پچھلے دنوں انڈیا کی سپریم کورٹ نے لڑکیوں کو برابری کے حقوق دینے سے متعلق ایک انتہائی اہم فیصلہ سنایا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نابالغ بیوی سے جسمانی تعلق اب ریپ مانا جائے گا۔
اس فیصلے کے تحت اگر بیوی کی عمر 15 اور 18 سال کے درمیان ہے اور اگر وہ شکایت درج کراتی ہے تو اس کے ساتھ شوہر کا جسمانی تعلق ریپ تسلیم کیا جائے گا۔
انڈیا میں 18 برس کی عمر کو بالغ مانا جاتا ہے اور لڑکا اور لڑکی کے درمیان جسمانی تعلق کے لیے رضامندی کی عمر بھی یہی طے کی گئی ہے۔
تعزیرات ہند کے تحت اگر لڑکی 18 برس سے کم عمر ہے اور چاہے رضا مندی سے بھی اس کے کسی لڑکے سے جسمانی تعلقات قائم ہوتے ہیں تو اسے ریپ مانا جائے گا۔
لیکن شادی کے معاملے میں عمر کا استثنیٰ رکھا گیا تھا۔ حکومت کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ انڈین معاشرہ روایتی معاشرہ ہے اور لڑکیوں کی شادی اکثر قانونی طور پر بلوغت کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے اس لیے اگر 18 برس کی قید لگا دی گئی تو معاشرے میں مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔
سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے اس کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اس فیصلے سے کم عمری کی شادیوں پر قدغن لگے گا۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروس کے سروے کے مطابق دس برس قبل ملک میں 47 فی صد شادیوں میں لڑکی کی عمر 14 سے 20 برس کی ہوتی تھی۔ لیکن پچھلے سال تک اس میں زبردست کمی آئی ہے اور نابالغ لڑکیوں کی شادی کی شرح گھٹ کر اب 27 فی صد پر آ گئی ہے۔
شرح کے لحاظ سے کم سہی، لیکن تعداد کے لحاظ سے یہ اب بھی بہت زیادہ ہے اور ہر برس لاکھوں لڑکیوں کی شادی کم سنی میں کی جاتی ہے۔ نابالغ لڑکیوں کی سب سے زیادہ شادی ہندوؤں میں ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر مسلمان ہیں جن کے یہاں خاص طور سے کم پڑھے لکھے طبقے میں نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کی روایت بہت عام ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے 18 برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کرنے سے والدین اب ڈریں گے۔ اس فیصلے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے اس کے تحت عدالت عظمیٰ نے لڑکی کو شادی کے معاملے میں قانونی طور پر اپنی پسند کا حق دے دیا ہے۔
روایتی طور پر شادیاں والدین ہی طے کرتے ہیں اور بیشتر معاملات میں لڑکی کی رائے نہیں لی جاتی۔ اب والدین کو اپنی بیٹیوں کی شادی میں ان کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا پڑے گا کیونکہ 18 برس کی عمر پر پہنچنے کے ساتھ ہی لڑکا اور لڑکی اپنے فیصلے خود کرنے کے قانونی مجاز ہیں۔
کم عمری کی شادی پر روک لگانے کی سب سے زیادہ مخالفت ہندو اور مسلمان کر رہے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب مسلمان نہ صرف اسے شرع کے خلاف قرار دیتے تھے بلکہ وہ حکومت کے اس ضابطے کی بھی مخالفت کر رہے تھے جس کے تحت شادیوں کے رجشٹریشن کو لازمی قرار دینے کی تجویز تھی۔ لیکن اس بار سپریم کورٹ کے فیصلے پر کسی حلقے سے تنقید یا مخالفت کی کوئی آواز نہیں آئی۔
مسلمانوں میں ہندوؤں کے مقابلے کم عمر میں شادیاں کم ہیں لیکن وہ یکساں سول کوڈ کی عام طور پر مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ حضرت عائشہ کی رسول اللہ سے شادی کے وقت عمر نو برس تھی(کچھ کے نزدیک ان کی عمر گیارہ برس تھی)۔لہذا کم عمری کی شادی سنت رسول ہے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب لا کمیشن ملک کے سبھی شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ یعنی یونیفارم سول کوڈ کا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہے۔ انڈیا میں الگ الگ مذاہب کے شہریوں کے عائلی مسائل یعنی شادی، طلاق اور وراثت جیسے معاملات ابھی تک الگ الگ پرسنل لا کے ذریعے طے پاتے ہیں۔ یونیفارم سول کوڈ کی سب سے زیادہ مخالفت مسلم علما کی طرف سے ہورہی ہے۔
حکومت نے لا کمیشن کو یونیفارم سول کوڈ وضع کرنے کی ذمے داری سونپی ہے۔ لا کمیشن نے کچھ عرصے قبل اس سلسلے میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں کو سوالنامے بھیجے تھے۔ لا کمیشن یونیفارم سول کوڈ کا ایک ایسا مسودہ تیار کر رہا ہے جو پوری طرح جمہوری ہو، جو سبھی کے لیے قابل قبول ہو اور جس سے کسی کو یہ نہ محسوس ہو کہ یہ ملک کے اکثریتی ہندو فرقے کے نقطۂ نظر سے وضع کیا گیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کے تصور کو غیر ضروری طورپر ایک حساس معاملہ بنایا گیا ہے جبکہ اس کے لیے ماضی میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
یہ دور انسانی اور انفرادی حقوق کا ہے۔ جمہوری ملکوں میں قانون کی بنیاد مساوات، جنسی برابری اور انفرادی اور بنیادی حقوق پر قائم ہوتی ہے۔ کوئی بھی اصول ضابطہ اور روایات جو انسان کے بنیادی اور انفرادی حقوق سے متصادم ہوں گی ان کے لیے کسی جمہوری معاشرے میں جگہ نہیں ہو سکتی۔
BBC/News Desk