يمن ميں قحط سے انسانی جانوں کے ضياع کا خدشہ ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ نے خبردار کيا ہے کہ سعودی عرب کی یمنی ناکہ بندی کے سبب اس عرب ملک ميں قحط اور اس سے کئی ملين انسانوں کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ اس ادارے نے رياض حکومت پر زور ديا ہے کہ يمن کی ناکہ بندی فوری طور پر ختم کی جائے۔

اقوام متحدہ ميں انسانی بنيادوں پر امداد سے متعلق ادارے سربراہ سيکرٹری جنرل مارک لو کوک نے متنبہ کيا ہے کہ اگر يمن کی ناکہ بندی ختم نہ کی گئی، تو وہاں شدید قحط کی صورتحال پيدا ہو گی، جس کی تاريخ ميں مثال نہیں ملے گی اور اِس کے متاثرين کی تعداد کئی ملين ہو سکتی ہے۔

لوکوک نے يہ بيان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل  میں دیا۔ بعد ازاں پندرہ رکنی سکيورٹی کونسل نے بھی سعودی قيادت ميں قائم عسکری اتحاد سے مطالبہ کيا کہ يمن کے ہوائی اڈے اور بندرگاہيں کھولی جائيں تاکہ جنگ سے متاثرہ افراد تک امداد کی فراہمی کو يقينی بنايا جا سکے۔

يہ امر اہم ہے کہ پچھلے ہفتے کے اختتام پر يمن کے ایران نواز حوثی باغيوں کی طرف سے سعودی دارالحکومت رياض کی جانب داغے جانے والے ايک ميزائل کے بعد سعودی حکومت نے يمن کے تمام فضائی، زمينی اور بحری راستے بند کرتے ہوئے اس ملک کی ناکہ بندی کر دی ہے۔

رياض کی طرف داغے گئے ميزائل کو شہر کے ہوائی اڈے کے قريب دفاعی میزائل نظام کے ذریعے تباہ کر ديا گيا تھا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ايران پر تنقيد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تہران حوثی باغيوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور یہ سعودی عرب کے خلاف عسکری کارروائی کے مساوی ہے۔

سلامتی کونسل کے ارکان نے يمن ميں ابتر انسانی صورتحال پر تشويش کا اظہار کرتے ہوئے تمام بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کے کھلنے کی ضرورت پر زور ديا۔ يہ بات اس وقت کونسل کی صدارت کے حامل ملک اٹلی اور اُس کے سفیر سباستيانو کارڈی نے کہی۔

علاوہ ازيں اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيرش نے سعودی وزير خارجہ عادل الجبير سے بدھ کو بذريعہ ٹيلی فون گفتگو کی، جس ميں انہيں يہ اشارہ دیا گیا کہ ریاض حکومت ممکنہ طور پر  راستے کھولنے کے بارے ميں غور کر رہی ہے۔ يمن ميں تقريباً سترہ ملين افراد کو خوراک کی ضرورت ہے، جن ميں سے سات ملين کو قحط کا خطرہ لاحق ہے۔ پھیلی ہوئی ہيضے کی وباء کی وجہ سے دو ہزار افراد ہلاک بھی ہو چکے ہيں۔

DW

Comments are closed.