علی احمد جان
کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ ایک عرصے سےزیر التوا رہا ہےجس کی وجہ سے شہر میں رہنے والے لوگوں کے آمد و رفت کے مسائل میں اضافہ میں ہوا ہے ۔ ہیں ۔ ایک بار جب امداد یا قرضہ دینے والے اداروں کے لوگوں سے اس پر بات ہو ئی تو پتہ چلا کہ سب سے سستا اور آسان قرضہ دینے والے ایک ادارے نے حکومت کی طرف نےریلوے ٹریک کے رائٹ آف وے (حدود) سے قانونی اور غیر قانونی آبادی کے ہٹانے اور دوبارہ آباد کاری کےمسائل کا کوئی مستند اور دیر پا حل تجویز نہ کرنے پر اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا۔
اب جب دوبارہ اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا ہے تو ایک طرف صوبائی حکومت اور ریلوےکے محکمے کے درمیان زمین کی ملکیت پر کھینچا تانی جاری ہے تو دوسری طرف ریلوے کے ٹریک کے ساتھ ساتھ رہائش پذیراس منصوبے سے متاثر ہونے والے لوگوں میں ایک بے چینی پائی جاتی ہے جو کبھی بھی مزاحمت کی سطح تک پہنچ کر اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے ۔ چونکہ یہاں ایسے لوگ ایک بڑے عرصے سے رہائش پذیر ہیں جن کے پاس دوسرا ٹھکانہ نہیں وہ اس منصوبے کی وجہ سے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔
سنہ۱۹۸۴ میں جب ہندوستان کے شہر دلی میں میٹرو ٹرین چلانے کا منصوبہ بنا یا گیا تو اس کی بھی بڑی زوروں سے مخالفت کی گئی تھی۔ ہندوستان میں سیاسی جماعتیں زیادہ سرگرم اور سول سوسائٹی ہمارے ہاں سے زیادہ متحرک ہے جو کلکتہ کے ریلوے کے منصوبے کے تلخ تجربے کو دہرانا نہیں چاہتے تھے۔ اس سے پہلے کلکتہ کے ریلوے کے منصوبے کی تکمیل میں بارہ سال لگے تھے جس کی وجہ سے شہر کے لوگوں کو جو تکالیف اٹھانا پڑی تھیں اس کی ایک الگ داستان ہے۔
دہلی کے میٹرو ریلوے کے لئے ۱۹۹۵میں ایک نئی حکمت ترتیب دی گئی جس کے تحت اس منصوبے کو ایک خود مختار ادارہ بنا کر چلانے کا فیصلہ ہوا ۔ ایک دیانتدار اور قابل انجینئر کو مکمل اختیارات کے ساتھ اس کا سربراہ لگایا گیا جو براہ راست صرف وزیر اعظم کو جواب دہ تھا۔ ایک بار کسی وزیر کی طرف سے مداخلت پر اس نے اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو پیش کیا جووجوہات بتانے پر منظور نہیں ہوا مگر جس کے بعد کبھی پھر کسی وزیر یا مشیر کو مداخلت کی جرات بھی نہ ہوئی۔
سنہ ۱۹۹۸ میں منصوبے پر کام شروع ہوا اور ۲۰۰۲میں صرف چار سال بعد اس کے ایک ٹریک پر ٹرین چلنا بھی شروع ہوئی۔ اس کا مقابلہ ہمارے ہاں لاہور کے سنگل لائن اورینج ٹرین یا میٹرو سے اس لئے نہیں ہو سکتا ہے کہ دونوں کی نوعیت میں بہت زیادہ فرق ہے۔
اس منصوبے کی تکمیل کے دوران کوئی ایسی شکایت نہیں ملی جس کی وجہ سے کلکتہ کے ریلوے کو بارہ سال لگے تھے۔ دہلی میٹرو ریلوے میں حکومت کی طرف سے مالی وسائل کی فراہمی اور منصوبہ کے چلانے والوں نےاس کی بروقت تکمیل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
شہریوں کو ٹریک کے تعمیر کے دوران ایک کلو میٹر سے سے زیادہ ٹریفک کو موڑنے کی زحمت نہیں دی گئی اور نہ ہی اس سے کسی کو شور و غل یا گرد و غبار کی شکایت ہوئی ۔انڈیا میں اس منصوبے کی بڑے پیمانے پر جے جے کار ہوئی اور ملک کی دیگر ریاستوں سے اس منصوبے کے وہاں بھی دہرانے کے مطالبات آنے لگے۔ اقوام متحدہ نے اس منصوبے کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک قرار دے کر اس کو کاربن کریڈت کا مستحق قرار دیا ۔
ہم دہلی کے میٹرو ٹرین کے منصوبے کے تکنیکی پہلوؤں پر بات نہیں کریں گے کیونکہ ترقی پزیر ممالک میں عموماً ترقیاتی منصوبے تکنیکی اعتبار سے قابل عمل ہونے کے باوجود بھی بعض ناگزیر سماجی عوامل کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ اگر منصوبہ سازپہلے سے ہی ان سماجی عوامل کا جائزہ لیں جن کی وجہ سے کلکتہ کے ریلوے کا منصوبہ یا ہمارے ہاں ایسے منصوبے ناکامی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان کا ایک پائیدار حل تلاش کریں اور اس پر عمل کریں تو کسی بھی منصوبے کے کامیاب نہ ہونے کے امکانات بہت کم ہو سکتے ہیں۔
شہری علاقوں میں ایسے منصوبوں کے لئے سب سے پہلی مشکل مجوزہ منصوبے کے لئے اراضی کا حصول ہوتاہے۔ ہمارے ہاں بشمول انڈیا کے سرکاری منصوبوں کے لئے حصول اراضی کا قانون۱۸۹۴ میں بنایا گیا تھا جو آج سوا صدی بعد کے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مختلف ادوار میں کی جانے والی ترامیم اوراعلیٰ عدالتوں کے دئے گئے فیصلوں کی روشنی میں اب یہ قانون ایسی ٹیڑی کھیر بن چکا ہے کہ اس کے تحت کسی کو ایک دفعہ عدالت میں جانے کے بعد واپسی کا راستہ بھی نہیں ملتا۔
اچھی منصوبہ بندی کا تقاضا ہے کہ کسی بھی منصوبے کے منفی اثرات سے کم سے کم لوگ متاثر ہوں۔ اگر لوگوں کی بے دخلی ناگزیر ہو تو ایسے اقدامات کئے جائیں کہ اس کے لوگوں کے میعار زندگی پر منفی اثرات کم سے کم ہوں۔ ایسے لازمی اقدامات میں لوگوں کے نقصانات کا صحیح تخمینہ اور ازالہ شامل ہے۔
کسی بھی مثالی منصوبے کے لئے سب سے پہلے حصول اراضی کے دوران زمین کی لاگت کا تعین صرف محکمہ مال کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جاتا ہے۔ قیمتوں کے تعین کے دوران علاقہ معززین ، غیر سرکاری تنظیموں ، وکلا، صحافیوں اور زمین کا کاروبار کرنے والے لوگوں سے مشاورت کی جاتی ہے۔ زمین کی قیمت کا تعین کرتے وقت زمین کی رائج قیمتوں کو مد نظر رکھ کر اس کے برابر یا اس سے زیادہ لاگت لگائی جاتی ہے۔ اگر رائج قیمت کا تعین نہ ہوسکے تو لاگت اتنی لگائی جاتی ہے کہ جو لوگوں کے نقصان کا ازالہ کرسکے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے حصول اراضی کا قانون ان سب باتوں کی اجازت دیتا ہے اور جو قانون کی حدود کا بہانہ بناتے ہیں وہ یا تو نالائق ہوتے ہیں یا پھر ان کی نیت میں فتور ہوتا ہے۔
زمینوں، مکانات کی پیمائش اور دیگر املاک کی گنتی میں محکمہ مال کے اہلکار عموماً لوگوں کو تنگ کرتے ہیں یا اپنے مفاد کی خاطر متعلقہ محکمے کو نقصان پہنچا تے ہیں۔ اسکو روکنے کا آسان حل یہ ہے کہ جب اہلکار پیمائش یا گنتی مکمل کریں تو شفافیت کے لئے دوسرے لوگوں کی موجودگی میں اس عمل کو دوبارہ دہرایا جائے۔ اس میں پیمائش کے ساتھ مکانات یا دیگر املاک کی ساخت اور درجہ بندی کے صحیح ہونے کو بھی دیکھا جائے۔ ایسا کرنے سے لوگوں کا عتماد بڑھ جاتا ہے۔ یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ جب لوگوں کا اعتماد حاصل ہو تا ہے تو مشکلات کم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
اس کے بعد کا مرحلہ نقصانات کے ازالے کی رقم کی ادائیگی کا ہوتا ہے جو زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے۔ یہ مرحلہ اس لئے بھی مشکل ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ کم تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے پاس زمین یا دیگر املاک کے ملکیتی کاغذات مکمل نہیں ہوتے جس کے لئے متاثرین کو دفتروں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ بڑے حجم کے منصوبوں کے لئے محکمہ مال کا ایک خصوصی دفتر کھولا جاتا ہے جس میں ایک تحصیلدار کے برابر کے افسر کو متعین کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عوامی شکایات کے سننے اور ان پر عمل کرنے کرنے کا ایک واضح اور شفاف طریقہ کار بنایا جاتا ہے ۔ یہ سب ہمارے ہاں نیشنل ہائی وئے اتھارٹی میں بڑے نوعیت کے منصوبوں کے لئے پچھلے کئی سالوں سے رائج ہے اور لاہور میٹرو کے پراجیکٹ کے لئے بھی یہ طریقہ کار اپنایا گیا تھا۔
اراضی کے حصول کے دوران غیر قانونی قابضین سے جگہ خالی کروانا ایک بڑا سماجی اور سیاسی مسئلہ بن جاتا ہے۔ غیر قانونی قابضین کے حق میں سماجی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں زیادہ سرگرم عمل ہوتی ہیں۔ مالکانہ حقوق سے قطع نظر ریاست کی زمہ داری ہے کہ اس کے کسی اقدام سے کسی شہری کی مشکلات میں اضافہ نہ ہو ۔ اس اصول کے تحت اچھے مثالی منصوبوں میں تمام غیر قانونی قابضین کی رجسٹریشن کے لئے ایک حتمی تاریخ مقرر کرکے اس کی تشہیر کی جاتی ہے ۔ تمام قابضین کے نقصانات کی تفصیلات تیار کرکے اصل متاثرین کو ایک شناخت نامہ ایشو کیا جاتا ہے۔اس حتمی تاریخ کے بعد دعویٰ کرنے والوں کی شنوائی نہیں ہوتی ہے اس میں سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو متاثرین کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
رہائشی مکانات کے نقصانات کے ازالے کے لئے دو طریقے اپنائے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ متاثرین کو مکانات تعمیر کر واکر ان کو دوبارہ بسایا جائے۔ یہ بھی دنیا پھر میں آزمودہ مستند طریقہ ہے مگر یہ طریقہ کار اس سے پہلے کراچی کے لیاری ایکسپریس وےکے متاثرین کے لئے آزمایا گیا تھا جو ناکام ثابت ہوا جس کی کئی وجوہات ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ان کو نقصانات کی قیمت ادا کی جائے اور لوگ اپنا بندوبست خود کریں۔ اس میں بھی اچھے اور برے پہلو دونوں ہیں اس لئے دونوں طریقہ کارمیں کسی ایک کا انتخاب کرنے کا حق صرف متاثرین کو دیا جاتا ہے۔
ایک مشکل کام غیر قانونی اور غیر روایتی کام کرنے والوں کی دوبارہ آباد کاری ہے۔دہلی کے میٹرو کے منصوبے کو دنیا بھر میں صرف اس بنا پر بھی سرہاہا گیا کہ اس سے ایسے لوگوں کے میعار زندگی میں بڑا فرق آگیا ہے۔ جو غیر قانونی مکان، جھگی یا کھولی پر قابض تھا اب ایک بہتر مکان کا قانونی مالک بن گیا ہے۔ جو بھیک مانگتا تھا اب کسی اور باعزت کام سے وابستہ ہوگیا ہے اور جو گاڑیاں صاف کر رہا تھا اب میڑو کے پلوں کے نیچے گاڑیوں کی پارکنگ کے ٹکٹ دے کر اس پر کمیشن وصول کر تاہے۔جوپولیس کو بھتہ دے کر ٹھیلے اور چھابڑی لگاتےتھے اب اپنی دکانوں میں دستکاری کی مصنوعات بیچتے ہیں۔
یہ کام بھی اتنا مشکل نہیں کیونکہ کراچی میں کئی ایسی غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو یہ کام پہلے سے کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کو اس کام میں شامل کیا جائے اور ان کی ہر سطح پر نگرانی کی جائے تو اس سے ایک طرف متاثرین کی باعزت آباد کاری ہو جائیگی اور دوسری طرف ملک سے غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی جو ہر سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہے۔
ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیئے کہ ہر ترقیاتی منصو بہ ایک کاروبار ہوتا ہے جس کے قابل عمل ہونے کا تعین اس سے حاصل ہونے والا منافع کرتا ہے۔ سرکاری منصوبوں میں مالی منفعت کے ساتھ سماجی اور سیاسی نفع بھی ہوتا ہے جس میں نقصان کو کوئی بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا ۔ اگر سماجی شعبے کو بھی فائدہ مند بنا دیاجائے تو وہ خود بخود سیاسی نفع میں بدل جاتا ہےجس کا کریڈٹ ہمیشہ حکومت کو ہی جاتا ہے مگر مستفید پورا ملک ہوتا ہے ۔
اگر اس منصوبے کو کاربن کریڈٹ نہ بھی ملیں تو کم از کم کراچی شہر کی آلودگی کم کرنے میں مدد ملے گی جومتبادل سفر کرنے والوں کی بسوں، رکشوں، کاروں اور موٹر سائیکلوں سے نکلنے والے دھویں کی شکل میں پھیل رہی ہے۔
دہلی کے میٹرو کو ایک مثالی پروجیکٹ بنانے والے یورپ، امریکہ، اسٹریلیا، جاپان یا چین سے نہیں آئے تھے بلکہ وہی کے لوگ تھے جنھوں نے بعد میں کہا کہ انھوں نےایسا کچھ نہیں کیا جو قابل ذکر ہو مگر وہ بھی نہیں کیا جس کی وجہ سے کلکتہ میں ناکامی ہوئی تھی۔ ناکامی ہمیشہ غلطی دہرانے سے ہوتی ہے غلطیوں سے سیکھنے سے ہمیشہ کامیابی ملتی ہے ۔ ہمارے پاس بھی غلطیاں بہت ہیں جن سے سیکھا جاسکتا ہے۔
♣