یہ دیوبندی مسلک سے وابستہ دو دینی مدار س کی کہانی ہے۔ایک مدرسہ بھارت کے دارالحکومت دہلی کے شمال میں واقع شہر دیو بند میں قائم ہے جب کہ دوسرا پاکستان کے صوبے خیبر پختون خواہ کے شہر اکوڑہ خٹک میں مذہبی تعلیم دے رہا ہے۔ 1866 سے قائم دارالعلوم دیو بند میں اس وقت چار ہزار کے قریب طالب علم مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
انیسویں صدی کے نصف آخر میں دیو بند میں قائم ہونے والے دینی مدرسہ کے بانی اسلام کی ’حقیقی ‘ تعلیمات اور پیغام کو محفوظ کرنے او ر اگلی نسلوں تک پہنچانے کے داعی تھے۔ وہ اسلام کی بنیاد پرستانہ تعبیر و تفسیر پر پختہ یقین رکھتے اور سمجھتے تھے کہ مسلمانو ں کو عہد جدید کے تقاضوں کی بجائے اسلام کے دور اولین کے احکاما ت کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو استوار کرنا چاہئے۔
دارالعلوم دیوبند کو قائم ہوئے ڈیڑھ صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ،اس دوران ان گنت سماجی اور سیاسی تبدیلیاں آچکی ہیں لیکن اس مدرسہ کے بنیادی مقاصد میں سرمو فرق نہیں آ یا یہ مدرسہ آج بھی بنیاد پرستانہ سماجی اور مذہبی فکر کا داعی ہے۔جب کبھی بھی بھارت سرکار اس مدرسہ کو مالی امداد کی پیش کش کرتی ہے تو اس کے منتظمین فی الفورر اس کو مسترد کر دیتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے آگا ہ ہیں کہ مالی امداد قبول کرنے کا مطلب نہ صرف انتظامی امور بلکہ نصاب کی ترتیب و تدوین میں بھی حکومت کو مداخلت کی دعوت دینا ہے ۔
حکومتی امداد قبول نہ کرنے کے پس پشت سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ کہیں مالی امداد کی آ ڑ میں حکومت مدرسہ کے نصاب تعلیم میں بدلتی ہوئی سماجی اور سیاسی صورت حال کی روشنی میں تبدیلیوں کا مطالبہ نہ کردے اور یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جو دارالعلوم کی انتظامیہ کو کسی صورت قبول نہیں ہے۔
سنہ2008 میں بھارت بھر سے 20,000 دیو بندی مسلک سے وابستہ علمائے کرام نے ایک مشترکہ اعلان نامے پر دستحط کئے تھے جس میں اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کو مسترد کرتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کی گئی تھی۔اس اعلان نامہ میں بھارت کے مسلمان عوام سے کہا گیا تھا کہ وہ یوم آزادی پر بھارت کا ترنگا پرچم اپنے گھروں پر لہرائیں۔ اس اعلان نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ بھارت ماتا سے محبت کا مطلب اگر وطن سے محبت ہے تو ہند کے مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اعتراض صرف اس کی پرستش کرنے کے مطالبے پر ہے۔
مذکورہ اعلان نامہ اور اس سے ملتے جلتے دیگر اعلان ناموں کا ذکر کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دارالعلوم دیو بند کو ایک اعتدال پسند دینی ادارہ ثابت کیا جائے۔ دارالعلوم میں نہ صرف یہودیت اورمسیحیت کے خلاف باقاعدہ شعبے کام کر رہے ہیں بلکہ شیعہ اسلام بھی اس کی معاندانہ تعلیمی سرگرمیوں کا ہدف ہے۔ ان شعبوں میں زیر تعلیم طلبا کی ان ادیان کے خلاف ذہن سازی کی جاتی ہے ۔ احمدیت کے خلاف تو پوسٹ گرایجویٹ سطح پر کورسز پڑھائے جاتے ہیں۔
بھارت کے مسلمانوں میں اپنا سیاسی اور سماجی اثر و نفوذ قائم رکھنے کے لئے دارالعلوم دیو بند کے مولانا حضرات اسلام کی بنیاد پرستانہ تعبیر و تفسیر پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرتے ہیں ۔ وہ منجمد عقائد کو دین بنا کر پیش کرتے اور اس سے اختلاف کرنے والوں کو زندیق اوربے راہرو قرار دے کرمطعون کرتے ہیں ۔ فکری پسماندگی اور بنیاد پرستی کی یہی ذہنیت نسل در نسل دارالعلوم دیو بند میں زیر تعلیم طلبا میں بھی منتقل ہوتی رہتی ہے۔
گو دیوبند سے فارغ التحصیل افراد مین سٹریم سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے کی سعی کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ وہ قابل ذکر نہیں ہے۔دارالعلوم کی ترجیحا ت میں بنیاد ی اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ طلبا روایتی دینی تعلیم حاصل کر نے کے بعدنہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر میں دینی مدارس قائم کرکے اسلام کی وہی تعبیر و تفسیر مشتہر کریں جو اب سے تقریبا پونے دو سو سال قبل دارالعلوم کے بانیوں نے متعین کی تھی۔
چند سال قبل جب دیوبند میں زیر تعلیم طالبان میں عسکریت پسندی کے رحجانات کو فروغ ملنا شروع ہواتو بھارت سرکار نے فوری کاروائی کرتے ہوئے اس کے تدارک کے لئے قانونی ذرائع سے رجوع کیا تھا۔ مثال کے طور پر جب بھارت کے زیر اانتظا م کشمیر میں عسکریت پسندی مقبول ہورہی تھی اور نوجوان کی بڑی تعداد اس میں شامل ہورہی تھی تو دارالعلوم دیو بند کے کچھ کشمیری طلبا بھی’ آزادی ‘ کی تحریک کو تیز کرنے کے لئے عسکریت پسندی کی ا س تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے ۔
بھارت سرکار نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایسے طلبا کو سخت اورطویل المدت سزائیں دیں، ایسی سزائیں جنھیں عام حالات میں کسی صورت مناسب نہیں کہا جاسکتا تھا لیکن عسکریت پسند طلبا کو ملنے والی ان سزاوں کا یہ فائدہ ہوا کہ اب دیوبند میں زیر تعلیم کشمیری طلبا کم از کم سیاست اور عسکریت پسندی میں ملوث ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
حال ہی میں، میں دیو بند میں زیر تعلیم ایک کشمیری طالب علم سے ملا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ کشمیر کی بھارت سے آزادی چاہتا ہے؟’ہاں‘ اس نے جواب دیا ۔’کیا تم حصول آزادی کے لئے لڑوگے‘؟ اس نے جواب دیا کہ’ وہ کشمیر واپس جاکر قرآن پڑھائے گا ‘۔جب میں نے یہ کہا کہ پاکستان کے دیوبندی مدارس میں زیر تعلیم طلبا کا موقف اس حوالے سے زیادہ واضح اور موثر ہے تو اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ ’ وہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتا‘۔
لاتعلقی پر مبنی اس قسم کے رویے پاکستا ن کے کچھ دیوبندی مدارس کے طلبا میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن پاکستان کی دیوبندی فکر عمومی طور پر زیادہ عسکریت پسند، جہادی اور متشدد ہے ۔پاکستان میں پائی جانے والی متشدد دیوبندی فکر کا بہت بڑا نمائندہ اکوڑہ خٹک کا دارالعلوم حقانیہ ہے
دارالعلوم حقانیہ کے موجودہ مہتمم مولانا سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق تقسیم ہند کے وقت دارالعلو م دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ انھوں نے قیام پاکستان کے بعد اکوڑہ خٹک میں اپنے دینی مدرسہ کا آغاز کیا تھا ۔ ابتدائی طور پر اس مدرسہ میں صرف آٹھ طلبا تھے لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ تین ہزار سے زائد طلبا اس مدرسہ میں زیر تعلیم ہیں۔
مولانا سمیع الحق نے کچھ عرصہ قبل ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے بین الاقوامی امور کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو بہت وضاحت سے بیان کیا تھا۔اپنی کتاب میں مولانا فرماتے ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت ہر اعتبار سے بہترین تھی اور اس کا طرز حکمرانی آئیڈیل تھا، اسامہ بن لادن ایک’ مثالی شخصیت ‘ کے مالک تھے اور’ القاعدہ ‘نام کی کسی تنظیم کا کوئی وجود نہ پہلے تھا اور نہ اب ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ اگر ان کے مدرسہ میں زیر تعلیم طلبا کچھ عرصہ کے لئے تعلیمی سرگرمیاں منقطع کرکے افغان طالبان کے ساتھ جہاد میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو میں ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتا ۔مولانا سمیع الحق نے اپنے مدرسہ کی طرف سے طالبان حکومت کے سربراہ ملا عمر کو اعزازی بھی ڈگری دی تھی اور وہ اس پر بھی فخر کرتے ہیں ملا عمر ان کا شاگرد تھا اور اس نے اکوڑہ خٹک سے دینی تعلیم حاصل کی تھی ۔یہاں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث پانچ ملزموں کا تعلق دارالعلوم حقانیہ سے تھا اور اپنے خونی مشن پر روانہ ہونے سے قبل انھوں نے اپنا اجلاس دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ہی میں کیا تھا۔
جب عسکریت پسندی اور مذہب کے نام پر تشدد کا ذکر ہو تومولانا سمیع الحق کی دیوبندی فکر بھارت کی دیوبندی فکر سے بہت مختلف اور اکثر و بیشتر مخالف سمت میں کھڑی نظر آتی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہونا بالکل فطری ہے کہ وہ کون سے محرکات اور وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان کی دیوبندی فکر جس کا ایک بڑا نمائندہ اکوڑہ خٹک کا مدرسہ حقانیہ ہے ۔بھارت میں موجود اپنی مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے سیاسی رویوں اور حکمت عملی سے بہت زیادہ مختلف نظر آتا ہے ۔ اس سوال کا جواب پاکستان اور بھارت کی ریاستوں کی نظریاتی ساخت میں پنہاں ہے۔
بھارتی ریاست سیکولر ہونے کی دعوی دار ہے جب کہ پاکستان کی ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے اوریہی وہ تفریق ہے جو دونوں ریاستوں کی مذہبی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے حوالے سے پالیسیوں کو متعین کرنے میں بنیادی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بھارت کی ریاست نے دیوبندی عسکریت پسندی پر قابو پانے کے لئے موثر اور بھرپور اقدامات کئے ہیں جب کہ پاکستان کی ریاست نے ایسے اقدامات کرنے سے ایک لمبے عرصے تک پہلو تہی کی لیکن جب بین الاقوامی دباؤ بڑھا اور داخلی صورت حال ابتر ہونا شروع ہوئی تو چند نیم دلانہ اقدامات سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔
اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا سمیع الحق کئی سال پاکستان کی پارلیمنٹ (سینٹ )کے رکن رہے ہیں اس حوالے سے دیکھا جائے تو مولانا پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ پاکستان کے’حقیقی‘ حکمرانوں کو تعاون فراہم کیا اور ان کے ایجنڈے کو آ گے بڑھانے کے لئے ان کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ انھوں نے کبھی بھی حکمران اشرافیہ سے اختلاف کا ’گناہ‘ نہیں کیا ۔
دہلی سے ملنے والے کچھ اشاروں سے لگتا ہے کہ بھارتی پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ متشدد دیوبندی فکر نہ صرف بھارت بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لئے خطرہ بن چکی ہے لہذا اس کے تدارک کے لئے جہاں انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے وہاں ایسی نظریاتی حکمت عملی اختیار کرنا بھی لازم ہے جو دیوبند فکر سے جڑی عسکریت پسندی اور انتہاپسندی کے آگے بند باندھ سکے ۔
چنانچہ اس حکمت عملی کو پیش نظر رکھتے ہوئےبھارت سرکار نے گذشتہ کئی سالوں سے دارالعلوم دیو بند میں غیر ملکی طلبا کے تعلیم حاصل کرنے پرعائد پابندی کو نرم کر دیا ہے۔ حال ہی میں قواعد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے افغانستان سے تعلق رکھنے والے کچھ طلبا کو بھارت آ نے اور دیوبند مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
بھارت سمجھتا ہے کہ بجائے اس کے کہ افغان طلبا پاکستان کے دیوبندی مدارس میں مذہبی تعلیم حاصل کریں اور وہاں سے عسکریت پسندی اور جہادی فکر سے متاثر ہوکر جنوبی ایشیائی ممالک میں دہشت گردی پھیلانے کا باعث بنیں انھیں دیوبند کے دارالعلوم میں آنے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ جہادی فکر اور عسکریت پسندی سے دور رہ سکیں۔ بھارت کے پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند سماجی طور پر قدامت پسندی کا داعی ہونے کے باوجود جہادی فکر کا پرچم بردار نہیں ہے۔
بظاہر لگتا ہے کہ دیوبندی عسکریت پسندی ایک ایسی قوت بن چکی ہے جس پر قابو پانا نا ممکن ہے لیکن بھارت کا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ بھارت کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ عسکریت پسندی اور جہاد دیوبندی فکر کا جزو لازم نہیں ہے بلکہ یہ ریاستی پالیسی ہے جو عسکریت پسندی اور جہادی فکر کو نظریاتی جواز فراہم کرنے کے لئے اسے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ یہ بھارت کا سیکولر ازم ہے جس کی بدولت دارالعلوم دیوبند جہادی فکر اور عسکریت پسندی سے گریزاں ہے۔
جب کہ پاکستان کے دیوبند ی مدارس کی عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کو پاکستانی ریاست کی بالواسطہ اور بلا واسطہ تائید و حمایت حاصل ہے۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر دہشت گردی، انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی ریاست مذہب کو داخلی سیاسی مسائل کرنے اور خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل کرنے کے لئے استعما ل کرنا بند کردے بصورت دیگر مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔
♥