محمد شعیب عادل
تیرہ چودہ اکتوبر کولندن میں’’ دوسری ساتھ کانفرنس‘‘ کا انعقاد ہوا ۔ جس میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے دانشور، صحافی، لکھاری، بلاگرز اور سیاسی کارکن شریک ہوئے ۔کانفر نس کا مقصد پاکستانی ریاست کے جاری بیانیے کے برعکس متبادل بیانیے کو فروغ دینا ہے جسے پاکستانی ریاست سننے کے لیے تیار نہیں اور پاکستان کا آزاد میڈیا بتانے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستانی ریاست کے بیانیے میں سیاسی جماعتوں پر تنقید ہو سکتی ہے ، سیاستدانوں کو کرپٹ کہاجاسکتا ہے لیکن سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ کے کردار پر تنقید نہیں ہو سکتی جو عوام کی نمائندہ حکومت کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے ۔ریاستی بیانیے میں چھوٹے صوبوں سے ہونے والی زیادتیوں پر بات نہیں ہو سکتی، بلوچ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی پر بات نہیں ہو سکتی، سندھی کارکنوں کے اغواپر بات نہیں ہو سکتی۔ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں پر بات نہیں ہوسکتی۔
اس بیانیے میں کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کی بات تو ہو سکتی ہے لیکن پاکستانی ریاست اپنے ہی عوام پرجو مظالم ڈھاتی ہے ان پر بات نہیں ہو سکتی۔۔ انتہا پسند مذہبی تنظیموں اور ان کی سرگرمیوں پر بات نہیں ہوسکتی ۔ اس بیانیے میں پاکستان کی خودمختاری، سلامتی اور حفاظت کی بات کی جاتی ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں کی نوید سنائی جاتی ہے ۔ اس بیانیے کو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ بنیاد پرست اور روشن خیال طبقے دونوں اپنا چکے ہیں۔
یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ اس وقت پاکستان جنوبی ایشیائی خطے میں نہ صرف سفارتی تنہائی کا شکار ہوچکا ہے بلکہ سیاسی ،سماجی اور معاشی طور پر تنزلی کا ہے۔ سفارتی تنہا ئی کی ذمہ دار پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ ہے جو دفاعی گہرائی کی پالیسی کے تحت دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہی ہے ۔پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس پالیسی کے خلاف دبے الفاظ میں آواز بھی اٹھاتی ہیں ، ڈان لیکس اس کی واضح مثال ہے ،مگر پاکستانی میڈیا میں ان معاملات پر گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ۔ ہاں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں پر کیچڑ اچھالا جاسکتا ہے۔
کانفرنس کا لندن میں انعقاد ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ پاکستان کے امن پسند عوام کا ایک بیانیہ بھی وجود رکھتا ہے جسے پاکستانی میڈیا نظر انداز کرتا ہے۔ کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے، امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر ،حسین حقانی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک کثیر القومی اور کثیر اللسانی اکائی ہے جسے طاقت کے بل پر اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا۔ ماضی میں ہم اس کا خمیازہ بھگت چکے ہیں ۔۔۔ پاکستان کو طاقت کے بل پر نظریاتی ریاست بنایا جارہا ہے جہاں متبادل بیانیے کی جگہ سکڑتی جارہی ہے۔۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا قومی بیانیہ ایک ادارے کی قید میں ہے جبکہ اس بیانیے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانا چاہیے۔ ۔پاکستان کی عوام کی خوشحالی کا راز جنگجویانہ نظریات میں نہیں ہمسایوں سے دوستی میں مضمر ہے۔۔انہوں نے کہا پاکستان میں قومی دھارے میں ان لوگوں کو لایا جارہا ہے جو دوسرے ملکوں میں لوگوں کو مارتے ہیں لیکن جو ان کی مخالفت کرتے ہیں، ان کو قومی دھارے سے خارج کر دیا جاتا ہے اور غداری کا الزام لگا یا جاتا ہے۔۔ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم لوگ پاکستان توڑنے کی سازش کر رہے ہیں جبکہ درحقیقت ہم تو پاکستان کو جوڑنے کی بات کرتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی تمام قومیتوں سے مکالمہ کرنا چاہیے۔ ہم تو ان باتوں کی نشاندہی کررہے ہیں جس سے پاکستان بین الاقوامی طور پر سفارتی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔
کانفرنس کے شرکاکی یہ مشترکہ رائے تھی کہ خارجہ پالیسی متعین کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے جبکہ اس پر جی ایچ کیو نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ جی ایچ کیوجمہوریت سے خوف زدہ ہے کیونکہ جمہوری حکومت عوام کی نمائندہ حکومت ہوتی ہے جو عوام کی خوشحالی کے لیے کوشاں ہوتی ہے۔ عوام کی خوشحالی کا راز جنگ میں نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک سے دوستی اور تجارت میں مضمر ہے۔ اور جب بھی جمہوری حکومت ہمسایہ ممالک سے دوستی اور دوطرفہ تعلقات کی طرف پیش قدمی کرتی ہے تو سرحد پار دہشت گردی کا واقعہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سیاستدانوں کی تمام محنت رائیگاں جاتی ہے۔
کانفرنس نے لوگوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ ان ایشوز پر آواز اٹھائیں جنہیں پاکستانی میڈیا بلیک آؤٹ کرتا ہے۔ اس میں سرفہرست بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے۔لاپتہ افراد کا سلسلہ بلوچ سیاسی کارکنوں کے اغواسے شروع ہوا اور اب پاکستان کے تمام صوبوں میں پھیل چکا ہے۔ اور آج صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ جو بھی سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ کی پالیسیوں پر احتجاج کرتا ہے تو اسے غائب کر دیا جاتا ہے۔ کانفرنس میں شریک صحافی ناصر زیدی (جنہیں ضیاء دور میں کوڑے مارنے کی سزا دی گئی تھی) کا کہنا تھا کہ ضیاء دور، جسے ملک کی تاریخ کا سیاہ دور کہا جاسکتا ہے ،میں مخالفت کرنے والے کو گرفتارکرکے جیل میں ڈالا جاتا اور مقدمہ چلایا جاتا تھا۔ مگر آج صورتحال یہ ہے کہ ریاستی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے کو سرے سے ہی غائب کر دیا جاتا ہے۔
چالیس فیصد سے زائد پاکستانی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جس کی ایک بنیادی وجہ بھاری دفاعی اخراجات ہیں جو نام نہاد دفاعی اخراجات کے نام پر ہتھیا لیے جاتے ہیں، لیکن پاکستانی میڈیا اس پر بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کے عوام اپنے ملک کو ایک پرامن اور خوشحال ملک دیکھنا چاہتے ہیں ۔ پرامن اور خوشحال ملک کے لیے ضروری ہے قانون کی بالادستی ہو، سیاست اور مذہب کو علیحدہ ہونا چاہیے، جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ چلے اور پارلیمنٹ اپنے فیصلے خودمختاری سے کر سکے ۔
♦