دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ: حیدر مِیر
تیس اکتوبر کو کوئٹہ میں سریاب روڈ کے علاقے سے اغواء کی گئی خواتین چوتھے روز منظر عام پر آگئیں۔ اغواء ہونے والی خواتین میں بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ، اور بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک سینئر کمانڈر اسلم بلوچ کی ہمشیرہ سمیت دیگر خواتین شامل تھیں۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان کے مطابق ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ علاج کی غرض سے کوئٹہ گئی تھی، انہیں مشکے کے علاقے میں فوجی بمباری کے دوران کمر میں چوٹ آئی تھی، اور تاحال ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف کی وجہ سے انہیں کوئٹہ پھر سے علاج کے لیے آنا پڑا تھا، اسی دوران انہیں اور دیگر خواتین کو فورسز نے گھر سے اٹھا کر لاپتہ کردیا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان و وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی اول اس بات سے انکاری رہے کہ فورسز نے ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ یا پھر اسلم بلوچ کی ہمشیرہ کو حراست میں لیا ہے، مگر بعد میں اپنی باتوں سے مکر کر انہوں نے تسلیم کیا کہ کچھ خواتین انکی تحویل میں ہیں، مگر کسی کا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ ان خواتین کو افغان سرحد پار کرتے ہوئے چمن سے پکڑا گیا ہے۔
بلوچ تحریک کے سرکردہ بلوچ رہنماوں کے خاندان کی خواتین کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل کراچی میں بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ براہمدغ بگٹی کی ہمشیرہ کو خفیہ اداروں کے کارندوں نے فائرنگ کرکے بیٹی سمیت ہلاک کیا تھا۔
کوئٹہ سے اللہ نذر کی اہلیہ و اسلم بلوچ کی ہمشیرہ کے اغواء کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور مختلف طبقہ فکر کی جانب سے پاکستانی فورسز کے اس عمل کی بھر پور مذمت کی گئی۔ سب سے زیادہ غم و غصہ بلوچ عوام میں پایا گیا کیونکہ بلوچ معاشرے میں عورت کا مقام نہایت بلند مانا جاتا ہے، حالات چاہے جس نہج پر پہنچ جائیں خواتین و بچوں کو فریق نہیں بنایا جاتا، بلکہ خواتین کی مداخلت پر ان کے احترام کی خاطر جنگیں روک دی جاتی ہیں۔
اس دلخراش واقع کو بلوچستان کے عوام اور سیاسی و عسکری لیڈران اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ انکے چادرو چار دیواری اور ننگ و ناموس کو پاکستانی فورسز نے پامال کیا ہے۔ جبکہ اسی دوران دونوں عسکریت پسند رہنماوں ڈاکٹر اللہ نذر اور اسلم بلوچ نے بھی سوشل میڈیا پر بیانات جاری کیے۔
اسلم بلوچ نے اپنے ایک ٹویٹ میں بتایا ہے کہ، “آزاد وطن ہی ہمارے عورتوں بچوں کی بہتر و محفوظ زندگی کا ضامن ہوگا”۔
گذشتہ روز حکومت کی جانب سے ڈرامائی انداز میں انہی خواتین کو برآمد کیا گیا، اور انہیں میڈیا کے سامنے چادریں اوڑھ کر یہ کہا گیا کہ ہم بلوچی روایات کا احترام کرتے ہیں اور اسی لیے ان خواتین کو چادریں پہنا کر رہا کر رہے ہیں۔ گو کہ پاکستانی فورسز کی تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے کبھی بلوچ خواتین کے سر کی چادروں کی پرواہ نہیں کی، فوجی کاروائیوں میں خواتین کو ہمیشہ فریق بنایا گیا ہے۔
اس وقت بھی سہنڑا بگٹی کے خاندان کی عورتوں سمیت کوہلو کاہان اور ڈیرہ بگٹی سے درجنوں کی تعداد میں خواتین لاپتہ ہیں۔ ان لاپتہ خواتین میں زرینہ مری جیسے ایسی کئی خواتین بھی شامل ہیں جو دس سال سے زائد عرسے سے لاپتہ ہے۔
ستر کی دہائی میں بھٹو حکومت کے دوران بلوچستان کے علاقے کوہلو و کاہان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن ہوئے، جہاں سینکڑوں بلوچ مردوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا، وہیں انکے گھر کی خواتین کو ٹرکوں میں بھر کر قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔ شیرمحمد مری نے ان دنوں بی بی سی کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ” ہماری بچیوں کو منڈیوں میں فروخت کیا گیا، میں میڈیا میں بتاتا رہا مگر کسی نے نہیں سنا، بہت سی بچیوں کو میں نے اپنی جیب سے پیسے دیکر خرید کر واپس انکو انکے ماں باپ کے حوالے کیا ہے”۔
ماضی قریب میں بھی ایسے دلخراش واقعات کا حوالہ ملتا ہے، جہاں حکومتی فورسز نے بلوچی اقدار کی پرواہ کی نا چادر و چار دیواری کی۔ رواں سال ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں ایک ہی خاندان کے 7 خواتین کی تب موت واقع ہوئی جب فوجی ہیلی کاپٹر سے ایک گھر پر گولہ داغا گیا، اس حملے میں ایک نوزائدہ بچہ بھی لقمہ اجل بنا جو اس وقت اپنی ماں کے ساتھ اس گھر میں تھا۔
ہرنائی کے علاقے میں یہ واحد واقعہ نہیں، بلکہ اس سے قبل سن 2015 میں فوجی آپریشن کے دوران 50 سے زائد بلوچ خواتین کو ایک ماہ تک زیرِ حراست رکھا گیا اور بعد ازاں بین الاقوامی سطح تک پہنچنے والی احتجاجوں کی پریشر کی وجہ سے انھیں بازیاب کیا گیا۔
اسکے علاوہ رواں سال ستمبر میں آواران آپریشن کے دوران فوجیوں کا خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کرنے کی بھی اطلاعت ملیں، اس حوالے سے بلوچ نیشنل مومنٹ سمیت دیگر جماعتوں نے مذمتی بیانات بھی جاری کیے ہیں۔ جبکہ تازہ واقعے میں کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر سے 9 بلوچ طلباء کو اغواء کیا گیا، جن میں بلوچ ہیومن رائٹس سے منسلک نواز عطاء بھی شامل ہیں۔
اغواء کے اس واقع کے دوران فرح بلوچ نامی خاتون کو بلڈنگ کے تیسری منزل سے گرا کر بری طرح زخمی کیا گیا، فرح بلوچ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے آج بھی کراچی پریس کلب کے سامنے سٹریچر پر لیٹی احتجاج کر رہی ہیں، وہ اب چل نہیں سکتی۔
خیال رہے 30 اکتوبر کو سریاب روڈ میں واقع گھر سے اغواء کیے گئے ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ و دیگر خواتین کو حکومت منظر عام پر لے آیا مگر ان خواتین کے ساتھ اغواء ہونے والے تین مرد سمیع اللہ، شاہ میر اور بیبرگ بلوچ تاحال لاپتہ ہیں۔
سر پر چادر رکھ کر حکومتی وزراء جس بلوچیت کا مظاھرہ کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں، وہ اب تک یہ جواب دینے سے قاصر ہیں کہ ابتک درجنوں لاپتہ خواتین کو کب بازیاب کیا جائے گا اور ان تمام خواتین کے اغواء اور انکے سروں سے چادر چھیننا کونسی بلوچیت ہے؟
بشکریہ: بلوچستان پوسٹ ڈاٹ کام