ڈی اصغر
گزشتہ ہفتے،ایک چینل کے مشہور و معروف پرگرام میں ایک سینئر صحافی صاحب کا جناب مفتی عبدالقوی کے بارے میں تبصرہ سنا۔ ان صحافی صاحب کی عزت و توقیر کا بندہ اپنے بچپن سے قائل ہے۔ جناب ١٩٧٧ کی المشہور“تحریک نظام مصطفیٰ میں اس وقت کے نوستاروں کے لئے زمین اور آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔ جناب کی حیثیت پاکستانی صحافت میں اہم ستون سی ہے۔ ان کے حالیہ تبصرے میں پنہاں شکایات سی تھیں کہ، جناب مفتی صاحب کو قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ جانے کیوں ہراساں کر رہے ہیں۔ بے چارے مفتی صاحب تو اپنی نیکی میں مارے گئے۔ ان کو خوامخواہ کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ ان کا مقصد تو مرحومہ قندیل بلوچ کو اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کرنا تھا۔
چونکہ ابھی تحقیقات جاری ہیں اور غالباً مفتی صاحب زیر تفتیش ہیں تو ان کے اس قتل میں بلا واسطہ ملوث ہونے یا نہ ہونے پر بندہ اپنا تبصرہ محفوظ رکھنے کی جسارت کا خواستگار ہے۔ مگر بصد احترام جناب سینئر صحافی صاحب ( اشارتأ عرض ہے، جناب کا اسم مبارک ایک عرب ملک سے کچھ نسبت رکھتا ہے) سے یہ گزارش کرنے کی گستاخی چاہتا ہے، کہ وہ کم از کم مفتی صاحب کے رویے پر تو کچھ لب کشائی فرماتے۔ کیا کسی عاقل، بالغ، دینی عالم کوماہ رمضان میں تخلئیے میں کسی نا محرم خاتون سے اور وہ بھی مبینہ طور پر بنا روزے کے ملنا چاہئیے تھا؟
چاہے مفتی صاحب تمام نیک نیتی سے مرحومہ قندیل بلوچ اوران جیسی اداکاراؤں اور ماڈل گرلزکو راہ راست پر لانے کے لئے صدق دل سے بیتاب ہی کیوں نہ ہوں۔ طرہ اس پر یہ کہ جناب مفتی صاحب نے چند ایک قابل مذمت تصاویر بھی مرحومہ کے ساتھ اتروایں جو پھر سوشل میڈیا کے ذریعے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ ان ہی تصاویر کی وجہ سے اور وہ بھی ماہ رمضان میں، بڑی تعداد میں لوگوں کے جذبات مجروح ہوئےاور عوام الناس نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔
اکثر لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ ان تصاویر کی وجہ سے ہی قندیل بلوچ کے بھائی نے مشتعل ہو کر انھیں قتل کر دیا۔ چونکہ یہ معاملہ ابھی بھی تفتیش کے مراحل میں ہے اس لیے اس کی تفصیلات جانے بنا اس پر تبصرہ کرنا بے سود ہو گا۔ ان کے بھائی کے دماغ میں ایسا کون سا خناس سمایا، جو ان کی بے ہوش غیرت اچانک جاگ اٹھی، اور وہ اتنے قبیح فعل کے مرتکب ہوئے۔
مرحومہ قندیل بلوچ سے جناب نے اس ملاقات کے بعد کسی ٹی وی چنیل پر مناظرہ بھی فرمایا اور اس ملاقات کو کوئی اور رنگ دینے کی ناکام کوشش بھی فرمائی۔ سوال یہاں یہ اٹھتا ہے، مفتی صاحب کے مقابلے میں مرحومہ قندیل بلوچ تو کم فہم تھیں، نا تجربہ کار تھیں اور شاید دینی معاملات میں بھی نا سمجھ۔ مگر مفتی صاحب تو عالم تھے، صاحب دین تھے، ان کو کیا ایسی مجبوری ہوئی کہ انہوں نے تنہائی میں محترمہ کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی۔
جناب کے تبصرے سے ایسا تاثر قائم ہوا کہ بیچارے مفتی صاحب کو لینے کے دینے پڑگئے۔ پولیس بھی پھرتی سے ان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی، کیوں کہ وہ ایک عام شہری ہیں۔ کوئی اثرو رسوخ والے ہوتے تو اتنی پریشانی نہ ہوتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مفتی صاحب تخلیے کے بجائے، کسی پروگرام میں اور لوگوں کی موجودگی میں ملے ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھ رہے ہوتے۔ ایک چھوٹی سی خواہش نے انھیں کہاں لا پہنچایا۔ امید ہے کہ اس پر بھی کبھی سینئر صحافی صاحب اپنا گرانقدر تبصرہ کبھی فرمائیں گے۔ مگر وہ کیا ہے جناب راحت فتح علی خان کا ایک بھارتی فلم کے لیے گیا ہوا نغمہ ، جو شاید یہاں صادق آتا ہے۔ “دل تو بچہ ہے جی، تھوڑا کچا ہے جی “۔
♦
One Comment