طارق احمدمرزا
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے دس برس کے جان لیوا انتظار اور تعطل کے بعد حماس کے ساتھ صلح کامعاہدہ کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ اگرحماس چاہتی ہے کہ اسے ممکنہ فلسطینی مخلوط حکومت میں وزارتیں ملیں تو اس کے لئے انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنا پڑے گا۔جبکہ حماس کے سرکردہ ممبران نے اعلان کیا ہے کہ نئے معاہدہ کا مقصد اسرائیل کو صفحہ ہستی سے نیست و نابودکردینے کے سواکچھ نہیں۔
ہردو بیانات سے صاف واضح ہو گیا کہ کہ دونوں فلسطینی گروپ مشرق وسطیٰ کے اس حساس ترین خطہ میں قیام امن کے لئے بالعموم اور فلسطینی اتحاد کے لئے بالخصوص کتنے مخلص اور سنجیدہ ہیں۔اسرائیل نے اسی لئے مذکورہ سمجھوتے اور اس کے حصول کیلئے کسی بھی مذاکرات کی شدیدمخالفت کی تھی۔اسرائیل کا شروع سے مطالبہ یہی رہا ہے کہ حماس کو کالعدم تنظیم قرار دے کر اسے مکمل طور پر غیرمسلح کئے بغیر امن کی کوئی کوشش نہ تو کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی قابل قبول۔
دونوں فلسطینی دھڑوں کے اس صلح نامہ پرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاانتہائی غیرمتوقع ردعمل اور رویہ اس لحاظ سے غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے اس معاہدہ کو ایک خوش آئنداقدام قراردیا ہے جس پر اسرائیل نے خشم واضطراب کا اظہار کیا ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے تمام امریکی صدورحماس کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت یا سمجھوتے کی مذمت کرتے چلے آئے تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ ’’دوقومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر دوآزادا ور خودمختارحکومتوں کے قیام کے حق میں ہیں۔
حقیقت تویہ ہے کہ فلسطینیوں کی باہم نااتفاقی اور سرپھٹو ل ہی نہ صرف عرب دنیابلکہ پوری امت مسلمہ کے جسم میں ایک ناسور بنی ہوئی ہے۔پاکستان،بنگلہ دیش،انڈونیشیا،ملائشیاایران وغیرہ کے عوام فلسطینیوں کے حق میں اکثروبیشترجلسے جلوس نکالتے نہیں تھکتے اور’’نامنظور نامنظور،اسرائیل نامنظور‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگا لگا کر اپنے آلہ صوت اوردوسروں کے پردہ سماعت میں شگاف پر شگاف پیدا کئے جارہے ہیں اور ادھر فلسطینی ہیں کہ ان کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔ ستر برسوں میں فلسطینی خود کو ’’ملتِ واحدہ‘‘ ثابت نہیں کرپائے۔
اس حوالہ سے جہاں تک پاکستان کی خارجہ پالیسی کاتعلق ہے تو سنہ 1993 میں کئے گئے اسرائیل فلسطینی امن معاہدہ اوسلوکے مطابق یاسر عرفات اورانکی جماعت پر مبنی حکومت اسرائیل کو تسلیم بھی کر چکی، ان کے جانشین محمود عباس اپنی حکومت کے وزیروں اور مشیروں کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی قرار دے چکے لیکن ہماری قوم اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب سرظفراللہ خان کی دی ہوئی اسرائیل مخالف ٹون سے ابھی تک جان نہیں چھڑا سکی۔
اور حالت یہ ہے کہ یاسرعرفات نے پاکستانیوں کی ان وفاؤں کے صلے میں پاکستان کو نہیں بلکہ بھارت کواپنا وطن ثانی قراردیاتھا،وہی بھارت جواسرائیل کو نہ صرف تسلیم کر چکا ہے بلکہ اسرائیل کے ساتھ اس کے دوطرفہ سیاسی،سماجی ،تجارتی اور دفاعی تعلقات ہیں۔محمود عباس بحیثیت صدر بھارت کاپانچ مرتبہ دورہ کرچکے ہیں۔انہوں نے یا ان کے پیشروصدریاسرعرفات نے کبھی بھی مبینہ ’’ہنودو یہود گٹھ جوڑ‘‘کو فلسطینی کاز یا اسلام کے لئے خطر ہ قرارنہیں دیا۔
واضح رہے کہ بھارت نے بھی آزادی کے بعد لگ بھگ چالیس برس تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد دنیاکے ایک نئے دور میں داخل ہو جانے پر1992 میں اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ باقاعدہ رسمی سفارتی تعلقات قائم کر لئے تھے۔بھارت کی اس اسرائیل دوستی کو نہ تو فلسطینی قیادت اورنہ ہی ایرانی سیادت نے قابل مذمت یا ناپسندیدہ قرار دیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت کی یہ کامیاب ڈپلومیسی مبینہ طور پران چاروں فریقین کے لئے ’’درون خانہ ‘‘ مفید ثابت ہو رہی ہے۔عالمی پلیٹ فارم پہ جو کردارپاکستان کو ادا کرنا چاہئے تھا وہ بھارت کرگیااور ہم سڑکوں پر زندہ بادمردہ باد کاشور مچاتے ہی رہ گئے۔
♦