محمد شعیب عادل
پچھلے کچھ سالوں میں بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے قتل کے واقعات رونما ہونا شروع ہو گئے ہیں۔حالیہ واقعات سے پہلے بھی تربت (بلوچستان) میں بیس مزدوروں کو صرف اس لیے قتل کر دیا کہ ان کا تعلق پنجاب (کچھ کا سندھ) سے تھاکیونکہ پنجابی ایسٹیبلشمنٹ، یعنی پاک فوج، بلوچوں کے قتل و غارت میں ملوث ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیم، بلوچ لبریشن آرمی نے پہلے بھی قبول کی تھی اور اب بھی۔معصوم افراد کا قتل چاہے ریاست کی طرف سے ہو یا کسی تنظیم کی طرف سے، انتہا ئی قبل مذمت فعل ہے۔
پنجابیوں کے قتل کے بعدقومی میڈیا میں بلوچ انتہا پسندوں کی مذمت میں اضافہ ہوجاتاہے اور پنجابی بے چارے مظلوم قرار پاتے ہیں۔ پنجابی لکھاری مسلح جدوجہد کے خلاف لکھنا شروع جاتے ہیں اور بتاتےہیں کہ اس سے پاکستان کی سالمیت برقرار نہیں رہ سکتی۔ پاکستان شاید واحد ملک ہے جس کی سالمیت ستر سالوں بعد بھی ڈانواں ڈول ہے۔
اس واقعے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے فوراً حرکت میں آجاتے ہیں اور ان مزدوروں کے قتل میں ملوث افراد کو مقابلے میں مار دیا جاتا ہے۔جس پر تبصرہ کرتےہوئے وقاص گورایہ لکھتے ہیں کہ” جب کراچی میں کوئی واقعہ ہوتا ہے تو رینجرز کراچی میں کسٹڈی سے چار بندے نکال کر پھڑکا دیتے ہیں کہ ہم نے بندے ڈھونڈھ کر پھڑکا دئے۔ اسی طرح پولیس اشتہاریوں اور ڈکیتوں پر نظر رکھتی ہے ۔ جب خانہ پری کرنی ہو دو بندے پھڑکا دئے۔ فوج بھی بالکل ایسے ہی کرتی ہے۔ حملہ ہوتا ہے اور کچھ ہی گھنٹوں میں بندے پھڑکا کر انکی فوٹو آ جاتی ہے۔ اسکے کئی فوائد ہیں۔ ایک تو اپنی نالائقی چھپ گئی اور عوام میں واہ واہ۔ دوسرا آفیشلی کیس کلوزڈ ۔اب عدالت یا حکومت کی طرف سے اس پر پوچھ گچھ نہیں ہو گی کیونکہ کیس بند ہے اور تیسرا ایک قبائلی طریقے سے بتایا جاتا کہ ہم بھی قانون سے ماورا ہیں۔ تم اگر کسی کو مارو گے تو ہم بھی بدلے میں رینڈم بندہ مار دیں گے۔اور عوام کو دیکھا جائے تو انکو اس جہالت اور لاقانونیت سے کوئی مسئلہ نہیں”۔
بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا کہنا ہے کہ ہمارا ٹارگٹ پاکستان آرمی یا ان کے منصوبوں پر کام کرنے والے افراد ہیں۔ مرنے والے افراد فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن کے ساتھ کام کر رہے تھے اور اگر یہ ان کا کام نہیں کررہے تھے تو ایف ڈبلیو او ان کی حفاظت کیوں کر رہی تھی۔بلوچستان میں پچھلے پندرہ سالوں سے علیحدگی پسندی کی تحریک ایک بار پھر زور پکڑ چکی ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلوچ نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادکو، جن کے بارے میں ذرا سا بھی شک ہو کہ وہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے، اغوا کرلیا جاتا ہے۔بغیر کوئی مقدمہ چلائے انہیں حراست میں رکھا جاتا ہے اور دوران حراست ان پر بے ہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے اور کچھ عرصے بعدان میں سے کچھ کی تو مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں کچھ کی لاشیں اجتماعی قبر سے مل جاتی ہیں ۔ باقیوں کا کوئی علم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ کے ڈائرکٹر ایڈو کیسی ٹی کمار نے پاکستان کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ بلوچ عوام کے اغوا، تشدد اور قتل میں ملوث ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ اس کا نوٹس لیا جائے۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز جو لاپتہ جوانوں کی رہائی کے لیے پرامن احتجاج کرر ہی ہے کے مطابق بیس ہزار بلوچ لاپتہ ہیں۔
ویسے پنجابی خوش قسمت ہیں کہ ان کے قتل کی ملکی میڈیا پر خبر بھی چھپ جاتی ہےاور لکھاری لوگ اس کی مذمت بھی کرتےہیں جبکہ بلوچستان میں پچھلے پندرہ سالوں میں کتنے اغوا ہوئے؟ کتنے لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں؟ ماما قدیر کے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا؟ بلوچ خواتین جن کے بھائی اور باپ اغوا ہوئے ہیں ان کا دکھ کیا ہے؟ وہ قومی میڈیا میں جگہ نہیں پاسکتا۔
وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز پچھلے کئی سالوں سے کراچی پریس کلب سمیت پورے ملک میں پرامن احتجاج کررہی ہے مگر افسوس کے کوئی حکومتی ادارہ یا ’’آزاد عدلیہ‘‘ ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بارہا ان زیادتیوں پر آوا ز اٹھائی ہے مگر ریاست، آزاد عدلیہ اور میڈیا ان مظالم پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ریاستی ادارے اور میڈیا صرف اس وقت بولتے ہیں جب پنجابیوں کو نشانہ بنایا جائے۔
بلوچستان میں اس وقت کئی علیحدگی پسند گروپ ریاست کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ڈاکٹر اللہ نذر( جو پیشے کے اعتبار سے فزیشن ہیں)کے مطابق اپریل میں پاک آرمی نے مشکے کے علاقے میں دو سو مکانات کو جلا دیا جس میں پچیس معصوم افراد مارے گئے۔اللہ نذر نے کہا کہ پاکستان آرمی نے مزدورں کے قتل میں ملوث بی ایل اے کے جن تیر ہ افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے وہ غلط ہے۔ پانچ لاشیں دکھائی گئی تھیں جس میں سے ایک حیات بلوچ کی لاش تھی جسے بی ایل اے کا کمانڈر بتایا گیا۔ حیات بلوچ دو سال پہلے کمر میں گولی لگنے کی وجہ سے معذور ہو چکا تھا اور گھر میں مقیم تھا جبکہ چار افراد کا تعلق لاپتہ افراد سے ہے ۔
سنہ2002میں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں میری ملاقات ایک دبلے پتلے شخص، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ،سے ہوئی تھی۔ اس نے بلوچ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی ایک لمبی تفصیل بتائی۔ چند ماہ بعد پتہ چلا کہ ڈاکٹر اللہ نذر کو ایجنسیوں نے اغوا کر لیا ہے ۔ اس کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ بلوچ عوام کو ان کے حقوق سے روشناس کرواتا تھا۔ سال ڈیڑھ بعد اللہ نذر اس وقت دوبارہ منظر عام پر آئے جب اسے شدید زخمی حالت میں پھینک دیا گیا تھا ۔یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ بچ گیا۔
اللہ نذر کا کیا قصور تھا؟ اسے اغوا کیوں کیا گیا؟ دوران حراست اس پر بے ہیمانہ تشدد کیوں ہوا؟ کسی عدالت یا ریاستی ادارے تو دور کی بات کسی پنجابی لبرل یا روشن خیال دانشور نے بھی اس کی تحقیق کرنا ضروری نہیں سمجھا اور یہ سلوک ہر اس بلوچ کے ساتھ ہو رہا ہے جو بلوچ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کرتا ہے۔ رہائی کے بعد اللہ نذر بلوچ نے مسلح جدوجہد کا رستہ اپنا لیا۔
بلوچستان میں پچھلے پندرہ سالوں میں ایک اور اہم تبدیلی بھی آئی ہے۔ باقی صوبوں کی نسبت بلوچستان کے لوگ مجموعی طور پر سیکولر مزاج رکھتے ہیں مگرسیکیورٹی ایجنسیوں نے علیحدگی پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کو فروغ دیا ہے اور بلوچستان میں جا بجا مدرسے قائم کیے گئے ہیں۔ اس وقت طالبان کی ایک بڑی تعداد انہی مدرسوں میں طالب علموں یا امدادی تنظیموں کے روپ میں بیٹھی ہے۔یہ تنظیمیں بلوچستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں بھی ملوث ہیں۔ لشکر جھنگوی کی طرف سے ہزارہ کمیونٹی کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد بھی ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔
سنہ2013 میں جب آواران میں زلزلہ آیا تو لشکر طیبہ (فلاح انسانیت فاؤنڈیشن) یا چند دوسری مذہبی تنظیموں کے علاوہ کسی ملکی یا غیر ملکی امدادی تنظیم کوزلزلہ زدہ علاقوں میں جانے نہیں دیا گیا۔ 2012میں دالبندین سے نیا زمانہ کے نمائندے نے مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں کی تفصیلی رپورٹ بھیجی تھی کہ کیسے وہاں موجود مدرسے سیکیورٹی فورسز کے تعاون سے ان طالب علموں کی مسلح تربیت کر رہے ہیں۔ نیا زمانہ میں اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد اسے اپنی جان بچانے کے لیے اپنا علاقہ چھوڑنا پڑا۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک کا آغاز 1948 میں اسی وقت ہو گیا تھا جب حکومت پاکستان نے ریاست قلات پر فوج کشی کرکے جبری الحاق کیا تھا۔یہی وہ نقطہ ہے جسے پاکستانی یعنی پنجابی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان آرمی پچھلے 68 سالوں سے بلوچوں سے برسرِ پیکار چلی آرہی ہے کبھی اس میں شدت آجاتی ہے اور کبھی کمی۔ملک پر فوجی حکمرانوں کی بدولت بلوچ مسئلے کا پرامن حل ممکن نہیں ہوسکا۔ جب بھی کوئی سیاسی حکومت کسی سیاسی حل کی کوششوں کا آغاز کرتی ہے تو پاک فوج کی طرف سے ایسی کاروائیاں کی جاتی ہیں کہ اعتماد سازی کا عمل صفر ہوجاتا ہے( یہی حال پاک بھارت تعلقات کابھی ہے)۔
بلوچستان کی صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند ریاست کے کسی بھی حکومتی وعدے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں اور مکمل آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔بلوچ سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اگر مقبوضہ کشمیر ( جس پر بھارت نے زبردستی قبضہ کیا ہے )میں استصواب رائے کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ حق مقبوضہ بلوچستان (جس پر پاکستانی ریاست نے زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے ) کے عوام کو کیوں نہیں دیا جاتا؟
پاکستانی ریاست کا نظام پچھلے سرسٹھ سالوں سے ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ جرنیلوں کا اقتدار پر باربار شب خون مارنا ہے ۔ملک کے وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی بجائے ہتھیاروں کے حصول پر ضائع کیے جارہے ہیں۔ہمسایوں سے دوستی کی بجائے انہیں زیر کرنے کی حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں۔ اگر درمیان میں کوئی سیاسی حکومت اقتدار میں آجاتی ہے تو اس کو مختلف طریقوں سے لولا لنگڑا بنادیا جاتا ہے اور اہم فیصلے خود ہی کرتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی جان و مال، آزادی کے ستر سالوں بعد بھی محفوظ نہیں۔
♦
One Comment