انسانی تاریخ کے عظیم کمالات میں سائنسی اور تکنیکی ایجادات شامل ہیں۔ انھی کمالات کے ہم پلہ ایجادات میں زبان، تصویرکشی اور موسیقی بھی شامل ہیں۔ جس انسانی گروہ نے ایسے کمالات ایجاد کیے اس گروہ کا ایک فرد ہونا ہمارے لیے شان کی بات ہے۔ زبان کو لیں ، قدیم ترین دور میں جب زبان کی اختراع ہوئی تو ابلاغ ممکن ہوا اورانسانی معاشرے کی تعمیراور ارتقاء ہونا شروع ہو گیا ۔ زبان کی بدولت معانی بنانا آسان ہو گیا اور اس طرح انسانوں کے درمیان اور انسانوں اور اس کی ارد گرد کی دنیا کے درمیان ایک بامعانی تعلق قائم ہو گیا ۔
صرف تعلق ہی قائم نہ ہو ا، انسان نے اس تعلق کی بنیاد پر اپنی ذات کا مطلب بھی دریافت کرنا شروع کردیا۔ اس سے پہلے انسان کا فطرت کے ساتھ تعلق بھی گونگا تھا۔ زبان کی اختراع کے بعد دونوں کے درمیان مکالمہ شروع ہوا۔ اس مکالمے کی بدولت فطرت نے اپنے رازوں کی چابی انسان کو بتانا شروع کردی۔ اسی مکالمے کی بدولت انسان کے وجود کی اختراع شروع ہو گئی ۔اس وجود کی اختراع کا پہلے سے کوئی نقشہ یا خیال موجود نہ تھا۔
زبان اور معانی کی تعمیر اور ارتقاء کا ایک پہلوسیاسی، انتظامیہ یا خانگی معاملات اور متعلقہ اداروں میں نظر آتاہے۔ یہ شعبہ جات ضروری نہیں کہ عام فرد کے احساسات اور زیست کا خیال کرتے ہوں۔ یہ زندگی کے ظاہری اور سرد پہلو کا بندوبست کرتے تھے۔اس کے متوازی ایک اور دھارا بہتا رہا۔ اس دھارے کا تعلق ادب سے تھا۔ اس میں زندگی کے ظاہری اور سرد پہلوؤں کے انسانوں کے دلوں اور جانوں پر اثر کا کِیا جوکھا محفوظ ہو تا رہا۔ اس کی صورتگری کبھی جانوروں کی کہانیوں کی صورت میں تو کبھی دیومالائی اساطیروں ، کبھی طر بیہ ، کبھی ٹریجڈی او ر کبھی رزمیہ شاعری میں نظر آتی ہے۔ کبھی فطرت اور انسانی کارگزاریوں کی بصورتِ اصل تصویر کشی تو کبھی ان کارگزاریوں پر اپنے احساسات کا بیان۔جیسے جیسے انسان کا اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں نظریہ تبدیل ہوتا گیا ، دل کی بات کہنے کے اسلوب بھی تبدیل ہوتے گئے۔ انیسویں صدی میں ناول کی صورت میں اس کو انتہا ملا اور اظہار کو شاندار آسانی مل گئی۔
تصویرکشی، اپنے ابتدائی دور میں زندگی کی توسیع تھی۔ مثال کے طور پر جب ہمارے پرکھوں نے کسی غار میں کسی بھیڑ کی تصویر بنائی تو وہ اسے، دراصل اپنے ریوڑ میں ایک بھیڑ کا اضافہ سمجھتا تھا۔ فرانس کی غاروں میں بنی تصویروں میں اس نے بھاگتے ہو ئے گھوڑے کی تصویر کشی کی ۔ ایسے ہی جیسے فلمی کیمرے سے گھوڑے کی لی گئی تصویر کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیا ہو۔ انسان نے ہر اس چیز کی تصویر کشی کی جو اسے پر کشش لگتی تھی، خواہ یہ فطرت ہو یا کوئی اسطوریا کوئی خوبصورت چہرہ۔ کیمرے کی ایجاد کے بعد بصورتِ اصل تصویر کشی کی بجائے انسانی احساسات اور جذبوں کی تصویر کشی شروع ہو گئی۔
ادب اور تصویر کشی میں تجرید اور تخیل کا کردار بنیادی ہے ۔ تاہم ان کی تخلیق میں الفاظ اور رنگوں کو بنیادی خام مال یا وسیلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ موسیقی، مکمل طور پر تجرید اور تخیل کا کھیل ہے اور اس میں آوازبنیادی وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس طرح موسیقی کی تخلیق ہوا میں گرہ لگانے کے مترادف ہے۔فطرت میں آواز وں کا ایک جہان ہے۔ اس میں پرندوں کی چہچہاہٹ ، جانوروں کی آوازیوں سے لے کر دریاؤں اور دیگر پانیوں کی آوازیں شامل ہیں۔
ان آوازوں میں بلبل کی نغمگی اوربادل کے گرجنے اور بجلی کی کڑک جیسی ہیبت ناک آوازیں شامل ہیں۔جس دل میں پیار ہلکورے لیتا ہو گا اسے بلبل کی نغمگی کا مطلب سمجھ آجاتا ہو گا۔اس طرح بلبل کا نغمہ ،پیار کا نغمہ بن گیا۔ جب دل ٹوٹ گیا اور محبوب سے ملنے کی آس ختم ہو گئی تو کوئل کی ہوک دل کی عکاس بن گئی۔ نازک جذبوں کا اظہار نازک سروں سے اور ہیبت کا اظہار بادلوں سی گھن گرج سے ہو نے لگا۔ ہر علاقے نے اپنے موسم اور دلوں کے حالات کے مطابق اپنے گیت بنائے اور اس طرح لوک موسیقی پیدا ہوئی۔ یورپ میں جہاں انیسویں صدی میں مختلف اسلوب کی باہمی دیواروں کو توڑنے کی روش چلی، موسیقی کو انسانی جذبات کا مکمل عکاس بنانے کے لیے تخلیق کی نئی وادیوں کو کھوجا گیا۔
بیسویں صدی میں ایک انوکھا ذریعہ ابلاغ ایجاد ہوا اس میں زبان، تصویر اور موسیقی باہم ہو گئے۔ زبان، تصویر کشی اور موسیقی کے فن پاروں کو جامد نہیں بلکہ زندگی کی گہما گہمی کا عکاس بنا دیا گیا۔ یہ ایسا تجربہ تھا جو ہر انسان اپنی زندگی میں ہر وقت کرتا ہے اور خود اس تجربے کا ایک کردار ہے۔ اس طرح فلم انسانی تاریخ کا انمول اور انوکھا اسلوب اور تجربہ بن گیا۔ اتنے وسیع اور پُراثر اسلوب کو اس میں موجود تخلیق کی گنجائش کے مطابق استعمال کرنے کی روش زیادہ پرانی نہیں۔ ابتدائی سالوں میں اس اسلوب میں فنی اور تکنیکی سہولیات زیادہ نہ تھیں تاہم سائنسی ایجادات اورٹیکنالوجی کی بدولت اس میں بات کہنے کی گنجائش بڑھتی گئی۔ تاہم اب کہانی کہنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی کہانی بیان کرتا ہے۔
اب دل خوش کرنے اور بہت زیادہ دولت کمانے والی فلموں کے ساتھ ساتھ انسانی صورتحال پر تبصرہ اور اس کی زیست کے اندوہ پر فلمیں بنائی جاتی ہے۔ یہ صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور سرمایہ کار اس میں سرمایہ کاری کر کے دولت کی افزائش کرسکتے ہیں۔ تاہم مقبولِ عام فلموں کے ذریعے لوگوں کو ان کی زندگی کی تلخیوں سے فرار کی گنجائش ملتی ہے تو سنجیدہ فلمو ں کے ذریعے احتجاج کاایک بیانیہ بھی استوار کیا جاتا ہے۔ تاہم دونوں صورتوں میں فلم کے میڈیم کو جاری بیانیے کے تحفظ ، مخالفت یا متبادل بیانیے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان میں فارمولہ فلموں کی بھر مار ہے۔ ایسی فلموں میں ایک ہیرو اور ایک ہیروئین ہوتی ہے۔ ایک ولن ہو تا ہے جو ہیروئین کو پٹانے کی کوشش کرتا ہے مگر ہیرو اس کی سازشوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔ کبھی زیادہ سنگین صورتحال ہو جائے تو پھر مرنے مارنے پر بات آ جاتی ہے اور آخر کار ہیرو جیت جاتا ہے اور اس کی ہیروئین سے شادی ہو جاتی ہے۔ بنیادی طور پر فلم کی یہ فارمولہ صورتحال سماج میں جاری بیانیے کے تحفظ کو تقویت دیتی ہے ۔ ہیرو ماں باپ کی اشیر باد سے لڑکی کے ساتھ شادی کرتا ہے اور ولن اس سماجی روایت کو توڑ کر لڑکی کو بھگا کر لے جانا چاہتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک ہیرو کسی لڑکی سے محبت کا دعوٰی کر سکتا ہے تو ولن کیو ں نہیں ایسا کر سکتا۔عام طور پر ہیرو اور ہیروئین اعلیٰ طبقوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی شکل شباہت میں آسودگی او ر’ تہذیب‘ کا عنصر غالب ہو تا ہے۔
اس کے برعکس ولن ’ تہذیب کے اعلیٰ معیار ‘کے برعکس بد ہیبت، بڑی بڑی مونچھوں اور اگر یہ سب نہ ہو تو اس کے چہرے کو عجیب بنانے کے لیے اس کی ایک آنکھ کے نیچے ایک بڑا مسّا بنا دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ غربت اور قلت میں پلنے والے لوگ بڑی مشکل سے زندہ رہ پاتے ہیں۔ ان کے چہروں پر بے چارگی اور مفلسی کی دھند نمایاں ہوتی ہے۔وہ شکل سے ہی چور سمجھ لیے جاتے ہیں۔ نام نہاد تہذیب یافتہ طبقہ دراصل خوشحالی اور فراوانی کی زندگی گزارتا ہے اور ان کے چہروں پر حسن اور نور اچھی خوراک اور بے فکری کے باعث آشکار ہوتا ہے۔ ولن گندا اور اپنے طور طریقوں کو لے کر اجڈ ہو تا ہے۔ اسے کانٹے اور چھری سے کھانا نہیں آتا۔ سچ یہ ہے کہ ولن روایت کو توڑ نے اور تبدیلی کا حامی ہوتا ہے۔ اسے جب اس کا انسانی حق نہیں ملتا تو وہ تشدد پر اتر آتا ہے۔
حالانکہ تشدد کی بنیادی صورتحال جس سے زندگیوں میں مفلسی اور بے بسی آئی اس کا ذمے دار ہیرو اور ہیروئین کا طبقہ ہے۔ ان کا تشددبغیر خون بہائے انسانوں سے انسانیت چھین لیتا ہے ۔ یہ سسٹم کا تشدد ہے اور جب اس سسٹم کو ولن توڑ نہیں پاتا کیونکہ اس کا ہمدرد کوئی سسٹم موجود نہیں ہوتا، وہ اتھاہ مایوسی میں تشدد پر اتر آتا ہے جو اس کا آخری حربہ ہو تا ہے اور جو ایک طرح سے خود کشی سے کم نہیں ہوتا۔ ایک احتجاج کے طور پر وہ اپنی جان دے دیتا ہے اور ایک نشان چھوڑ کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ ہیرو اور ولن، دونوں کی خواہش ہیروئین سے جنسی تعلق قائم کرنا ہوتی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ ہیرو گانے گا کر یا ناچ کر ہیروئین کو اس کی جانب آنے کی ترغیب دلاتا ہے اور ولن، تشدد کرکے ریپ کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں عورت کو ایک جنسی تسکین کی شئے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ فارمولا فلموں میں ریپ کے مناظر لازمی سمجھے جاتے ہیں تاکہ عورت کی جنسی حیثیت کو اجاگر کیا جائے۔
حقیقت پسندی کے نظریے پر مبنی فلموں میں کوئی ہیرو ہوتا ہے اور نہ ہی ولن۔ حالات لوگوں کو کچھ بھی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسی فلموں کی ابتدا ایک اٹالین فلم’’بائیسکل تھیف‘‘ جو1948 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی سے ہوئی۔ اس فلم میں ایک بائیسکل زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اسی نئی راویت کی پیروی میں ہندوستان اور پاکستان میں کئی فلمیں بنائی گئیں۔ ان میں بمل رائے کی دیوداس، دو بیگھہ زمین، بندنی گرودت کی پیاسا، کاغذ کے پھو ل اور ستیہ جیت رے کی اپو سنسار اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔ ہندوستان کی تقسیم پر عصمت چغتائی کی ایک کہانی پر فلم گرم ہوا بنا ئی گئی۔
تقسیمِ ہندوستان پر جو ادب لکھا گیا اس میں منٹو کا افسانہ ’ کھول دو‘ سرِ فہرست ہے۔ یہ فلم بھی تقسیمِ ہندوستان کے باہمی رشتوں پر اثر کی درد بھری تصویر ہے۔ پاکستان میں فیض احمد فیض نے جاگو ہو ا سویرااور احمد بشیر نے نیلا پربت بنائی۔ ان فلموں میں انسانی زیست اور اس کی دقتوں اور دکھوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ مثلاََ ، دیوداس میں ایک شخص اپنے بچپن کی دوست سے شادی نہیں کر پاتا ۔ اس فلم کا پس منظر انیسویں صدی کا بنگال ہے ۔ لڑکی کے گھر والے اس کی شادی اس سے عمر میں کہیں بڑے بزرگ سے کر دیتے ہیں۔ دیوداس ، فلم کا مرکزی کردار شراب نوشی شروع کر دیتا ہے اور آخر اسی کی وجہ سے مر جاتا ہے۔
دو بیگھہ زمین ، ایک کسان کی کہانی ہے جس کی زمین کارخانے کی تعمیر کے سلسلے میں اس سے ہتھیا لی جاتی ہے۔ بیسویں صدی کے ساتویں عشرے میں ہندوستان میں ایک متوازی سنیما سامنے آیا۔ اس کے پیشرو شیام بنیگال اور دیگر تھے۔ انھوں نے عام انسانوں کے دکھ اور زندگی کی تلخیوں پر فلمیں بنائیں۔ ان فلموں میں پار، ارد ستیہ، گرم مسالہ، انکراور اس طرح کی بے شمار فلمیں شامل ہیں۔ اس روایت کو آج کے فلم ڈائریکٹر آگے بڑھا رہے ہیں اور ان کی فلموں میں رنگ دے بسنتی ،پنک، پیکو، چینی کم، پارچڈ، علی گڑھ ، پنجر وغیرہ شامل ہیں۔ہالی ووڈ کی روایت کم و بیش ہندوستان کے سنیما (بالی ووڈ) سے ملتی جلتی ہے – اس میں بھی روایتی فلموں کے ساتھ ساتھ سنجیدہ فلمیں بھی بنتی ہیں۔
یورپی سنیمااس لحاظ سے منفرد ہے کیونکہ اس میں سنیما کے میڈیم کو اس کی ممکنہ حدود تک لے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر صرف کہانی کہنے کے لیے ناول اور افسانے کی اصناف اپنے اندر کافی بڑی وسعت اور گنجائش رکھتی ہے۔ فلم کے میڈیم میں زبان ، چلتی تصویر اور موسیقی ، اظہار کے تینوں بڑے ذریعے میسر ہو تے ہیں۔ایسے میں صرف کہانی کا بیانیہ اس میڈیم کی گنجائش کو محدود کر نے کے مترادف تھا۔
مثال کے طور پر عظیم ناولوں پر بنائی گئی فلمیں وہ تائثر قائم کرنے میں ناکام رہیں جو خود ناول کو پڑھ کر حاصل ہو تا ہے۔ مثال کے طور پر ٹالسٹائی کا ناول اینا کرینینا، ٹامس مان کا ناول ’’ڈیتھ ان وینس‘‘ ، یا دوستیووسکی کا ناول ’’ کرائم اینڈ پنشمنٹ‘‘ ۔ یہی سوال سویڈن کے فلم ڈائریکڑ انگرام برگمان کو پریشان کرتا تھا ۔ جس طرح زبان کی اعلیٰ ترین تخلیق روزمرہ کی بول چال سے الگ شاعری میں ممکن ہو تی ہے اسی طرح فلم کے میڈیم کو اس کی ممکنہ حدود تک لانے کے لیے اس نے اور دیگرڈائریکڑوں نے اپنی فلموں کو شاعری کے اعلیٰ اظہار کے قریب لا کھڑا کیا۔ مثال کے طور پر برگمان کی فلم
Wild Strawberries ، Persona ، Through a Glass Darkly
اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔ برگمان کسی بھی فلاسفر یا ماہرِ نفسیات کی طرح آج کے انسان کی اتھاہ زیست کی الجھنوں کو آشکار کرتا ہے۔ وہ ایک ایسا بیانیہ متعارف کرواتا ہے جس پر عام طور پر معاشرے میں بحث نہیں ہوتی۔ اسی طرح یورپ کے دیگر ممالک میں بھی شاندار فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔
مثال کے طور پر ہنگری کی ایک فلم ’’سن آف سائل‘‘ کو لیں۔ یہ ایک نازی کیمپ کے پس منظر میں بنی ایک فلم ہے۔ کسی بھی نازی کیمپ میں محبوس لوگو ں میں سے کچھ کو نازی کیمپ کے امور نمٹانے پر معمور کیا جاتا ہے۔ ان کے ذمے محبوس لوگوں کو مارنے اور ان کی لاشوں کو جلا کر راکھ بنانے تک کے کام ہو تے ہیں۔ واضح رہے کہ ان کی باری بھی چند دنوں میں آنے والی ہوتی ہے۔ یہ فلم ایسے ہی ایک نوجوان کی ہے۔ فلم کی ابتدا میں لوگوں کے نازی کیمپ میںآنے اور فلم کے آخری حصے میں ان کو جلانے کے بعد راکھ کو دریا میں پھینکنے کا منظر آتا ہے۔ یہ سب روداد فلم کے پس منظر میں رہتی ہے اور دیکھنے والا اس روداد کو سایوں کی صورت میں ہی دیکھ سکتا ہے۔ پیش منظر میں نوجوان کی تگ و دو ہے جس میں وہ اپنے سوتیلے بیٹے کو کیمپ کے جلانے کے دستور کے بر عکس دفنانے کی سعی کرتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ پس منظر اور اس کے اوپر ایک اور کہانی کو بیان کرنا شاید فلم کے میڈیم سے ہی ممکن تھا۔
ڈائریکٹر دراصل یہ با ت زور دے کر کہنا چاہتا ہے کہ ٹھیک ہے انسانی جانوں کے لیے نازی کیمپ ایک خطرناک جگہ ہے اور کہانی کا مرکزی کردار کا مرنا طے ہو چکا ہے مگر پھر بھی زندگی کی ایک روش اپنے طور پر چل رہی ہے جس کو روکنا نازیوں جیسے ظالموں کے لیے بھی روکنا ممکن نہیں۔ یہ بات بھی ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ایسی صورتحال میں جب زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ ختم ہو جائے تو زندگی میں سے اخلاقی اور ہیولاتی فاصلے ختم ہو جاتے ہیں۔ انسان کے لیے ایک لمحہ بھی لمبا ہو جاتا ہے۔ اس کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ جب ایک شخص کو گولی مارنے کے لیے لے جا رہے ہوتے ہیں تو وہ سوچتا ہے کہ ابھی فلاں چوک آئے گا ، پھر نہر آئے گی، پھر فلاں جگہ آئے گی،و علیٰ ہذالقیاس ۔۔۔ ابھی تو زندگی بہت ہے۔ جب وہ اگلی منزل پر پہنچتا ہے تو وہ اسی طرح آنے والی جگہوں کے بارے میں سوچتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ ابھی زندگی باقی ہے۔ جب وہ اپنی قتل گاہ میں پہنچ جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ ابھی بڑا افسر آئے گا ، وہ سپاہیوں کو حکم دے گا کہ وہ ہمیں قطار میں کھڑا کریں ، پھر سپاہی رائفل لے آئیں گے۔ وہ اپنی رائفلوں کو لوڈ کریں گے ، پھر نشانہ لیں گیاور پھر گولی چلائیں گے۔ ابھی تو بہت سی زندگی باقی ہے۔ امید اور زندگی کی لو آخری وقت تک بہتی ہے کہ جب تک خود زندگی ہی نہ رہے۔
اسی طرح رومانیہ کی ایک فلم میں ایک لڑکی اپنی کلاس فیلو کی اسقاطِ حمل کے لیے اس کی مدد کرتی ہے۔ فلم کے پس منظر میں یہ بات بتا دی گئی ہے کہ وہاں اسقاطِ حمل کروانا غیر قانونی ہے۔ ایک ہوٹل میں کمرا بک کروایا جاتا ہے اورجس لڑکی کا اسقاط کرنا ہوتا ہے، وہ وہاں آجاتی ہے۔ یہ لڑکی ایک شخص کواسقاط کے لیے کسی دور افتادہ جگہ سے لے کر آجاتی ہے۔ یہ شخص ہوٹل میں آتے ہی الٹی سیدھی باتیں شروع کر دیتا ہے اور لگتا ہے کہ وہ اسقاط کیے بغیر وہاں سے چلا جائے گا۔ جس لڑکی کا اسقاط کرنا ہوتا ہے وہ سخت بے بسی اور گھبراہٹ محسوس کرتی ہے ۔ جب وہ جانے لگتا ہے تو وہ اس کا راستہ روک لیتی ہے۔ مدد کرنے والی لڑکی اس شخص کو اس کے ساتھ جنسی اختلاط کی پیش کش کرتی ہے جو وہ قبول کر لیتا ہے اور بعد ازاں اسقاط کا عمل تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔
مدد کرنے والی لڑکی اسی دوران سخت افسردگی کے عالم میں اپنے بوائے فرینڈ سے ملتی ہے۔ بوائے فرینڈ ، لڑکی کے اپنی کلاس فیلو کی اسقاط میں مدد کے بارے میں بتانے کے باوجود اس کی طرف جنسی پیش قدمی کرتا ہے جو وہ لڑکی سختی سے منع کر دیتی ہے۔ جب لڑکی ہوٹل واپس آ رہی ہوتی ہے تو وہ قے کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی اسقاط کروائے گی اور اس کے لیے کوئی لڑکی ہی اسقاط کرنے والے کو جنسی اختلاط کی پیش کش کرے گی۔ فلم میں دو اہم مرد کردار ہیں اور دونوں ہی جنسی اختلاط کے لئے بھوکے اور عورت کے دکھ سے لا تعلق ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ عورتوں کی دنیااپنے طور پر ایک الگ دنیا ہے۔ اس دنیا میں مرد صرف مزے کے لیے آتا ہے اور پھر یہاں سے ایک اجنبی کی طرح واپس چلا جاتا ہے۔
ڈنمارک کا ایک ڈائریکٹر لارز وون ٹرایز انسانی صورتحال کو کسی اخلاقی ، سماجی ، نفسیاتی، سیاسی یا تاریخی سانچے یا لحاظ سے قطع نظر اپنی اصلیت ، خوفناک اور دل کو دہلا دینے والی تفاصیل میں پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے دیکھنے والے کے ذہنی پس منظر ، اس کی نفسیاتی حدود اور برداشت کو للکارتا ہوا اسے ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں صرف اصلیت کسی ملمع کاری سے بغیر اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ اس کی ایک فلم عورت کی تاریخ ہے اور عورت اپنی ہولناک اور اندوہ آمیزصورت میں آ پ کی زیست کی رگ کو کاٹتی محسوس ہوتی ہے۔
یہ ایک حزنیہ نظم کی طرح ہے اور اسے واقعاتی تسلسل کی بجائے علامتی اور اسطوری تصور کی صورت میں دیکھنا چاہیے۔ اس میں عورت کے جسم کو متاعِ بازار یا جنسی کشش بنانے کے لیے اس کو زرق برق میں نہیں دکھایا گیا، یہاں وہ اپنے اس جسم کے ساتھ نظر آتی ہے جو ہزاروں سالوں کے جبر اور روکھے پن کی وجہ سے رذالت کی مٹی میں اٹا ہے۔ اسی ڈائریکٹر کی ایک اور فلم ’’اینٹی کرائسٹ‘‘ بدی کے تصور کے انسانی زیست پر اثرات پر تبصرہ کرتی ہے۔ جب ہر وقت بدی کے تناظر میں اخلاقیات کی باتیں کی جائیں تو انسانی ذہن بدی کے بارے میں ایک سمجھ بنا لیتا ہے۔ یہی سمجھ اسے بدی کو نارمل رویے کے طور پر قبول کرنے کی طرف اکساتی ہے اور اس طرح انسان اسے کر گزرتاہے۔
اخلاقیات کے ضابطوں میں یہ بات مان لی جاتی ہے کہ بدی ہر وقت انسان کے ارد گرد اسے بہلانے اور پھسلانے کے لیے تیار رہتی ہے۔ بدی کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے زندگی کی روش پر وہ ایک ْ قدرتی ‘ عمل ہے اور اخلاقی عمل ایک طرح سے ایک سوچی سمجھی اور شعوری کوشش سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ کہ اخلاقیات اس تناظر میں ’ غیر قدرتی ‘ عمل ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زندگی کی حقیقی روش کو جب تسلیم کرنے کی بجائے تجرید پر مبنی ایک ضابطہ ء اخلاق بنا لیا جائے تو وہ ’ غیر قدرتی‘ ہی رہے گا۔
♣