ہندو راشٹرکا پرچار کرنے والے طرح طرح سے مسلمانوں پر وار کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں، مقصد مسلمانوں کی زندگی ضیق کرنی ہے اور ان پر یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کا اس ملک کی تاریخ اور ثقافت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ غیر ملکی حملہ آور اور غدار ہیں اور اس ملک میں ان کے لیے اس وقت تک کوئی جگہ نہیں جب تک وہ اپنا تشخص مٹا کرمکمل طور پر ہندو راشٹر کی ہندوستانیت قبول نہیں کرتے۔
ایک عرصہ سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے پریوار ۔بھارتیہ جنتا پارٹی اور وشوا ہندو پریشد نے مسلمانوں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارتوں کو قدیم ہندو مندر اور محل قرار دینے کی مہم شروع کی تھی۔ اسی مہم کے تحت 2015میں چھ وکلاء نے آگرہ ہائی کورٹ میں ایک درخواست پیش کی تھی ، جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ تاج محل ، پرانے زمانے میں شیو کامندر تھا جو تیجو مہالایہ کہلاتا تھا اس لئے اب یہ مندر ہندووں کے حوالے کیا جائے تاکہ ہندو اس میں پوجاکر سکیں۔ اس درخواست میں دعوی کیا گیا تھا کہ بارہویں صدی میں راجہ پرماردی دیو نے تیجو مہالایہ تعمیر کرایا تھا جو بعد میں تاج محل کہلایا جانے لگا۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ بعد ازیں یہ محل جے پور کے راجہ مان سنگھ کو ورثہ میں ملا تھا۔ راجہ مان سنگھ کے بعد سترویں صدی میں تاج محل ، راجہ جے سنگھ کی تحویل میں تھااور 1632میں اس پر شاہ جہاں نے قبضہ کر لیا تھا۔
آگرہ ہائی کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لئے منظور کرلی تھی اور ہوم سیکریٹری ، وزارت ثقافت اور ہندوستان کے آثا ر قدیمہ کے سروے کو نوٹس جاری کر دیے تھے۔ اس کے جواب میں وزارتِ ثقافت نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ تاج محل مقبرہ ہے مندر نہیں ہے ۔ آثار قدیمہ کے سروے نے 17اگست 2017کو آگرہ ہائی کورٹ کوبتایا کہ تاج محل ایک مسلم مقبرہ ہے اور یہ کبھی مندر نہیں رہا۔
ہندو راشٹر کے پرچارک پرشوتم نگیش اوک نے 1964میں ہندوستان کی تاریخ کو از سر نو مرتب کرنے کا ادارہ قائم کیا تھا۔ انہوں نے عجیب و غریب دعوے کر کے آر ایس ایس کے کارکنوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ ان کی بیا ن کردہ تایخ اور دعووں کو حقیقت سمجھنے لگے ۔ یہی پرشوتم نگیش اوک ہیں جنہوں نے یہ دعوی کیا تھا کہ جزیرہ نما عرب ، ہندو ستان کے راجہ وکرما دیتا کی سلطنت کا حصہ تھا اور کعبہ ، اصل میں ہندو مندر تھا۔ پرشوتم نگیش اوک نے اپنی انداز کی تاریخ کی کئی کتابیں لکھی ہیں اور ہندوستان کی تاریخ کی غلطیوں کے بارے میں اپنی کتاب میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ قطب مینار در اصل نجوم پیمائی کا مینار تھاجو وشنو دھواج کہلاتا تھا۔ ان کے مطابق دلی کا لال قلعہ در اصل ، ایک ہندو حکمران نے تعمیر کرایا تھا ۔اسی کتاب میں پرشوتم اوک نے یہ فیصلہ صادر کیا ہے کہ ہندوستان میں قرون وسطی کی تمام مساجد اور مقابر ہندوں کے مندر اور محلات تھے جن پر مسلم حکمرانوں نے قبضہ کر لیا تھا ۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ گوالیار میں غوث محمد کا مزار ، فتح پور سیکری میں سلیم چشتی کا مقبرہ، دلی میں نظام الدیں اولیا کا مزار ، اور اجمیر میں معین الدین چشتی کا مقبرہ سب ہندووں کی عمارتیں تھیں جن پر مسلم فاتحین نے قبضہ کر لیا تھا۔ در اصل ایسے ہی دعوے ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری کا پیش خیمہ تھے۔
بہر حال پرشوتم اوک کے ان مضحکہ خیز دعووں کا خود سنجیدہ ہندو تاریخ دانوں نے مذاق اڑایا ہے ۔ اس نوعیت کے مضحکہ خیز دعووں میں نریندر مودی نے بھی اپنے اس دعوی کا اضافہ کیا ہے کہ پلاسٹک سرجری قدیم ہندوستان میں ایجاد ہوئی تھی ۔
اب آر ایس ایس نے یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کی پرانی عمارتوں کو ہندو مندر اور محلات قرار دینے کی کوشش کا مستند تاریخ دانوں نے مذاق اڑایا ہے اور یہ کوشش کامیاب ثابت نہیں ہوئی ہے تو اب پینترا بدلا ہے اور اب تاج محل اور دوسری مغل عمارتون کو ہندو مندر اور ہندو راجاوں کے محل قرار دینے کے بجائے ان عمارتوں کو غیر ملکیوں اور غدارون کی تعمیرات قرار دیا جارہا ہے اور ان تاریخی عمارتوں کو ہندوستان کی ثقافت اور تاریخ سے یکسر خارج کرنے کی مہم شروع کی جارہی ہے۔
اترپردیش کے نئے وزیر اعلی یوگی ادتیا ناتھ کا کہنا ہے کہ تاج محل ، ہندوستان کی تہذیب کا مظہر نہیں ہے ۔پچھلے ستر سال کے دوران تاج محل کی فیس سے اربوں روپے کمانے کے بعد اب ان کا کہنا ہے کہ اسے ہندوستان کی تاریخ کاحصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یوگی وزیر اعلی کا کہنا ہے کہ اب تک ہندوستان کا دورہ کرنے والے غیرملکی صدور اور مہمانوں کو تاج محل اور دوسری مغل عمارتوں کے ریپلیکاہندوستان کی ثقافت کے نشان کے طور پر دئے جاتے تھے لیکن اب پہلی بار نریندر مودی نے اس طریقہ کو ترک کر کے ہندوستان کا دورہ کرنے والے غیر ملکی صدور کو بھگوت گیتا اوررامائین کے تحفے دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان جی وی ایل راو جو ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کے خلاف زہر اگلنے میں سب سے پیش پیش ہیں ، انہوں نے الزام لگایا ہے کہ مسلم حکمرانوں کے دور میں ہندوستان سخت استحصال اور بڑے پیمانے پر عدم برداشت کا شکار رہاہے۔ آر ایس ایسکی طرف سے خاص طور پر اورنگ زیب کو نفرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اور جہانگیر اور شاہ جہاں کو بھی جن کی والدہ ہندو شہزادیاں تھیں ، غیر ملکی غدار قرار دیا جا رہاہے ۔
ان ریاستوں میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں ہیں ،ہندوستان کی تاریخ دوبارہ لکھی جارہی ہے، جن میں مغل حکمرانوں کوقاتل اور ہندو راجاوں کو بڑی جنگوں میں فاتح قرار دیا جا رہا ہے۔ 1576 میں شہنشاہ اکبر نے میواڑ کے حکمران مہارانا پرتاپ کو ہلدی گھاٹی کی جنگ میں شکست دی تھی جس کے بعد مہارانا پرتاپ نے راہ فرار اختیار کی تھی اور ناکام چھاپہ مار جنگ شروع کی تھی ۔ راجھستان کی یونی ورسٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ تاریخ کی نئی درسی کتاب میں یہ کہا جائے گا کہ ساڑھے چار سوسال قبل اس جنگ میں رانا پرتاپ نے اکبر کو شکست دی تھی ، مسلم حکمرانوں کی بات تو الگ رہی تاریخ کی نئی درسی کتاب میں گاندھی اور نہرو کا ذکر بھی خارج کر دیا گیا ہے ان کی جگہ آر ایس ایس کے ویر ساورکر کو زبردست حب الوطن اور انقلابی قرار دیا گیا ہے۔
نریندر مودی کی قیادت میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی بر سر اقتدار آئی ہے ،مسلمانوں کو سیاست سے بڑی حد تک خارج کرنے کے بعد اب انہیں تاریخ اور ثقافت سے بھی جدا کرنے کے لئے بڑے منظم طریقہ سے مہم چلائی جارہی ہے کیونکہ آر ایس ایس کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک ’’ غیرملکی مسلمانوں‘‘ سے نجات حاصل نہیں کی جاتی اور تاریخ اور ثقافت پر ان کے نشانات مٹا نہیں دئے جاتے اس وقت تک ہندوستان میں ہندو راشٹرکا قیام ممکن نہیں ہے۔ گذشتہ تین سال کے دوران جس بری طرح سے ترقی پسند اور سیکولر طاقتیں پسپا ہوئی ہیں اس کے پیش نظر ہندوستان کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
♥