گزشتہ دنوں سے بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے قتل عام کے بعد ذرائع ابلاغ میں کافی مباحثہ چلا ، جہاں کافی کچھ سیکھنے کا موقع ملا ،وہیں کچھ سوالات نے جنم لیا جن کا اظہارچھوٹامنہ اور بڑی بات کے مترادف ہے ،یہ سمجھتے ہوئے بھی جسارت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چندسوالات سامنے لاے جائیں اور اور جو محسوس ہو ا وہ پاکستان کے دوستوں سامنے رکھا جائے تاکہ ہمارا ابہام دور ہوسکے۔
ہمارے نزدیک محنت کشوں کا قتل عام کسی صورت کوئی انقلابی عمل نہیں ہے ،دہشت گردی ہے ۔
دہشت گردی ہے کیا ہے ؟
عام شہریوں کو منصوبہ بندی سے تشددکا نشانہ بنانا ،خوف و ہراس پھیلانا فائرنگ ،بم دھماکہ ،ہائی جیکنگ اور معصوم شہریوں کا یرغمال بنانا جس سے عوام میں خوف ہراس پھیلے یا انھیں نقصان پہنچے یہ دہشت گردی ہے ۔جس کی مثال آپ طالبان یا پاک آرمی کی پالی ہوئی دیگر مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں کی لے سکتے ہیں ۔جو بازاروں،تعلیمی اداروں ،عبادت گاہوں میں بم دھماکے کرکے نہ صرف عوام کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ خوف ہراس پھیلا رہے ہیں۔دہشت گردی کی مختلف اقسام ہیں جن میں انفرادی،مذہبی ،سیاسی اور ریاستی بھی شامل ہیں۔
اگر اسی طرح ہم کشمیری اور بلوچ جو محکوم قومیں ہیں اور ہم براہ راست پاکستان کے تسلط کا شکارہیں(کشمیری بھارتی تسلط کا بھی شکارہیں۔اس کے بارے میں بھی ہمارا یہی موقف ہے ) ہم جب مارکسی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہیں تو پاکستانی ریاست کا کردار ہمارے نزدیک دہشت گرد ریاست کا ہے ۔ہمیں اغوا،قتل ،بم دھماکوں اور ہرطرح کی دہشت گردی کا پاکستان ریاست کی طرف سے سامنا ہے۔
ہمیں ہی نہیں اس کی مثالیں اب پنجاب میں بھی ملتی ہیں ،سندھ میں بھی ملتی ہیں۔آئے روز روشن خیال لوگوں کا اغواء،قتل یہاں تک کہ سندھ میں قوم پرستوں کو زندہ جلانے کی مثالیں بھی موجود ہیں ۔اور یہ سلسلہ اس ریاست کے قیام سے شروع ہے ۔یعنی جس نے بھی جرنیل شاہی کے مقرر کردہ حب الوطنی کے معیارکوچیلنج کیا اس کو اس دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اور یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ پاکستان میں ابھی تک طاقت کا مرکز یہی جرنیل شاہی ہے ۔اس مرکزمیں دراڑیں پڑی ہیں لیکن کمزور وہ ابھی تک پارلیمان سے طاقتور ہے ۔
ہمارے نزدیک جابر اور غاصب قوتوں کی ریاستی مشینری کو نشانہ بنا نا دہشت گردی نہیں ایک انقلابی عمل ہے ۔(یہ کس مرحلے پر درست ہے ،کس پر یہ مہم جوئی ہوسکتا ہے،یہ الگ بحث ہے)قابض ریاست کی فوج،نیم فوجی دستوں،پولیس اور دیگر ادارے جو ان عوام دشمن قوتوں کو تقویت بخشتے ہیں ۔ان کو تباہ کرنا اعلیٰ انقلابی عمل ہے دہشت گردی نہیں ہے ۔
پاکستانی ریاست(ریاست حکمران طبقہ کی نمائندہ ہوتی ہے اس لیے یہ صرف حکمران طبقہ کی بات ہورہی ہے ،پاکستانی عوام کی نہیں) نے ہمیشہ اپنے مخالفین کے خلاف انتہائی گھٹیا پروپیگنڈا کیا،مذہب و ملت کا سہارا لیا ،کبھی روس کا ایجنٹ تو کبھی بھارت اور اسرائیل کا ایجنٹ بنا کرکے تحریکوں کو بندنام کیا گیا اور اپنے عوام کی جائز تحریکوں اور سوچوں کے خلاف اپنے عوام کوگمراہ کیا ۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک قومی سوال پر مارکسسٹوں میں بھی ابہام پایا جاتا اور وہ جرنیل شاہی کے بنائے ہوئے جذبہ حب الوطنی میں مظلوم ومحکوم قوموں کے سوال کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے حکمران طبقہ کی ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔اور مظلوم قوموں کے تضادات مارکسزم کی روشنی میں سمجھنے کی بجائے جذبہ حب الوطنی کے تحت ابل ابل کر باہر آتے ہیں اور مارکس اوراینگلز کو کاپی پیسٹ کر کر کے اپنی جذبہ حب الوطنی کے حق دلائل دے رہے ہوتے ہیں۔
یہ کبھی مزدور طبقے یا محکوم قوم کے محنت کش عوام کے نمائندے نہیں بنتے لیکن غاصب ریاست کا حکمران طبقہ جو مزدور کی تعریف کرتا ہے ۔اس پر سینہ کوبی ضرور کرتے ہیں۔محکوم قوم کا محنت کش طبقہ کچلا جاتا ہے۔اس پرکبھی اپنے حکمران طبقہ کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتے ۔لیکن جن کو غاصب محنت کش ثابت کرتا ہے ۔اس کی نمائندگی لیے تیار ہیں لیکن محنت کش طبقہ کی نمائندگی کے لیے نہیں۔
ان کی خدمت میں عرض ہے کہ محکوم قوموں کی قومی حقوق کی جدوجہد دراصل طبقاتی جنگ ہی ہوتی ہے ۔وہ روزی روٹی کی جنگ ہی ہوتی ہے ۔کیونکہ محکوم اپنے وسائل پر دسترس چاہتا ہے جو غاصب نے چھینے ہوئے ہیں ۔تاکہ وہ اپنے روزی روٹی کا بندوبست کرسکے ۔اس لیے محنت کش طبقی کی نمائندگی کی کوشش کیجیے ۔
ارے بھائی یہ محکوم قوموں کے لوگ ہیں ،اپر مڈل کلاس کے لوگ نہیں،مزدور طبقہ کے لوگ ہیں ۔ انگریزی نہیں سمجھتے لیکن مارکسزم کو دین یا عقیدہ بھی نہیں سمجھتے بلکہ مارکسزم کو ایک سائنس سمجھتے ہیں ۔جس کی بنیاد پر سماج کی حرکت کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اسی بنیاد پرسماج کے لیے ممکنہ راستوں کا تعین کرتے ہیں۔یہ غلط ہوسکتے ہیں ۔آپ کی تنقید کو یہ اپنے سینے پر لیں گے اور اس کی بنیاد پر اپنی جدوجہد میں اپنی خامیاں تلاش کرتے ہوئے اپنی تصیح کریں گئے ۔لیکن کبھی ان کے سوالا ت ور تنقید کو بھی آپ اپنی جدوجہد پر پرکھیے اور اپنی جدوجہد میں خامیاں تلاش کیجیے ۔
آپ کے بارے میں پہلے بھی یہی سمجھاجاتا تھا کہ آپ نے مارکسزم کو سائنس کے طورپر نہیں سمجھا ۔آپ نے سائنس کی روشنی میں اپنے سماج کی حرکت کو نہیں دیکھا ، اور اس اس حرکت کی بنیاد پر سماج کا تجزیہ نہیں کیا اورنہ ہی حکمت عملی بنا پائے کیونکہ آپ نے ہمیشہ کاپی پیسٹ کیا ہے ۔
ورنہ یہ کیوں ہوتاکہ پاکستان میں مزدوروں اور کسانوں کی عوامی تحریک ذوالفقار علی بھٹو جیسے جاگیرداری کے نمائندہ کی جھولی میں ڈالی گئی اور آج تک اس کے سحر میں مبتلا ہیں۔اس نے جب جاگیردار کو توانا رکھنے کے لیے جس طبقے سے جاگیرداری کو خطرہ تھا یعنی پاکستانی صنعتی سرمائے کے خلاف جب وہ رجعتی فیصلے کرکے قومیا رہا تھا تو آپ تو بغلیں بجھا رہے تھے کہ یہ انقلابی قدم ہے ۔جب کہ اس نے سماج کے ترقی پسند پہلو کوکمزور کر کے جاگیردار ی ااور سامراج کو راستہ دیا ۔
اگر وہ اتنا ہی جمہوریت پسند تھا تو ملک سے جاگیرداری کیوں نہیں ختم کی ۔پاکستان کا ہرشعبہ ابھی تک جاگیرداری کے اثرات کا شکار ہے ۔ بلکہ پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر اس نے کونسا جمہوری اور انقلابی فریضہ سرانجام دیاہم کیسے مان لیں کہ آپ میں سماج کی حرکت کو سمجھنے کی صلاحیت تھی ۔نہیں آپ تو رجعت پسندی کو بھی نہیں سمجھتے تھے ۔اور آج اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے آپ صرف اور صرف مظلوم و محکوم قوموں کے سوال کے خلاف مارکسی بندوقیں اٹھا کر باہر نکل آتے ہیں ۔
ارے بھائی جب آپ دوسروں کو کہتے ہیں وہ قبائلی سرداروں کی نعشوں کو قومی حقوق کی جدوجہد کے حق میں استعمال کرر ہے ہیں۔تو یہ ان کی حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے ۔وہ سماج کی حرکت کو اور کیفیت کو جا نتے ہیں ۔اور اسی حکمت عملی کے تحت جدوجہد کررہے ہیں۔
آپ سے سے اگر وہ سوال کرتے ہیں کہ آپ ذوالفقار علی بھٹو کو کیوں شہید مانتے ہیں ۔اس نے قومی سرمائے کو برباد کرکے سماج کی پسماندہ شکل جاگیردار ی کو مضبوط کیا ، سامراج کو راستہ دیا سماج کی جوں کی توں کیفیت میں رکھنے کی کوشش کی اور حکمران طبقہ کے آپسی تضادات میں فوج کے ہاتھوں پھانسی ہوگئی ۔وہ آپ کے شہید ہیں اور دوسروں کے مردار یہ کو نسا مارکسزم ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ہم ہر اس موقع کو استعمال کریں گے جو غاصب حکمران طبقات کے خلاف تضادات کو گہرا کرے ۔ہم ایسا کرتے ہیں تو شاؤنسٹ۔ آپ ایسا کرتے ہیں مارکس اور اینگلزکے قبیلے کے لوگ ہوتے ہیں ۔
کبھی باہر نکل کر سندھی مزارعے اور ہاری سے خطاب فرمایئے کہ بھٹوصاحب کا کردار عوام دشمن کردار تھا ۔لیکن نہیں کرسکتے آپ ایسا کیوں کہ آپ کامعروض اجازت نہیں دیتا ۔چلو پنجاب ہو تو عام آدمی بھی یہی کہتا ہے کہ یار گل تے تواڈی ٹھیک ہے ۔پر بھٹو تے بھٹو سی نہ جی۔آپ کوشش کیجیے کہ دوسروں کے معروض کو بھی سمجھیں ۔اور ان کے داخلی پہلووں کو بھی سمجھیں اورعلمیت کی نشے میں مست ہو کر مکنیکل تبدیلی کے خواب دیکھنا اور دکھانا چھوڑدیں۔
یہ فرق ہے آپ کے اور محکوموں کے مارکسزم میں
پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے اپنے عمل کو کا تجزیہ کیجیے آپ نے ہمیشہ مظلوموں قوم کے قومی حقوق پر ابہام پیدا کیے ہیں اور حکمران طبقے کی مدد کی ہے ۔اس کی توسیع پسندی کو تحفظ دیا ہے ۔ مارکسزم کو سماج کی سائنس کے طور لینے کی بجائے اپنے ذہن سے جاگیردارانہ خوف مٹانے یعنی ثواب اور گناہ کا خوف ،جنت اور جنم کاخوف جنسی آزادی سمیت انفرادی آزادی کے لیے استعمال کیا ہے ۔بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپر مڈل کلاس کی عیاشیوں کا ہتھیار بنا رکھا ہے ۔آپ کے نزدیک سماجی و قومی جبر کوئی تضاد نہیں ہے سماجی و قومی جبر کے خلاف عمل میں آپ کیا کرتے ہیں ۔ارے بھائی اس راستے پر حسن ناصرسے لیکر اور بہت ساروں نے قربانیاں دیں جبر وتشد د برداشت کیا ہے ۔ پاکستان کے پنجابی ،سندھی یا پختون کمیونسٹ جو قومی سوال سے لیکر سماج کی حرکت کو دیکھ کر موقف اپنانے والے ہیں ان کو محکوم قومیں اپنا سمجھتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ وہ ہمارے دوست اور ساتھی ہیں،وہ ہمارے ہیں ہم ان کے ہیں۔
آپ انگریزی اچھی بول اور پڑھ لیتے ہیں ۔ محکوم مظلوم لوگ اردو بھی بڑی مشکل سے لکھتے اور بولتے ہیں۔مارکسزم کوسائنس سمجھتے ہیں یہ واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ کوئی قوم کسی وفا ق میں نہیں رہنا چاہتی تو یہ اس کا بنیادی جمہوری حق ہے ۔لیکن اگر کوئی قوم صرف سامراجی مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہے تو اس کی مخالفت کریں گئے ۔لیکن جب کوئی قوم غاصب کے استحصال،جبر اور بدترین ریاستی گردی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی تو اس کو بالکل جائز سمجھتے ہیں اس کی حمایت کرتے ہیں۔
آپ سے یہ کہیں گے کہ مظلوم قوموں پر غاصبانہ قبضوں کے باعث ذہنی غلامی کے اثرات ہوتے ہیں اپنی علمیت کے فن کا اظہار کر کے ان میں ان میں مزید ابہام پیدا نہ کیجیے ۔مظلوم ہر سطح پر وہ چاہے غاصب ریاست کی طرف سے پھیلائے گئے ابہام ہوں یا سامراجی اداروں اور غاصب ریاست کے حکمران طبقہ کا دم چھلہ مارکسزم ہواس کو بے نقاب کریں گئے ۔اور دلیل رکھیں گے کہ مظلوم قوموں کی قومی حقوق کی جدوجہد ترقی پسندی ہے ۔
جبکہ آپ کی قوم پرستی دراصل بالادست غاصب قوم کی قوم پرستی ہے جو حکمران طبقہ کی نمائندگی کرتی ہے۔جو کبھی غاصب حکمران طبقہ کی جانب سے مظلوم قوموں کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی،استحصال ،جبر تشدد اور ان کے وسائل کی لوٹ مار کے خلاف باہر نہیں نکلی لیکن جب مظلوم غاصب ریاست کے اداروں پر حملہ آوار ہوتا ہے ،ان کو تباہ کرتا ہے ان کو نقصان پہنچاتا ہے تو آپ اسے شاؤنسٹ قرار دے کر کاپی پیسٹ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔مظلوم شاید غلط کم علم لوگ ہوں لیکن ان کو یہ لگتا کہ آپ شاؤنسٹ قوم پرست ہیں اور حکمران طبقوں کی توسیع پسندی کو مارکسزم کے لبادے میں تحفظ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
نوٹ ۔اس تحریر میں بیرسٹر قربان علی کی کتاب انقلابی شعور اور دیگر کچھ تحریروں سے بھی رہنمائی لی گئی ہے۔(پنجاب،سندھ ،بلوچستان اور پختون خواہ میں واضح فکری و عملی سمتیں رکھنے والے دوستوں سے ہم آگاہ ہیں) ۔ ہمارے سوالات ان سے ہیں جو اپنی قوم پرستی کو درست سمجھتے اور مظلوموں کی قومی حقوق کی جدوجہد کو شاؤنزم سمجھتے ہیں۔
♦