بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان میں دائیں بازو کے دانشور اپنی دانست میں سیکولر ازم کے خلاف لڑائی جیت چکے ہیں۔ اب ان کا اگلا نشانہ لبرل ازم اور لبرل لوگ ہیں۔ یعنی آزاد خیالی اور آزاد خیال لوگ ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے سے ہمیں اردو ذرائع ابلاغ میں لبرل فاشسٹ،کرائے کے لبرل اور لنڈے کے لبرل جیسے الفاظ کثرت سے دیکھائی دینے لگے ہیں۔
اگرچہ دائیں بازو کی طرف سے سیکولرازم کے خلاف لڑائی جیتنے والی بات کو میں قدامت پرستوں اور بنیاد پرستوں کی خوش فہمی ہی مانتا ہوں۔ یہ ایک طویل اور مسلسل لڑائی ہے جس کا فیصلہ چار چھ دھائیوں میں نہیں ہو سکتا۔ اس لڑائی کی ہا ر جیت کا فیصلہ ایک طویل تاریخی سلسلہ عمل سے گزرنے کے بعد ہی ہوتاہے۔ لیکن اگر انہوں نے اس میدان میں کوئی چھوٹی موٹی کامیابی حاصل کی بھی تو اس وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو زبان میں لفط سیکولرازم کو توڑ موڑ کر گمراہ کن انداز میں پیش کیا۔ اس کا غلط ترجمہ کیا۔ غلط تعریف کی۔
ان لوگوں نے پوری شعوری بدیانتی سے عوام کو بتایا کہ سیکولرازم کا مطلب لا دینیت یا مذہب دشمنی ہے۔ اس طرح کچھ اردو پڑھنے لکھنے والے لوگ جو کسی مسئلے پر تحقیق و جستجو سے کتراتے ہیں وہ بنیادپرستوں اور قدامت پسندوں کی سنی سنائی باتوں میں آگئے۔ اب یہ لوگ یہی آزمودہ نسخہ لبرل ازم کے خلاف بھی استعمال کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اب عام آدمی کو بتاتے ہیں کہ آزاد خیال آدمی وہ ہے جو دیسی زبان میں مادر پدر آزاد ہے۔ جس کا کوئی دین ایمان نہیں۔ جو کسی اخلاقیات پر یقین نہیں رکھتا۔ جس کا کوئی اصول نہیں۔ جو بے راہ روی کو اچھا سمجھتا ہے۔ جو معاشرے میں فحاشی اور عریانی کو برا نہیں سمجھتا۔ جو خدا کو نہیں مانتا۔ جو مغرب پرست ہے۔
گویا ہمارے قدامت پرست مذہبی سماج میں ہر وہ چیز جس کو تاریخ میں کئی برا سمجھا جاتا رہا ، یا سمجھا جا رہا ہے کو نا حق آزاد خیال آدمی کے ساتھ جوڑدیا گیا۔ اور اس طرح بڑے پیمانے پر یہ جھوٹ پھیلا کر عام آدمی کو آزاد خیال لوگوں سے متنفر کیا جا رہا ہے۔ اس ساری کیفیت کو اس پرانے لطیفے کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے جس میں پنجاب کے کسی محلے میں کسی سکھ دوکاندار سے کوئی بدلہ چکانے کے لیے یہ مشہور کر دیا گیا تھا کہ سکھ وہابی ہو گیا ہے۔ اور محلے کے مسلمانوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کہ جب سکھ مسلمان ہی نہیں تو وہابی کیسے ہو سکتا ہے اور اس کی دکان کا بائیکاٹ کر دیا۔
شعوری بددیانتی پر مبنی یہ گمراہ کن مہم کوئی خصوصی طور پر آزاد خیال آدمی یا آزادخیالی کے خلاف نہیں بلکہ اس مہم کا اصل نشانہ ہر قسم کی آزاد سوچ، غور و فکر، روشن خیالی، شہری و انسانی آزادیوں اور سب سے بڑھ کر انسان کی انفرادی آزادیوں کے خلاف ایک باقاعدہ جنگ ہے۔
عوام کو دائیں بازو کی قدامت پرست اور رجعت پسند قوتوں کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حقائق کو بلا کم وکاست عوام تک پہنچایا جائے۔ لبرل ازم یا آزاد خیالی کوئی آوارگی یا بے راہروی کانام نہیں بلکہ یہ ایک با قاعدہ سنجیدہ سیاسی نظریہ ہے۔ اس نطرئیے کی بنیاد آزادی اور مساوات پر رکھی گئی ہے۔ یہ نظریہ عالمی ہے جو ہر ملک اور ہر سماج تک پھیلا ہوا ہے۔ چنانچہ مختلف ملکوں کے حالات کے مطابق لبرل ازم کی پالیسیوں، نظریات، اور جدو جہد کی شکلوں میں تھوڑا بہت فرق ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی لبرلز کی غالب اکثریت انسانی آزادیوں پر یقین رکھتی ہے۔ ان میں آزادی اظہار رائے، مذہبی آزادی، سیاسی اور سماجی آزادیاں، شہری آزادیاں، رواداری، جموریت اور جنسی برابری، آزاد منڈیاں اورقانون کی حکمرانی شامل ہے۔
آزادی لبرل ازم کا نقطہ ماسکہ ہے۔ مغرب میں لبرل ازم نے اپنی جہدوجہد کا آغاز ہی مروجہ سیاسی اور سماجی روایات کے خلاف بغاوت سے کیا تھا۔ ریاست اور مذہب کا گٹھ جوڑ ، مطلق العنان بادشاہتیں اور بادشاہوں کا الہامی تصور لبرل ازم کی جدو جہد کا خاص نشانہ رہے ہیں۔ لبرل ازم کے ابتدائی نقیبوں جان لاک اور سٹورٹ مل کے نزدیک سب سے مقدس چیز انسان کی انفرادی آزادیاں ہیں۔ریاست کوکسی قیمت پر فرد کی آزادی سلب کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں ریاست کے ہر خیال اور اقدام کے لیے جواز کی ضرورت ہے۔
یہ لبرل خیالات ہی تھے جو انسانی تاریخ کے تین اہم انقلابات کا باعث بنے۔ اس میں پہلا انقلاب انگلستان کا تھا جس میں شاہ انگلستان جیمز دوم کا تختہ الٹا گیا۔ دوسرا انقلاب عظیم امریکی انقلاب تھا جس میں 1765 سے لیکر1783 کے درمیان مختلف بغاوتوں کے ذریعے تیرہ ریاستوں پر مشتمل ریاست ہائے متحدہ امریکہ قائم ہوئی۔ اور تیسرا فرانسیسی انقلاب تھا جو 1789 سے لیکر1799 تک جاری رہا۔ اس انقلاب نے بادشاہت ختم کی۔ ریپبلک قائم کی۔ لبرل اور ریڈیکل خیالات کے حامل اس انقلاب نے جدید انسانی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا۔
اس سے دنیا بھر میں بادشاہتوں کو شدید جھٹکا لگا۔ بادشاہتوں کی جگہ ریپبلک یا لبرل جمہوریتوں نے لینی شروع کی۔ تاریخ نویس اس انقلاب کو انسانی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں شمار کرتے ہیں۔ ابتدا میں لبرل ازم کانظریاتی مقابلہ قدامت پرستی اوررجعت پسندی سے تھا۔ لیکن بیسویں صدی کی ابتدا میں لبرل ازم کو دو مضبوط مخا لفین سے واسطہ پڑا۔ یہ مخالفین فاشزم اور مارکس ازم تھے۔
لبرل ازم اورمارکسزم کے درمیان آزادمنڈیوں کی تشکیل اورفرد کی آزادی کی حدود کے سوال پراختلاف کے باوجود کئی دوسرے نقاط پراتفاق رہا ہے ۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں لبرل ازم ایک ترقی پسند رحجان کا نام ہے، جو قدامت پرست اور رجعت پسندقوتوں کے خلاف لڑائی میں مارکسسٹ اور ترقی پسند قوتوں کا قدرتی اتحادی ہے ۔اس کے ساتھ مل کر پاکستان میں آزادی ،مساوات اور قانون کی حکمرانی کی مشترکہ لڑائی لڑی اورجیتی جا سکتی ہے۔