بیرسٹر حمید باشانی
تاریخ کی بیشتر کتابوں کا نقطہ ماسکہ عظیم مفکروں کے خیالات ہوتے ہیں۔ جنگجووں کی بہادری ہوتی ہے۔ اولیاء کی سخاوت اور فنکاروں کی تخلیق ہوتی ہے۔ یہ کتابیں ہمیں سماجی ڈھانچوں میں توڑ پھوڑ کے بارے میں بتاتی ہیں۔ سلطنتوں کے عروج و زوال کے بارے میں بتاتی ہیں۔ وہ ہمیں جدید ٹیکنالوجی کی دریافت اور فروغ کے بارے میں بتاتی ہیں۔ لیکن یہ تاریخی کتابیں ہمیں یہ نہیں بتاتیں کہ یہ سب کچھ کس طرح انسانی مسرت اور دکھوں پر اثر اندوز ہوتا ہے۔ تاریخ کی تفہیم میں یہ ایک عظیم خلا ہے۔ ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم جتنا جلدی ہو سکے اسے بھرنا شروع کر دیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ہاریری نے اپنی کتاب بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ میں کیا ہے۔
خوشی کے حصول اور زندگی کے مقاصد کے باب میں ہاریری لکھتے ہیں کہ اب تک ہم خوشی کے بارے میں کہتے آئے ہیں کہ یہ مادی عوامل کی پیداوار ہے۔ جیسے صحت ، خوراک اور دولت وغیرہ ہے۔ مگر کیا یہ اتنا سادہ اور واضح ہے۔ فلسفی صدیوں سے خوشی اور مسرت کی نوعیت پر غور کر رہے ہیں ۔ اور وہ شائد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سماجی، اخلاقی اور روحانی عوامل بھی ہماری خوشی اور مسرت پر اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جیسے مادی عوامل ہوتے ہیں۔
جدید سماج کا انسان خوشحالی کے باوجود بیگانگی اور بے معنویت کا شکار ہے۔ اور شاید ہمارے نسبت کم خوشحال آ باواجدا برادری، مذہب اور فطرت کے ساتھ جڑت کی وجہ سے زیادہ خوش تھے۔ حالیہ دہائیوں کے دوران ماہر نفسیات اور ماہر حیاتیات اس بات پر سائنسی تحقیق کر رہے ہیں کہ انسان کو کیاچیز خوشی دیتی ہے۔ اس کے لیے وہ سوالنامہ جاری کرتے ہیں۔ لوگوں سے پوچھتے ہیں۔ اس تحقیق سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دولت اور خوشی کے درمیان تعلق ہے۔ یعنی دولت خوشی لاتی ہے۔ ان سوالناموں کے ذریعے یہ بھی پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ جمہوریتوں میں رہنے والے لوگ آمریتوں کے سائے میں زندہ رہنے والے لوگوں سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ یا شادی شدہ لوگ غیر شادی شدہ ، طلاق یافتگان اور بیوآ وں سے زیادہ خوش رہتے ہیں۔
یہ تحقیق تاریخ دانوں کو مواد مہیاکرتی ہے کہ وہ ماضی میں دولت، سیاسی آزادیوں اور طلاق کی شرح کا تجزیہ کریں۔ اگر لوگ جمہوریتوں میں زیادہ خوش ہیں، اور شادی شدہ لوگ طلاق یافتہ سے زیادہ خوش ہیں تو یہ بات تاریخ دان کو یہ دلیل مہیا کرتی ہے کہ گزشتہ چند دہائیوں کے جمہوری عمل نے انسانی مسرتوں میں اضافہ کیا ہے۔ جبکہ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اس کی مخالف سمت میں اشارہ کرتی ہے۔
ایک دلچسب کھوج یہ ہے کہ پیسہ بلاشبہ خوشی لاتا ہے۔ لیکن ایسا صرف ایک حد تک ہے۔ اس حد سے آگے پیسے کی کوئی اہمیت نہیں۔ معاشی سیڑھی کے سب سے نیچے کھڑے لوگوں کے لیے زیادہ پیسے کا مطلب زیادہ خوشیاں ہیں۔ لیکن ایسا ان لوگوں کے ساتھ نہیں جو پہلے سے خوشحال ہیں۔ خاندان اور برادری ہماری خوشی اور مسرت پر پیسے اور دولت سے زیادہ اثر انداوز ہوتے ہیں۔ ایک بیمار اور غریب شخص اگر اپنے پیاروں کے درمیان ہے تو وہ تنہائی کے شکار اور الگ تھلگ رہنے والے کھرب پتی سے زیادہ خوش رہ سکتا ہے، بشرطیکہ غربت بہت شدید اور بیماری بہت تکلیف دہ یا انحطاطی نہیں ہے۔
لیکن سب سے اہم فائنڈنگ یہ ہے کہ خوشی کا دارمدار حقیقت میں دولت، صحت یا برادری کے معروضی حالات پر نہیں ہے۔ اس کے بجائے اس کا دارمدار معروضی حالات اور موضوعی توقعات کے باہمی تعلق پر ہے۔ حالات بہتر ہونے سے انسانی توقعات بڑھنے لگتی ہیں، اور حالات خراب ہونے سے انسان کی توقعات بھی سکڑنے لگتی ہیں۔ توقعات کا انسانی خوشی کی تاریخ کو سمجھنے سے گہرا تعلق ہے۔
اگر خوشی کا دارمدار صرف معروضی حالات جیسے دولت، صحت اور سماجی تعلقات پر ہوتا تو اس کی تاریخ کی تحقیقات کرنا آسان ہوتا۔ مگر یہ کھوج کہ خوشی کا دارومدار موضوعی توقعات پر ہے تاریخ دان کے کام کو مشکل بنا دیتا ہے۔ تیسری دنیا کی ناآ سودگی کی وجہ محض بھوک، بیماری، بد عنوانی اور سیاسی جبر نہیں ہے بلکہ پہلی دنیا کا اس سے سامنا ہونا اور اسے جاننا بھی ہے۔
پہلی دنیا کی دولت اور آسائش کو دیکھر تیسری دنیا کو اپنی غربت زیادہ واضح نظر آنے لگتی ہے۔ اس ساری تحقیق اور بحث کے بعد ہم پورے دعوے سے نہیں کہہ سکتے کہ خوشی کا دارمددار مادی چیزوں پر ہے۔ یا مادی اور روحانی دونوں عوامل پر ہے۔ ایک تیسرا فیکٹر بھی ہے جسے سانسس کیمیکل کہتی ہے اور حیاتی کمیا اور جنیاتی عوامل کو خوشی کے لازمی عوامل میں شمار کرتی ہے۔ جس کا کسی ائندہ قسط میں جاہزہ لیا جائے گا۔
( نوٹ اس کالم میں ہوریری کی کتاب بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ میں پیش کیے گئے بعض خاص خاص نقاط اور خیالات کو اپنے الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔)
♦