صحافیوں کو پاکستان سے خطرہ ہے بلوچوں سے نہیں


بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم آزادی صحافت پر یقین رکھتے ہیں اور اس پر اعتماد کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ محض سرکاری نقطہ نظر کو پیش کرے اور بلوچ قوم کے موقف کو نظر انداز۔ پاکستان کی جانب سے قبضہ گیری کے بعد مسلسل جد وجہد اور مزاحمت کے نتیجے میں پاکستان نے جس بربریت کا مظاہرہ کیاہے وہ نہایت ہی سفاکانہ ہے۔ 

اس میں ریاست کے تمام ستونوں نے بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی مظالم کو جواز اور دوام بخشنے کیلئے اپنی تئیں کوششیں کی ہیں، جس میں میڈیا بھی شامل ہے۔ ریاستی عدالت اور پارلیمنٹ میں بلوچ قوم پر مظالم کو جائز مقام دینا ایک کالونی کی حیثیت سے بلوچ عوام کیلئے متوقع ہے مگر صحافت ایک ایسا معزز شعبہ ہے جو دنیا میں آئینے کی طرح اصل چہرہ دکھانے کا کام کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں صحافت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کا دستور انوکھا ہے جو صرف حاکم کے موقف کو شہہ سرخیوں میں لاکر زرد صحافت یا درباری کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو بلوچ قوم پرستوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ ہم ایک سیکولر، لبرل اور اظہار رائے پریقین رکھنے والی قوم ہیں۔ بلوچستان میں کئی صحافی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکن مارے گئے ہیں، قاتل براہ راست پاکستان اور اسکے پراکسی رہے ہیں۔ میڈیا پرسن حامد میر پر اس لئے گولیاں چلائی گئیں کیونکہ اس نے ماما قدیر، فرزانہ مجید، سمی بلوچ او رکمسن علی حیدر کو اپنے ٹی وی پروگرام میں مدعو کیا تھا۔

انسانی حقوق کے کارکن سبین محمود کو ایک پروگرام ترتیب دینے کے بیس منٹ بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے قتل کیا کیونکہ انہوں نے لاپتہ افراد کے لواحقین کو اپنے کیفے ٹی ٹو ایف میں پروگرام کرنے کیلئے بلایا تھا۔ ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ میڈیا اور انسانی حقوق کے اراکین کو بلوچ آزادی پسندوں سے نہیں بلکہ پاکستان سے خطرہ ہے۔ 

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ڈیکلن والش، کارلوٹاگِل، مہوش احمد پر دباؤ اور صحافتی تنظیموں کے ذمہ داراں کی سوشل میڈیا پر جاری حالیہ ویڈیو پیغامات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ان صحافیوں ساتھ کے جو سلوک کیا وہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ بلوچستان میں صحافت کو بلوچ قومدوستوں سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ قابض پاکستان سے خطرہ ہے۔ 

Comments are closed.