انور عباس انور
پہلے افواہوں اور قیاس آرائیوں کے نام پر میڈیا میں بحث ہو رہی تھی کہ مسلم لیگ نواز میں نواز شریف کے خلاف بغاوت ہونے جا رہی ہے یا نہیں؟ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ بغاوت ہوگی اور بڑی احتیاط اور پلاننگ سے معاملات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، اور اب کھل پر بغاوت پر آمادہ ارکان پارلیمان میدا ن میں آ گئے ہیں۔
بارش کا پہلا قطرہ کے مصداق سید ریاض حسین پیرزادہ نے پہلا پتھر نواز شریف کی قیادت کے خلاف پھینکا ہے،گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنی مکھ وکھائی کروائی اور نواز شریف کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی جگہ چھوٹے بھائی کو پارٹی صدارت پر بٹھا دیں اور خود سرپرست یا ر ہبر بن جائیں بصورت دیگر ارکان پارلیمنٹ کا ایک ہجوم بیکراں بغاوت پر آمادہ بیٹھا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 40 کے قریب منتخب نمائندے شہباز شریف کی صدارت کے حق میں بغاوت کرنے کے لیے تیار ہیں ، ان چالیس یا اس سے زائد ارکان میں اکثریت ان ارکان کی بتائی جا رہی ہے جو قائد اعظم مسلم لیگ سے ناطہ توڑ کر نون لیگ میں آئے تھے ، وہ بس اشارہ کے منتظر ہیں۔
میں انہی سطور میں لکھ چکا ہوں کہ چوہدری نثار ایسے ہی بڑے بھائی کے باغی نہیں ہوئے انہیں چھوٹے بھائی کی مکمل آشیر باد حاصل ہے ۔ دونوں ( شہباز اور نثار) میں بڑی پرانی دوستی ،ہم آہنگی ،یگانگت اور ملکی و عالمی معاملات پر کلی اتفاق ہے، سب سے اہم چیز جسے سب معاملات پر فوقیت ہے وہ ہے ریاستی اداروں سے باہم شیر و شکر رہنا اور ان سے کسی بھی قیمت پر ٹکراؤ سے گریز کی پالیسی اپنانا ہے۔
سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ان کے بعد پاک فوج کی کمانڈ سنبھالنے والے تمام سربراہان فوج سے دن کے اجالوںاور راتوں کی تاریکی میں شہباز شریف کی ملاقاتیں چو ہدری نثارکے توسط اور موجودگی میں ہوئیں اورنواز شریف کی ضمانت شہباز شریف نے دی اور شہباز شریف کے ضامن چودہری نثار علی خاں ٹھہرے تھے۔
اسٹبلشمنٹ کے تمام اجزائے ترکیبی اس وقت سے شہباز شریف کی قیادت پر منتفق ہیں جب جنرل مشرف کو کمانڈ سے الگ کرنے کے منصوبے تشکیل دئیے جارہے تھے اور فوج بھی اپنی تیاریوں میں مصروف تھی،اس وقت بھی شہباز شریف کو پیغامات بھیجے گئے کہ بڑے بھائی کو ایک سائیڈ پر کردیں اور پارٹی اور حکومت کی باگ ڈور خود سنبھال لیں لیکن خاندانی اتفاق کو ترجیح دی گئی۔
جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے اور نواز شریف کے سعودی عرب چلے جانے اور پھر واپسی کے بعد فوج یا اسٹبلشمنٹ کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئی تھی الیکشن میں اسٹبلشمنٹ کے ایک حصہ نے نواز شریف کو سپورٹ کیا اور انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیا جس پر پاک فوج نے وقتی طور پر پسپائی اختیار کرلی مگر اندر و اندر ان سے نجات کی جدوجہد جاری رہی جو بالاآخر پانامہ سے اقامہ پر عدالت عظمی کے فیصلے کے نتیجے میں نوازشریف سے نجات حاصل کرلی گئی۔
شہباز شریف اپنے باپ کی جگہ بڑے بھائی جنہیں وہ اپنا’’ گرو‘‘ بھی کہتے ہیں اور خود کو ان کا چیلا کہلوانے پر فخر وناز محسوس کرتے ہیں، اب سنجیدگی سے باپ جیسے بھائی کو پارٹی قیادت سے رضاکارانہ دستبرداری کے مشورے دے رہے ہیں۔ لیکن فی الحال بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے راستے سے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہو رہا۔
ریاض حسین پیرزادہ کو منظر عام پر لانا اسی کی کڑی ہے، جو انداز و طریقہ مسلم لیگ سے ارکان کو نون لیگ میں لانے کے لیے اپنایا گیا تھا وہی گُر اور گیڈڑ سنگھی یہاں بھی استعمال کی جا رہی ہے، چوہدری نثار علی خاں کی مدد و نصرت ہر عیب سے پاک زمینی فرشتے کررہے ہیں۔ اور چوہدری نثار علی کی ہر دس پندرہ دن بعد شہباز شریف سے ملاقاتوں میں ’’کارکردگی‘‘ زیر بحث لائی جاتی ہے۔
بالاآخر بڑے بھائی بلکہ باپ اور گرو کے خلاف چیلے کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا چاہتا ہے، اس میں چھوٹے بھائی کے موجودہ مربیوں اور بڑے بھائی اور گرو کے سابق سرپرستوں کی جانب سے محبت ناموں کو بھی شمار کیا جاسکتا ہے، اب بات سعودی عرب جا پہنچی ہے، اور چند ہفتوں کی دوری پر فیصلے شاہی فرمان میں لپٹے رکھے ہوئے ہیں، سعودی عرب والے معاف کردیں گے تو اسلام آباد اور راولپنڈی سے بھی مثبت جواب آجائے گا۔
اگر باپ جیسے بھائی کی محبت اور گرو کی فرماں برداری نے انگڑائی لے لی تو پھر سارا بار گراں چوہدری نثار علی خاں اور مسلم لیگ سمیت گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سرپرستوں کے پرانے کھلاڑی میر ظفر اللہ خان جمالی کو ٹاسک دیا جا سکتا ہے۔ میرے مطابق شہباز شریف کے اندر وہ گر،ہنر اور صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں جو بڑے بھائی کو قائل کرنے کے لیے کافی ہیں۔
لندن سے نواز شریف کی بیگم کلثوم نواز کی طبیعت بگڑنے کی خبریں بھی نواز شریف کو چھوٹے بھائی کے آگے’’ ہتھیار ڈالنے‘‘ پر رضامند اور آمادہ کر سکتی ہیں۔ وہ کسی نے سچ کہا ہے کہ ایک نئے عالمگیر کو دیکھنے کا وقت ہے۔
نواز شریف محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جنہیں وہ اپنی بہن کا درجہ دیتے ہیں کے اپنائے بلکہ ایجاد کردہ ’’ شریک چیئرمین ‘‘ کی اصطلاح کے استعمال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں یعنی خود چیئرمین یا صدر ہی رہیں اور شہباز شریف کو شریک صدر کا عہدہ دیکر پارٹی ان کے حوالے کردیں جیسے بیگم نصرت بھٹو پارٹی کی چیئرمین تھیں اور بے نظیر بھٹو شہید شریک چیئرمین جیسا کہ موجودہ حالات مٰیں بلاول بھٹو چیئرمین پارٹی ہیں اور سابق صدر آصف علی زرداری شریک چیئرمین ہوتے ہوئے صدر مملکت کے منصب پر فائز ہوگئے اور ابھی تک آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ پارٹی اور حکومت ان کے قابو میں ہیں۔
شہباز شریف بھی اسی فارمولے کو اختیار کرکے بھائی جان، اپنے مربیوں اور سرپرستوں اور مسلم لیگ نواز کے باغی ارکان کے ارمان پورے کرسکنے کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔
♦