علی احمد جان
علمائے دین میں اس کی فصاحت و بلاغت کی ایک دنیا قائل ہے، رمضان کی فیوض و برکات تقسیم کیں تو شہر کا شہر اس کا دیوانہ ہوا، اس نے ایسا چلا یا یاویسا چلایا سب کو جیسا چلایا کہ ہر شے چالو کردی۔ کہتے ہیں کہ اس کو مائیکرو فون اور کیمرے سے جنون کی حد تک عشق ہے ۔ مائیکروفون پر دنیا کے سامنے پہلی بار آئے تو وہ کراچی کے ڈی جے سائنس کالج کی ڈیبیٹ سوسائٹی کے ممبر تھے۔
ان کے والدین پیر حضرت شاہ مردان شاہ عرف پیر پگارو کی پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کو وساطت سے پاکستان کی مارشل لائی سیاست میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ملک بھر میں جمہوریت پر تبرا بھیجنا امراء اور شرفاء کا وتیرہ بن چکا تھا۔ امیر طبقے کے لئے بنائے گئے کالجوں میں بھی جمہوریت جیسی برائیوں پر مباحثے ہوتے تھے جن میں نوجوان عامر لیاقت حسین کی شعلہ بیانی کی دھوم چہار سو پھیلی ہوئی تھی۔ ان مباحثوں میں جمہوریت کے خلاف جو دلائل اس نوجوان مقرر نے دیے ہیں وہ آج بھی کئی علمائے آمریت کے کام آتے ہیں۔
کالج کے مباحثوں میں اس آتش بیان مقرر کی موجودگی اس لئے بھی ضروری تھی کہ ان کو مباحثے کی ٹرافی سے نوازنے کے لئے کالج کی انتظامیہ کے لئے کسی وزیر، مشیر یا گورنر کو بلانا اور کالج کے لئے کچھ لاکھ روپوں کا چیک لینے میں مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ ان کے ڈی جے سائنس کالج سے نکل جانے کے بعد کالج میں مباحثے کی ٹرافیاں آنا بھی بند ہوگئی ہیں۔
کالج میں ان کو سائنس کے کفریہ مضامین میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی اس لئے وہ زیادہ تر کینٹین میں بیٹھ کر تاریخ کے سنہرے ابواب پر روشنی ڈالا کرتے تھے یا اپنے انسان دوستی کے جذبے سے مجبور کالج کے اساتذہ اور غریب طلبا کے کروڑ پتی والدین کے کاروباری اور دیگر مسائل ضیائی حکومت میں حل کروانے میں وہ مصروف رہتےتھے۔ رہی سال کے آخر میں امتحان جیسی فضول چیز کی تو کالج کے گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے اساتذہ ان کی لیاقت کے پیش نظر ان کو بخوشی پاس کر دیا کرتے تھے۔
ڈی جے سائنس کالج سے ایف ایس سی کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کرنے کے بعد انھوں نے بی۔ اے پاس کر لیا تھا یہ اور بات ہے کہ اب یونیورسٹی والے انکار کر رہے ہیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے جہاں سے انھوں نے ایک ہی سال میں ایم۔ اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر تاریخ میں اپنا نام رقم کروا دیا مگر یہود و نصار یٰ نے گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ان کا یہ کارنامہ درج نہیں ہونے دیا۔
ایسا اعزاز ان کے بڑے بھائی مرحوم ڈاکٹر عمران لیاقت حسین کا بھی ہے۔ راقم الحروف کو کالج میں بحیثیت استاد ان سے نیاز کا شرف بھی حاصل رہا ہے جو بعد ازاں سندھ کی ایک درگاہ میں بطور آیت اللہ بھی مقبول ہوئے۔ جن کے نام کے ساتھ پہلے ہی سے لیاقت لگا ہو بھلا ان کو کسی سند کی کیا ضرورت۔
ڈاکٹر عامر علمی میدان میں اتنی فتوحات اپنے نام کرنے کے باوجود عملی زندگی میں سادگی کا پیکر ہیں۔ جب وہ عملی سیاست میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایم کیو ایم میں شامل ہوئے تو ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ 1992 میں اس جماعت کے خلاف فوجی آپریشن بھی ہوا تھا اور اس کے سربراہ لند ن میں اس لئے تا حیات مقیم ہیں کہ وہ پاکستان نام کے ملک میں انتہائی مطلوب افراد میں شامل ہیں جس پر سنگین نوعیت کے مقدمات بھی درج ہیں۔
ایم کیو ایم میں رہتے ہوئے ان کو اس بات کا بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ شہر میں ہونے والی قتل و غارت کے پیچھے نامعلوم افراد کون ہیں۔ مشرف کے دور میں جب ان کو وزیر مملکت برائے مذہبی امور بنایا گیا تو ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایم کیو ایم کے اپنے بنائے ضابطے کے مطابق ان کی تنخواہ کا ایک خاطر خواہ حصہ کاٹ کر لندن میں بیٹھی قیادت کو بطور نذرانہ دیا جاتا ہے۔ اس معصوم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بارہ مئی کو کراچی شہر کو کس نے خون میں نہلا دیا تھا اور وکلا ء کو زندہ جلاکر شہر میں دہشت کی ایک نئی تاریخ کس نے رقم کی تھی۔
جب میڈیا میں آگئے تو معصوم عامر لیاقت کو پتہ ہی نہ چلا کہ وہ جس چینل پر عالم آن لائن اور رمضان کریم جیسے فیوض و برکات کے پروگرام کرتے تھے اس کا رنگ نیلا اور پیلا ہےجو چینل کے مالکان نے مسلمانوں کے ازلی دشمن ملکوں کے پرچموں کے رنگوں سے منتخب کیا ہواہے۔ اس شریف آدمی کو جس دن اس سازش کاپتہ چلا اس نے اس چینل کو چھوڑنے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کی۔ اس معصوم آدمی کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے اصل نام گوگل بابا اور چڑی بابا وغیرہ ہیں۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے عامر بھائی کہلانے والے اس سادہ دل انسان کی معلوم ہی نہیں کہ وہ پاکستان کے نمبر ون اینکر ہیں جس کی وجہ سے وہ جس چینل پر کام کرتے ہیں وہ دنیا کا نمبر ون چینل خود بخود بن جاتا ہے۔ وطن کی محبت اور ملک سے وفاداری ان کو والدین سے وراثت میں ملی ہے جس کے اظہار کے لئے وہ کسی بھی غدار اور ننگ ملک وملت کو معاف نہیں کرتے بشرطیکہ اس کا پتہ چل جائے کہ وہ کسی اور چینل یا مخالف سیاسی جماعت کا ہو۔
ابھی تلک وہ تقریباً سب کو ہی بقلم خود یہ سرٹفیکیٹ دے چکے ہیں۔ اس معاملے میں بھی وہ معصوم ٹھہرے کیونکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ اس نے پچھلی بار کس کو غدار اور کس کو محب وطن ہونے کی سند دی تھی۔ کبھی عمران نام سے نفرت میں بھائی کے بھی جنازے میں بھی شریک نہیں ہوتے تو کبھی عمرا ن نام کے تعریف و تحسین کی مالا جپتے دکھائی دیتے ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں لوگ کو ن سا یاد رکھتے ہیں۔
عامر لیاقت معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی مہذب شخص بھی ہیں جو کسی کو بھی براہ راست دشنام نہیں دیتے بلکہ مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ایک خاتون کی شخصیت کے بارے میں انھوں نے ایک اور خاتون کی مثال دے کرسمجھایا کہ ان دونوں میں مماثلت کیسےتھی۔
اس معصوم شخص کو اس کے چالاک مالکان نے بتایا کہ پیمرا ایک بری عورت کا نام ہے جس کو ایک برے آدمی نے غلط راستے پر ڈالا ہے پھر کیا تھا کہ ملک کے نمبر ون اینکر نے دنیا کے نمبر ون چینل پر ثابت کیا کہ مالکان جو کہتے ہیں وہ سب صحیح ہے باقی سب غلط ہے۔ ہمارے معصوم عامر بھائی کو جب یہ معلوم ہوا کہ پیمرا ایک ادارے کا نام ہے جو ملک میں میڈیا کے معاملات دیکھتا ہے اور ابصار عالم نام کا آدمی اس کا سربراہ ہے تو اس کو سخت افسوس ہوا اور اب معافی کا خواستگار ہے۔
آج کل وہ سجے کو دکھا کر کھبے کو مڑنے کی مشق کر رہے ہیں۔ جو بھی ہو میں اپنے ایک لکھاری بھائی سے سو فیصد متفق ہوں کہ اس عظیم انسان کی سادگی کا غلط استعمال نہ کیا جائے اور اس کی شائستگی کا استحصال نہ کیا جائے۔ آئندہ جو میر شکیل، میر ابراہیم، سلمان اقبال اور شعیب شیخ کے انجام سے سبق نہیں سیکھے گا تو وہ بھی اس درویش منش انسان کی سادگی اور شائستگی کی قہر سے نہ بچ پائے گا۔
♥