جہاز بحر اوقیانوس کے اوپر محو پرواز تھا ۔ میں لند ن سے ٹورانٹو جا رہا تھا۔ میں اس سفر کا بیشتر حصہ سو کر گزارنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ مگر انکھیں بند کرتے ہی میرے دماغ میں وہ آوازیں گوجنے لگیں جو میں لندن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں دو دن سنتا رہا تھا۔ ان آوازوں میں ہر طرح کی آواز تھی۔ کچھ آ وازوں میں غصہ تھا۔ کچھ میں احتجاج۔ کئی میں مایوسی تھی اورکئی امید کی نوید۔
کانفرنس میں تین قسم کے لوگ تھے۔ آزاد خیال، ترقی پسند اور قوم پرست۔ یہ لوگ پاکستان ، یورپ اور شمالی امریکہ سے آئے تھے۔ ان میں پرفیسرز، ڈاکٹرز، صحافی، لکھاری، دانشور، سفارت کار، قانون دان، سیاسی اور سماجی رہنما شامل تھے۔ یہ لوگ پاکستانی سماج کو درپیش مختلف مسائل پر گفتگو کرنے اور ایک مشترکہ بیانیہ سامنے لانے کی کوشش کرنے کے لیے لندن کے ایک ہوٹل میں جمع ہوئے تھے۔ گفتگوہ کا آغاز مروجہ بیانیوں پربحث سے ہوا۔
شرکاء کا کہنا تھا کہ گزشتہ ستر سال میں سرکاری سرپرستی میں پاکستان میں جو بیانیے تخلیق کیے گئے ، یا ترتیب دئیے گئے ہیں، وہ اس ملک کے بانیوں کے نظریات اور خیالات اور مقاصدسے متصادم ہیں۔ ا ن میں مذہبی بنیاد پرستی اور عدم رواداری کا بیانیہ سب سے نمایاں ہے۔ یہ انتہاپسندوں کا بیانیہ ہے جسے وقتا فوقتا بھر پو سرکاری اورریاستی سرپرستی بھی حاصل رہی ۔ یہ بیانیہ بہت زیادہ جگہ گھیر چکا ہے ۔ اب اسے ملک کا واحد بیانیہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ملک کے ہر اہم سوال کو اس بیانیے کی روشنی میں پیش کیا جا رہاہے۔
شہری آزادیوں، معاشی و سماجی انصاف اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور جنگ کے سوال کو اس بیانیے کی روشنی میں دیکھا جا رہاہے۔ خوف کی ایک مصنوعی فضا پیدا کر دی گئی ہے جس میں لوگ اس بیانیے کے خلاف بولنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ اس کی ایک دردناک مثال پاکستان کی عام دھارے کی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ اپنے وقت کی کچھ روشن خیال اور ترقی پسند پارٹیوں کا جھکاوء واضح طور پر قدامت پرستی اور مذہب پسندی کی طرف ہو رہا ہے۔
ان پارٹیوں کے رہنما اور دانشور اب ایسے موضوعات پر اپنے واضح خیالات کا اظہار کرنے سے کتراتے ہیں جن سے ان کی شناخت آزاد خیال یا روشن خیال لوگوں کے ساتھ ہوتی ہو۔ اب مین سٹریم سیاست کار بھی مذہبی لوگوں کی طرح بات کرنے لگے ہیں۔ ان جیسا حلیہ بنانے اور ان کی زبان بولنے لگے ہیں۔ اور یہ مصنوعی تاثر دیا جا رہا کہ یہ بیانیہ پاکستان کا غالب بیانیہ ہے اور اس کی مخالفت کوئی سیاسی قوت نہیں کر سکتی۔ مگر یہ حقیقت نہیں ایک ایسا جھوٹ ہے جسے دھونس اور دھندلی سے سچ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے عام آدمی کو آزاد خیال اور ترقی پسند بیانیے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
عام آدمی اپنی سوچ اور رویوں کے اعتبار سے آزاد خیال ہے۔ روادار ہے۔ یہ عام آدمی پاکستان کا اسی فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ عام آدمی وہ ہے جو لاکھوں کی تعداد میں ملوں اور کارخانوں میں کام کرتا ہے۔ جو تاجر اور دوکاندارہے، کھیت مزدور ہے۔ ریڑھی بان ہے۔ رکشا اور ٹیکسی چلاتاہے۔ طالب علم ہے ۔ دانشور ہے، وکیل ہے، استاد ہے۔ عام سپاہی ہے یا پولیس والا ہے۔ یہ عام آدمی ہے جو آج بھی اپنے پڑوسی کے ساتھ رواداری کا رویہ رکھتا ہے۔ پڑوسی ملکوں کے ساتھ امن پر یقین رکھتا ہے۔
مگر یہ عام آدمی آج آزاد نہیں۔ یہ یرغمال بن چکا ہے۔ ان مٹھی بھر منظم قوتوں کے ہاتھوں جن کا ہر اس جگہ پر قبضہ ہوتا جا رہا جو کسی طرح بھی کسی اہمیت کی حامل ہے۔ خواہ وہ یونیورسٹی ہے یا کالج، اخبارات کے روپوٹنگ رومز ہیں۔ٹی وی ہے یا پھر آج کا سوشل میڈیا ہے۔ اس قبضے کے زریعے یہ لوگ اپنا بیانیہ عوام پر زبردستی مسلط کر رہے ہیں ۔ یا پھر ایسی سیاسی فضا پیدا کر رہے ہیں جس میں عام آدمی اس بیانیے سے اتفاق کرتے ہوئے دیکھائی دیتاہے۔ جو کے حقائق کے بر عکس ہے۔ یہ لوگ دین ، مذہب یا وطن کی محبت کے نام پر جو کچھ پھیلا رہے ہیں وہ جھوٹ ہے۔ نفرت ہے۔ جہالت ہے۔ اس جھوٹ کو انہوں نے بیانیہ کا خوبصورت نام دے رکھا ہے۔
کانفرنس میں شرکت کرنے والے لبرل، ترقی ، پسند اور قوم پرست لوگوں میں کئی باتوں پر اتفاق تھا۔ ان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ سب پاکستان کو ایک جدید، روشن خیال ، رواداراور پر امن ملک دیکھنا چاہتے تھے۔ جن چیزوں پر بظاہر اختلاف رائے تھا ان کو بھی اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو اختلاف کی کوئی زیادہ گنجائش نہیں رہتی۔ اگر قوموں کے حق خود اردیت یا عوام کا حق حکمرانی تسلیم کرناقوم پرستی ہے تو کانفرنسں میں موجود سب ہی لوگ قوم پرست تھے۔ مجھے یہاں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آیا جو قوموں کے حق خودارادیت یا عوام کے خود اپنے آپ پرحق حکمرانی کے خلاف ہو۔ طریقہ کار یا راستے کے انتخاب پر اختلاف ہو سکتا ہے۔
اس طرح اگر فرسودگی کا خاتمہ، طبقاتی تضادات میں کمی اور معاشی انصاف کی بات ترقی پسندی ہے تو اس چھت کے نیچے بیٹھا ہوا ہر شخص ترقی پسند ہی تھا۔ اور اسی طرح انفرادی آزادیوں، شہری آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کی بات اگر لبرل ازم ہے تو ان معنوں میں ان سب لوگوں کو لبرل بھی کہا جا سکتا ہے۔ آزاد خیال لوگوں، ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کے درمیان بہت کچھ مشترک ہے۔
پاکستان کے موجودہ تناظر میں ان میں سب سے مشترک بات یہ ہے کہ یہ سب پاکستانی سماج سے مکمل طور پر مٹ جانے کے مشترکہ خطرے سے دو چار ہیں۔ ان کی جگہ ان سے بڑی حد تک چھن لی گئی ہے۔ اور اگر یہ لوگ کسی نہ کسی شکل میں مل جل کر مشترکہ جہدوجہد کی کوئی صورت نہیں نکالتے تو ان کی رہی سہی جگہ بھی ان سے چھن جائے گی اور بہت جلد یہ لوگ قصہ پارینہ بن جائیں گے۔
♥