دلی سے پچھلے دنوں میرے پرانے دوست راکیش ملہوترہ نے یہُ بری خبر سنائی کہ ممتاز تاریخ دان پروفیسر ستیش چندرا اکتوبر کی 13تاریخ کو چل بسے۔ میں اپنے آپ کو بے حد خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ہندوستان کے اس دلیر تاریخ دان سے ملنے اور ان سے لندن میں جب وہ کیمبرج یونی ورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر تھے طویل ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس زمانے میں وہ گردے کے علاج کے لئے ڈایلیسزپر تھے لیکن علالت کے باوجود ان کی یادداشت اس بلا کی تیز تھی کہ حیرت ہوتی تھی اور اسی بناء پر انہیں ہندوستان کے قرون وسطی کی تاریخ اور مغلوں کے دور پر غضب کا عبور حاصل تھا۔
انہیں ہندوستان کے ممتاز تاریخ دان جن میں رومیلا تھاپر، پروفیسر محمد حبیب ،بپن چندرا اور سیدنور الحسن نمایاں ہیں دلیر تاریخ دان مانتے تھے کیونکہ انہوں نے مشہور تاریخ دان جادو ناتھ سرکار اور ہندو قوم پرست تاریخ دانوں کے موقف کو للکارا تھا جنہوں نے اورنگ زیب پر مذہبی شدت پسندی کا الزام لگایا تھا اور اورنگ زیب کو ہندوستان میں مغل سلطنت کے زوال کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ پروفیسر ستیش چندرا نے جادو ناتھ سرکار اور ہندو قوم پرستوں کے نظریہ کی تردید کرتے ہوئے مغلوں کے زوال کی اصل وجہ اس دور کے جاگیرداری نظام کا بحران قرار دیا تھا۔ ان کا یہ استدلال تھا کہ اقتصادی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مذہبی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اورنگ زیب نے تخت نشینی کے ۲۲ سال بعد جزیہ کا نظام نافذ کیا تھا ۔
ستیش چندرا ، میرٹھ میں پاکستان میں ہندوستان کے دوسرے ہائی کمشنر سیتا رام کے صاحب زادے تھے ، تاریخ کے مطالعہ کا سفر انہوں نے1940 الہ آباد یونیورسٹی سے شروع کیا تھا اور 1948میں ان کی ڈاکٹریٹ کی تھیسس نے ممتاز تاریخ دانوں کو متوجہ کیا تھا ۔ موضوع ان کی تھیسس کا 07سے1740تک مغلوں کے دربار کی سیاست تھا۔ 1953میں پروفیسر ستیش چندرا ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے ۔ اس دوران ممتاز تاریخ دان پروفیسر محمد حبیب اور سید نور الحسن سے قربت سے انہیں مغلوں کی مذہبی اور علاقائی پالیسیوں کے ادراک میں مدد ملی۔
اسی زمانہ میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب
Parties and Politics at the Mughal Court, 1707-40
شائع کی۔ اور اٹھارویں صدی کے بادشاہ گر، بال مکنڈ کے فارسی خطوط ’’بال مکنڈ نامہ ‘‘ شایع کیا۔ وہ علی گڑھ یونیورسٹی سے 1962تک وابستہ رہے ۔جس کے بعد وہ راجھستان یونیورسٹی سے منسلک رہے اور1970میں جواہر لعل یونیورسٹی میں انہوں نے ہندوستان کی قرون وسطی کی تاریخ کا شعبہ قایم کیا۔ ہندو قوم پرست تاریخ دانوں نے پروفیسر ستیش چندرا کو اپنی تنقید کا ہدف اس بنا ء پر بنایا کہ ان کا کہنا تھا کہ تیمور کے دور میں ہندوستان نے مغرب کی سمت دیکھنا شروع کیا تھا اور اس وجہ سے ہندوستان نے معاشرہ اور حکمرانی کے بارے میں وسط ایشیاء اور مغربی ایشیا ء کے نظریات سے روشنی حاصل کی ۔
لندن میں ملاقاتوں کے دوران میری پروفیسر ستیش چندرا سے زیادہ تر مغلوں کے دور کے بارے میں بات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کل ہندوستان میں مغلوں کو باہر سے آئے ہوئے حکمران قرار دے کر ان کے خلاف نفرت آمیز مہم چلائی جا رہی ہے ، جب کہ ہندوستان کی تہذیب کو مغلوں نے بہت مالا مال کیا ہے۔ موسیقی ، فن تعمیر ، طرز حکومت اور ادب میں مغلوں نے ہندوستان کو بہت دیا ہے ۔میں نے جب کہا کہ ہندوستان کے بعض تاریخ دان کہتے ہیں کہ مغلوں نے ہندوستان کی دولت لوٹی ہے تو پروفیسر ستیش چندرا نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ اگر مغلوں نے ہندوستان کی دولت لوٹی تھی تو یہ دولت کہاں گئی۔
مغلوں کی دولت ہندوستان میں ہی شاندار عمارتوں کی صورت میں آج بھی موجود ہے ۔ مغلوں نے یہیں حکومت کی اور وہ اسی سر زمین میں دفن ہیں ۔ پروفیسر ستیش چندرا نے قدرے غصہ میں کہا کہ اکبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ باہر سے آیا تھا۔لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اکبر ہندوستان کی سرزمیں عمر کوٹ میں پیدا ہوا تھا اور ہندوستان ہی کی زمین، فتح پور سیکری میں دفن ہے ۔ کہنے لگے کہ اکبر اتنا ہی ہندوستانی تھا جس طرح میں ہندوستانی ہوں۔
میں نے پوچھا کہ ہندو قوم پرستوں کا یہ دعوی ہے کہ اکبر کو چتور کی لڑائی میں رانا پرتاپ سے شکست ہوئی تھی ۔ کہنے لگے کہ یہ محض بے بنیاد جھوٹ ہے۔ ایسی کوئی شہادت نہیں کہ چتور کی لڑائی رانا پرتاپ نے جیتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جب راجپوت اس یقین کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے کہ اکبر کو شکست ہوگی، اکبر کی فوجوں کو عین وقت پر کمک ملنے کی وجہ سے لڑائی کو نقشہ پلٹ گیا اور اکبر کی فوجوں نے رانا پرتاپ کے ہاتھی کو مارگرایا اور رانا پرتاپ میدان جنگ سے فرار ہوگیا۔
میں نے پروفیسر ستیش چندرا سے پوچھا کہ ہندووتا کے حامی یہ دعوی کرتے ہیں کہ سندھو وادی کی تہذیب کو سرسوتی تہذیب کہنا چاہئے کیونکہ دریائے سندھ کے پانی کے نشانات راجھستان میں ملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ اس طرح تاریخ کو نہیں بدل سکتے ہیں ۔ سرسوتی تہذیب کی بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ تہذیبیں چھوٹے دریاوں کے کناروں پر وجود میں آتی ہیں بڑے دریاوں کے کنارے پر نہیں۔ پرانے دور میں لوگ پانی دریاوں سے حاصل نہیں کرتے تھے بلکہ کنووں اور باولیوں سے استعمال کرتے تھے۔ خیالی دریا سرسوتی کو سندھو دریا سے جوڑنا اور اسے سرسوتی تہذیب قرار دینا ، تاریخ پر مذہبی عقیدہ کو طاری کرنے کے مترادف ہے۔
پروفیسر ستیش چندرا سے جب میں نے پوچھا کہ ان کی رائے میں مغل دور کے زوال کی اصل وجہ کیا تھی تو انہوں نے کہا کہ میں اپنی کتاب میں واضح کر چکا ہوں کہ بنیادی وجہ اس دور کے جاگیر داری نظام کا بحران تھی اسی کے ساتھ ایک بڑی وجہ مغلوں کی یہ خامی تھی کہ انہوں نے اپنی سلطنت کے دفاع کے لئے بحری طاقت حاصل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے بیرونی بحری قوتوں کو ہندوستان میں قدم جمانے کا موقع ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیپو سلطان ہندوستان کا پہلا اور واحد بادشاہ تھا جس نے بحری طاقت کی اہمیت سمجھی تھی اور اسی کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات سے تقویت حاصل کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز اس سے بے حد خائف تھے اور اسے ختم کرناچاہتے تھے، انگریزوں نے ٹیپو کے حریفوں کی طاقت مجتمع کر کے اسے شکست تو دے دی لیکن ہندوستان کی تاریخ میں اس کے زرین دور کی یاد کو نہیں مٹا سکے۔
میں نے پروفیسر ستش چندر ا سے قرون وسطی میں ہندوستان کے معاشرہ کے بارے میں ان کی رائے دریافت کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بے حد اہم ہے کہ اس دور میں ملک کے مختلف علاقوں میں کشیدگیوں اور رقابتوں کے باوجود ہندوستان معاشرہ بڑی تیزی سے یک جہتی کی جانب بڑھ رہا تھا اور در حقیقت ، انگریزوں کے دور کے مقابلہ میں مغلوں کے زمانہ میں ثقافتی یک جہتی اور آزاد خیال قوم پرستی کی روایت تیزی سے پروان چڑھ رہی تھی۔
ہندوستان کے ترقی پسند تاریخ دان نہ صرف پروفیسر ستیش چندرا کی علمیت کے معترف ہیں بلکہ انہیں ہندوستان کا آزاد اور دلیر تاریخ دان تسلیم کرتے ہیں جو اپنے نظریات پر ڈٹے رہے اور ہندو قوم پرستوں کے سامنے انہوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔اس دور میں جب کہ ہر طرف ہندووتا کے جھنڈے لہرا رہے ہیں ، تاریخ کے حقایق کو مسخ کیا جارہا ہے ، مذہبی نفرت کی آگ میں پرانی تاریخ کو بھسم کیا جارہا ہے اور تاریخ کو دوبارہ لکھا جارہا ہے، پروفیسر ستیش چندرا ایسے دلیر تاریخ دان کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔
مغلوں کی مذہبی پالیسیوں، اٹھارویں صدی کے ہندوستان، قرون وسطی کے ہندوستان کی معیشت کی تاریخ، اور قرون وسطی کا ہندوستان، سلطنت کے دور سے مغلوں کے دور تک کے بارے میں پروفیسر ستیش چندرا کی تصنیفات ایسے کارنامے ہیں جو امر رہیں گے۔
♦