صہیب خان
جب جرنلزم میں قدم رکھا تو اپنے سینئر رفقاء سے یہی سنا کہ صحافی کا مطلب پیغام پہنچانے والا۔ لیکن کسی نےیہ نہیں بتایا کہ صحافت کس قدر ذمہ درانہ پیشہ ہے اور اس کی سمجھ اس وقت آئی جب عملی طور پر میدان میں آیا۔ بد قسمتی سے ہمارا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحافت کے اعلیٰ معیار صرف کتابی باتوں ، صحافتی تنظیموں اور مختلف اداروں کی جانب سے صحافت کی اخلاقیات کے عنوان پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں پڑھنے اور سننے کے لئے ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا شمار صحافت کے لئے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے ۔
بد قسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں صحافت پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ سنسنی پھیلانے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے اور سنسنی کیوں نہ پھیلائی جائے آخر کار ریٹنگ کی دوڑ میں بھی شامل رہنا ہے۔ ریٹنگ بڑھے گی تو بزنس ملے گا،پیسہ آئے گا اور ادارہ چلے گا ۔اب یہ پیسہ کسی کے نجی معاملات کو زیر بحث لا کر کمایا جائے یا کوئی من گھڑت خبر چلا کر حاصل کیاجائے کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ اپنے ذاتی مفاد کو تقویت بخشنا یا کسی کے اشاروں کی کٹھ پتلی بن کر چند صفحوں پر مشتمل میگزین شائع کر دینا جس کی سرکولیشن پچاس کاپیوں سے زیادہ نہ ہو نا ، مختلف سوشل گروپس پر کوئی من گھڑت کہانی یا خبر چلا دینا شعبہ صحافت کی کالی بھیڑوں کا معمول بن چکا ہے۔
حال ہی میں ایک نام نہاد صحافی ایک بلیک لسٹ موبائل کمپنی جو دہشت گرد گروپوں کا پسندیدہ ترین برانڈ بھی ہے اور قومی خزانے کو اب تک غیرقانونی طور پر درآمد شدہ موبائل فونز کی مد میں اربوں روپے کا نقصان بھی پہنچا چکی ہے ، اس کی بر ملا مشہوری اپنے میگزین اور ریڈیو چینل پر چیخ چیخ کر کر رہے ہیں۔
پاکستان میں صحافتی شعبہ کا دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں جب کسی کو کوئی ذریعہ معاش نہیں ملتا تو وہ تین طرح کے شعبوں میں لازمی طور پر قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ ایک پراپر ٹی ڈیلر ، دوئم کار ڈیلر اور آخر میں صحافت اور خوش قسمتی سے صحافت وہ واحد شعبہ ہے جہاں سٹیٹس کو ، سیاست دان، اعلیٰ افسران اور ملٹی نیشنل کے مالکان کے ساتھ گپ شپ لگانے کا نہ صرف موقع ملتا ہے بلکہ کوئی خبر ہاتھ لگنے سےمنتھلی بھی مقرر ہو جاتی ہے۔ اور کچھ صحافی حضرات تو ان افراد کے آلہ کار اور خوشامدی بننے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ اور اگرمنتھلی نہ ملے تو من گھڑت کہانیوں اور خبروں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
جرنلزم کی ڈگری کے دوران یعنی کے زمانہ طالب علمی میں ہمارے ایک استاد محترم ایک لطیفہ کیا خوب سنایا کرتے تھے کے ایک صحافی تھے پورا دن خبریں اکھٹی کرکے اپنے آفس کو لوٹ رہے تھے کہ راستے میں ایک پولیس اسٹیشن بھی آیا۔ صحافی صاحب کا شما ر بھی پاکستان کے اعلیٰ معیار کے عزت دار صحافیوں میں ہوتا تھا اور چل دیے پولیس اسٹیشن کے اندر اور موقع پر موجو د ڈیوٹی افسر سے بولے آپ کے پولیس اسٹیشن کی حدود میں رہزانی کی وردات ہو گئی ہے اور چونکہ میرا تعلق شعبہ صحافت سے ہے تو فوری ایکشن نہ لینے پر یہ خبر اگلے دن کے اخبار میں شائع ہو کر سرکل کے اعلیٰ افسر کی ٹیبل پر ہو گی۔ ڈیوٹی افسر نے معاملے کو رفع دفعہ کرنے میں ہی غنیمت جانی اور لین دین کر کے جان بخشی کی۔
پاکستان میں صحافت کے شعبہ میں تیسرا بڑا مسئلہ صحافتی اداروں کے مالکان کا اپنے ملازمین کا خیال نہ رکھنا، ٹائم پر تنخواہ ادا نہ کرنا اورمالکان کی جانب سے ادارے میں کام کرنے والے صحافی حضرات ا ور دیگر عملہ پر دباؤ ڈالنا کہ ریٹنگ کے لئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہ کرنا۔ جب صحافت کے میدان میں آیا تو نزدیک سے سینکڑوں صحافیوں کے معاشی معاملات جاننے کا موقع ملا۔ اکثر سوچا کرتا تھا کہ پاکستان میں ایک صحافی کی تنخواہ دس پندرہ ہزار ہے او ر وہ بھی بروقت نہیں ملتی تو ان کا گزر بسر، گھر کا کرایہ، ماہانہ کچن کا خرچہ ، بچوں کی فیس اور موٹر سائیکل کا روزانہ کا پٹرول ۔۔۔۔ بلاآخر اس کا جواب بھی مل ہی گیا ۔۔
شعبہ صحافت میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی جہاں شدید قلت ہے تو دوسری جانب رسمی پر یکٹس کی وجہ سے کیا شعبہ صحافت اتنے سارے ٹی وی چینلز اورمقابلے کی رجحان کی وجہ سے اچھی روایات پر پروان چڑھ سکتی ہے ؟ کیا مقابلے کی دوڑ اور اپنے ذاتی مقاصد کے لئے شعبہ صحافت کا مذاق اڑانے والے مالکان اورنام نہاد صحافی حضرات کا شمار بھکاریوں میں نہیں ہوتا؟ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
صہیب خان ڈاٹ پی کے
2 Comments