابستگی سماجی سطح پر قبولیت کا باعث بھی رہی، سیاسی معیشت اور معاشی سیاست کو پروان چڑھانے میں بھی خوب کارگر ثابت ہوئی۔ مذہبی شناخت اور نظرئے کی حدت سے کس طرح کا سیاسی یا سماجی عمل وجود میں آیا یہ الگ سوال ہے، لیکن مذہب کے بنیادی فہم، اخلاقی اصولوں اور اقدار کی کیا درگت بنی یہ ایک غور طلب پہلوہے۔
غالبا آج سے بیس سے سال پہلے محرم کے ابتدائی دس ایام میں کسی گھر سے بھی میوزک یہاں تک زور سے ہنسنے تک کی ممانعت تھی۔ خصوصا نویں اور دسویں کو تو باقاعدہ خیرات بانٹی جاتی تھی اور لوگ روزے رکھے جاتے تھے۔ پہلے دس دنوں کو ہمارے ہاں “ژڑاندی” یعنی رونے والے دن کہا جاتا تھا اور آج بھی گاؤں میں لوگ اسی نام سے یاد کرتے تھے۔
ان دنوں میں کیا ہوا تھا؟ عام آدمی کو اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا، البتہ اتنا پتہ تھا کہ نبی (صلہم) کے نواسوں کی شہادت ہوئی تھی، انہیں پیاسا رکھا گیا تھا اور جس اذیت میں ان کی موت واقعہ ہوئی تھی اس کو محسوس کرنے کی ضرورت تھی۔ کربلا کا واقعہ کیا تھا، اس کے پیچھے کیا عوامل تھے، قبائلی سماج میں یہ ایک غیر ضروری سوال تھا۔
اس کی ایک بنیادی وجہ مذہبی علما کا پس اسلام کے مسلم سماج کی تاریخ اور سیاسی تحریکوں سے یکسر لاعلمی تھی اور آج بھی ہے، کہ اکابرین اور صحابہ کرام کے درمیان ہونے والی مخاصمتوںاور رنجشوں کو کریدنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر سچ پوچھئے مجھے ان کی یہ منطق کافی حد تک موثر لگتی ہے، لیکن تاریخ سے مطلق لاعلمی کی ایک بڑی قیمت البتہ ادا کرنی ہوتی ہے، سو ہم کرتے رہے ہیں۔
کوئٹہ میں محرم کے جلوس آزادانہ برآمد ہوتے تھے، جلوس میں شریک عزاداروں کیلئے لوگ سبیلیں لگواتے تھے، جلوس میں شرکت کی حد تک شریک بھی ہو جاتے تھے، اور ایک دلچسپ حکایت (جو بعد میں مثل بنا) کے طور پر شرکت کرتے ہوئے عزاداروں کے ساتھ، وجہ نہ جانتے ہوئے بھی اور مروت میں سینہ کوبی کرنی پڑ جاتی تھی۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ لوگوں کو مذہبی فرقوں میں نہ تو دلچسپی تھی اور نہ ہی مختلف فرقے سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر ان سے بغض رکھا جاتا تھا۔ہاں البتہ مختلف زبان، کلچرز، نسل اور بودوباش رکھنے والے ایک دوسرے سے نابلد اور دور رہنے کی وجہ سے کچھ تصورات قائم کرلیتے ہیں جو آج بھی موجود ہیں اور ہر کہیں ہیں۔
آج حالت یہ ہے کہ کوئٹہ شہر کے کئی مرکزی شاہراہیں بند ہیں، پولیس، ایف سی، اور فوج سمیت ہزارہ کمیونٹی کے نوجوان بھی اپنے مخصوص یونیفارم میں چوکنے کھڑے رہتے ہیں۔ ایک ہی شہر کے لوگ آج اجنبیت، منافرت اور بیگانگیت کے جس احساس سے گزر رہے ہیں وہ شاید اس سے پہلے دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ ان دس ایام کا جو تقدس روایتی سماج کے رگ و پے میں پیوست تھا وہ تقریبا ختم ہونے کو ہے۔
نویں اور دسویں محرم کو شہر کے تمام اعضا مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں، دفاتر، سکول، بازار اور تمام تجارتی مراکز بند ہوجاتے ہیں، اور لوگ تفریح منانے زیارت ، ہنہ اوڑک، بولان، پیر غائب یا پھر اپنے آبائی گاوں کا رخ کرتے ہیں۔ کربلا کے واقعے کے تمام علامتی، تاریخی، علمی اور روحانی پہلو مذہب کی سیاسی معیشت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
ان پڑھ اور روایتی سماج جس باہمی انحصار ، انسانی اقدار اور یگانگت پر عمل پیرا تھی، اسے نام نہاد جدید اورتعلیم یافتہ ذہن نے اپنے مخصوص افکار سے بدل دیا ہے جس میں مختلف ہونا ہی سارے مسائل کی جڑ ہے۔
♥