پروفیسر محمد حسین چوہان
برطانیہ ،آزاد کشمیر کے سیاسی راہنماوں کا ایک سیاسی و سماجی کلب ہے،کیونکہ آزاد کشمیر کے آٹھ لاکھ کے قریب افراد یہاں بستے ہیں،ہمارے سیاسی راہنماوں کا نہ صرف ان کے ساتھ سیاسی تعلق ہے بلکہ خاندانی مراسم وتعلقات بھی ہیں،جس کی بنا پر کشمیری سیاستدان برطانیہ کو اپنی محفوظ پناہ گاہ بھی سمجھتے ہیں،برطانیہ میں آباد کشمیری کمیونٹی اپنے سیاستدانوں کا نہ صرف استقبال کرتی ہے،بلکہ ان کی ضیافت و مہمانداری میں بھی کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتی۔
کشمیر کے مسئلے میں کشمیریوں نے بڑھ چڑھ کر ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے۔کشمیری کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو ان کا پیدائشی و فطری حق سمجھتے ہیں،کشمیریوں کی آزادی کے لئے برطانوی کشمیری ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔بھارت کے ظالمانہ تسلط سے کشمیریوں کو آزادی دلوانے کے لئے برطانوی کشمیریوں میں مکمل اتحاد دیکھنے میں نظر آتا ہے۔انسان کی فطری و پیدائشی آزادی کی عملی شکل انہوں نے برطانوی سماج میں دیکھی ہے،اس بنا پر کشمیریوں کی قومی آزادی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لئے لڑی جانے والی جنگ اور ہر کوشش میں برطانوی کشمیری سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
حالیہ آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان کے بر طانیہ کے دورے میں جو کشمیر کاز کے لئے تشریف لائے،اگر نجی دورہ بھی ہوتا تو وہ پھر بھی کشمیر کی نمائندگی کر رہے ہوتے،مگر جس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ انہوں نے کیا اور بغیر سوچے سمجھے محفل سرود ونشاط میں اپنی ذات سے بیگانہ ہوگئے،نے بھارتی میڈیا پر آگ لگا دی کہ دیکھو کشمیر کی آزادی کے متوالے ایک طرف شمشیر و سناں اور تیغوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں کے راگ الاپتے ہیں،اور دوسری طرف برطانیہ میں جا کر ناچ و مجروں کی محافل سجاتے ہیں،نے مقامی کشمیری برادری میں بد اعتمادی پیدا کی ہے۔
دشمن کو افواہ پھیلانے کا موقع مل گیا ہے۔سرحد کی دوسری جانب آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیری بھائیوں کے دلوں میں بھارتی میڈیا نے بد اعتمادی کی فضا پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،اور ہر طرح کی مغلظات و الزام تراشیوں سے بیس کیمپ کے راہنماوں کی شخصیتوں پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی۔کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے بارے میں نہ صرف بھارتی میڈیا بلکہ دنیا بھر کے آزادی پسندوں کا تصور ہے کہ کشمیری ایک سخت کوش مجاہد قوم ہے،یہ بکنے اور جھکنے والے نہیں یہ کردار کے غازی ہیں۔
حوروں کو بھی شکائیت کہ کم آمیز ہے مومن کی زندہ مثال ہیں، مگر صدر صاحب نا تجربہ کاری کی بنا پر اس سازش کا شکار ہوگئے۔اس معاملہ میں کشمیری نمائندوں کو حزم و احتیاط سے کام لینا چائیے۔کہتے ہیں جرم اگر لطیف پیرائے میں کیا جائے تو وہ جرم نہیں رہتا۔بقول شاعر شرط ہے سلیقہ ہر اک امر میں۔عیب کرنے کو بھی ہنر چائیے،مگر صدر صاحب کو تو ان کی ناتجربہ کاری مار گئی۔ ویسے بھی بھارتی میڈیا کو صدر صاحب اور کشمیری لیڈروں کی پگڑی نہیں اچھالنی چائیے صدر صاحب کا تعلق کشمیر کے ایک حسین خطے راولاکوٹ سے ہے،انہوں نے بھارتی رقصاؤں کے رقص سے محظوظ تو ہوئے لیکن میڈیا میں تماشا بن گیا۔
ہم تو اس سلسلے میں بیرسٹر سلطان محمود کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر کشمیر کاز کو روشناس کرانے میں ان کا اہم کردار ہے۔بیرسٹر صاحب انگریزی تہذیب و ثقافت سے بخوبی واقف ہیں ، ان کی شخصیت سیدھی سادھی ہے۔انہوں نے اپنے اوپر کبھی تقدیس کا غلاف نہیں اوڑھا۔لبرل بھی ہیں اور ترقی پسند بھی مگر کشمیر کاز کو وہ نہ صرف برطانیہ بلکہ یورپی پارلیمنٹ میں بطور احتجاج اجاگر کر انے میں کامیاب رہے۔انہوں نے ملین مارچ کر کے ایک مثال قائم کی،یورپ میں کشمیر کے مسئلہ اور بھارتی مظالم کے خلاف انہوں نے جو آواز بلندکی آج تک کسی موجودہ کشمیری راہنما نے نہیں کی،جتنے افراد وہ اکھٹے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اتنے کشمیر کا کوئی بھی سیاستدان نہیں کر سکتا۔
کشمیر کی آزادی و حق خود ارادیت کے لئے انہوں نے جو جدو جہد کی،وہ قابل ستائش ہے،نہ وہ حکومت میں ہیں اور نہ ہی کسی عوامی عہدے پر فائز مگر ان کی کاوشیں قابل ستائش ہیں،مقبوضہ کشمیر میں بیرسٹر صاحب کی بطور فریڈم فائٹر جو مقبولیت حاصل ہے وہ کسی دوسرے آزاد کشمیر کے راہنما کو حاصل نہیں۔ اب انہوں نے اپنی زندگی نہ صرف کشمیر کی آزادی کے لئے وقف کر رکھی ہے ،بلکہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پراصلاحی سیاست کا بیڑا بھی اٹھایا ہے ۔برطانیہ کے تہذیبی و ثقافتی مظاہر میں وہ بھرپو شریک ہوتے ہیں ،مگر اپنے دامن کو کبھی داغ نہیں لگنے دیا یہ ان کی سلیقہ مندی ہے یا احساس ذ مہ داری مگر کشمیر کے مسئلے کی حساسیت کو وہ بخوبی جانتے ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم جناب فاروق حیدر کوجب وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی پر اپنے اقتدار کی چولیں ڈھیلی ہونے کا احساس ہوا،تو بے ساختہ ان کی کشمیر پالیسی بھی بدل گئی جس پر تحریک آزادی پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور آزادی کی وژن صدمے سے دوچار ہوئی پتہ لگتا تھا کہ بیس کیمپ کے کشمیری راہنما موم کی ناک لے کر پیدا ہوئے ہیں ۔اپنی ذاتی فائدے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔آزادی کے علمبرداروں کو ہمیشہ اپنے قول و فعل ،رویے اور کردار کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔آزادی کی جنگ صرف مادی طاقت سے نہیں لڑی جاتی بلکہ قوت کردار سے بھی لڑی جاتی ہے۔لیڈر کا کردار مثالی ہوتا ہے اور عوام اس کی پیروی کرتے ہیں۔
بیس کیمپ کو آزادی کا بیس کیمپ اس وقت تک نہیں بنایا جا سکتا،جب تک ہم ایک منصفانہ نظام کی بنیاد نہیں رکھتے۔برادری اور علاقائی ازم کی سیاست کو ختم نہیں کرتے۔بد انتظامی اور بدعنوانی کا قلع قمع نہیں کرتے۔اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک نہیں کرتے۔سیاسی انتقام کی روش سے باز نہیں آجاتے۔میرٹ اور مقابلے کی فضا پیدا نہیں کرتے۔کشمیر کے خطے سے بیروزگاری کے خاتمے کے لئے بیرونی ممالک میں مقیم باثروت کشمیریوں کے لئے کاروبار کا مناسب ماحول پیدا نہیں کرتے۔ان کے لئے لیز پٹے پر بزنس سائیٹ کا اہتمام نہیں کرتے اور سرخ فیتے سے نجات نہیں دلاتے۔
سرمایہ کاری سے لاکھوں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گئے۔سروس سیکٹر میں انقلاب آئے گا۔آزاد کشمیر کا خطہ بیس کیمپ کی ایک حقیقی مثال بنے گا۔معاشی ترقی اور روزگار کی فراہمی سے نہ صرف سیاحت میں اضافہ ہوگا بلکہ حکومتی خزانے میں ریونیو بھی آئے گا۔آزاد منڈی کا بنیادی تصور یہی ہے کہ اپنے ملک کی ایک ایک انچ زمین اور وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔
♥