آصف جاوید
آج پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی میں شہری سندھ کی ایک ہی سیاسی جماعت کے دو منحرف دھڑوں کا انضمام ہوا۔ متّحدہ قومی موومنٹ کو توڑ کر اسٹیبلشمنٹ کی بنائی گئی دو جماعتوں ،فارق ستّار کی متّحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) اور مصطفی‘ کمال کی پاک سر زمین پارٹی نے آج کراچی میں اپنے اشتراک اور لائحہ عمل کا اعلان کرکے سندھ کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی اس کوشش میں کتنا کامیاب ہوگی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ مگر میرے جیسے سیاسی و سماجی علوم کے طالبعلم کے لئے آج کا دن تشویش کا باعث ہے ۔
میں سندھ کا مستقل باشندہ ہوں، میں سندھ میں پیدا ہوا، سندھ میں پلا بڑھا، مجھے سندھ، پاکستان کی طرح اپنی جان سے پیا را ہے۔ میں پورے سندھ میں خوشحالی اور امن کا خواہشمند ہوں۔ سندھ کی ترقّی سے میری اور میرے آگے آنے والوں نسلوں کی خوشحالی وابستہ ہے۔
پاکستان کی قومی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ برِّ صغیر میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے لئے پرزور حمایت میں ایک نمایاں اور طاقتور آواز سندھ اسمبلی کی بھی تھی۔ پاکستان کے قیام کے لئے موجودہ پاکستان کے تمام صوبوں میں سب سے پہلے سندھ اسمبلی سے قرارداد منظور کی گئی تھی۔
مشہور سندھی قوم پرست رہنماء محترم جناب جی ایم سیّد تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ جو بعد میں سندھیوں کے حقوق کے تحفّظ کے جرم میں ریاست کی جانب سے غدّار قرار دے دئے گئے تھے۔
سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے مسلم اقلّیتی صوبوں سے آنے والے مسلمان مہاجروں کی سندھ میں آباد کاری کے بعد سندھ کی ڈیموگرافی نہایت تیزی سے بدلی۔ یہ مہاجر زیادہ تر سندھ کے شہری علاقوں یعنی کراچی، حیدرآباد اور سکھّر میں آباد ہوئے ۔ سب سے زیادہ تعداد کراچی میں آباد ہوئی کیونکہ کراچی اس وقت پاکستان کا دارالخلافہ اور ساحلی تجارتی شہر تھا۔ یہاں کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع زیادہ تھے۔
زیادہ تر مہاجر چونکہ انڈیا میں سرکاری ملازمتوں سے آپشن لے کر آئے تھے، لہذا کراچی میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں مہاجر زیادہ تعداد میں ضم ہوگئے اور ایک طرح سے نئے ملک پاکستان میں مہاجروں کی مصنوعی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ مہاجروں کی اجارہ داری، ممتاز حیثیت، سندھ کے شہروں میں مہاجروں کے اثر رسوخ نے پرانے سندھیوں یعنی فرزندانِ زمین میں عدم تحفّظ کا احساس پیدا کردیا تھا، جو ایک قدرتی ردِّ عمل تھا۔ پرانے سندھی ، مہاجروں سے خائف ضرور تھے، مگر سماجی و ثقافتی انضمام کا قدرتی عمل جاری تھا۔ سندھی اور مہاجر آپس میں محبّت و یگانگت کے رشتوں میں جڑ رہے تھے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب بھٹّو صاحب نے اقتدار سنبھالا تو بھٹّو صاحب سے چند ایسی تاریخی غلطیاں سرزد ہوگئیں، جس کی وجہ سے سندھی اور مہاجر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور آج تک جدا ہیں ۔ اور اسٹیبلشمنٹ کو سندھ اور کراچی میں اپنے پنجے گاڑھ کر سندھ کے مستقل باشندوں کو ” لڑائو اور وسائل و اقتدار پر اپنا قبضہ مضبوط رکھو” کی پالیسی کے تحت اپنا کنٹرول قائم رکھنے کا موقعہ فراہم کئے ہوئے ہیں۔
بھٹّو صاحب نے سندھ کے ساتھ جو تاریخی ظلم کئے ان میں سرِ فہرست سندھ کی لسّانی بنیاد پر شہری اور دیہی تقسیم، سندھ میں دیہی اور شہری غیر منصفانہ کوٹہ سسٹم کا قیام اور سندھ کے تمام تعلیمی اداروں اور صنعتوں کو قومی ملکیت میں لینے کا اقدام شامل ہے۔
اگر اس موقعہ پر بھٹّو صاحب سندھیوں کے تحفّظ اور سندھ کی مجموعی ترقّی میں مخلص ہوتے تو بجائے صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لینے کے جاگیر داری، اور وڈیرہ شاہی کا خاتمہ کرتے۔ اگلے دس سالوں تک سندھ میں لگنی والی ہر صنعت کا رخ دیہی علاقوں تک کرتے اور سندھ کے قدیم باشندوں کی بنیادی و اعلی‘ تعلیم کے لئے تعلیمی و فنّی ادارے کھول کر تعلیم یافتہ مہاجروں کو سندھیوں کی تعلیم وفنّی تربیت پر معمور کرتے اور سندھیوں کو سرکاری ملازمتوں میں داخل کرنے کا سائنیٹفک اور منصفانہ فارمولا تشکیل دیتے، تاکہ سندھی اور مہاجر باہمی یگانگت سے خوشحالی کا سفر طے کرتے۔
مگر بھٹّو صاحب نے نفرت کی بنیاد پر طاقت کا بھرپور استعمال کرکے سندھ کو لسانی بنیاد پر نہ صرف تقسیم کیا، بلکہ مہاجروں کو حقوق سے محروم کرکے سندھیوں کو نوازنے کا غیر منصفانہ طریقہ اختیار کیا۔ 1972 میں قائم کی گئی نفرت کی خلیج اب اتنی واضح ہوچکی ہے کہ سندھ کی سیاست ، قوم پرست سیاست کا روپ دھار چکی ہے۔
پیپلز پارٹی ہو، یا متّحدہ قومی موومنٹ ، دونوں سندھ میں قوم پرستی کی سیاست کرتے ہیں۔ سندھ کی ڈیموگرافی گزشتہ 35 سالوں میں بہت زیادہ تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ ریاستی کنٹرول اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے سندھ میں گزشتہ 35 سالوں سے بڑے پیمانے پر ڈیمو گرافی میں تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ بڑے پیمانے پر زمینوں پر قبضے اور کچّی آبادیوں کے قیام کے بعد پورے پاکستان سے سے لوگ کراچی میں لا کر آباد کئے گئے ہیں۔
اب کراچی ایک کثیر اللّسانی شہر ہے جس کی آبادی 3 کروڑ سے بڑھ چکی ہے۔ پہلے سندھ کے وسائل اور اقتدار کے صرف دو فریق تھے، اب سندھ کے وسائل کے فریق کثیر تعداد میں آباد پشتون، پنجابی، سرائیکی اور بلوچ بھی ہیں۔ اب سندھ کا مسئلہ سندھی مہاجر مسئلہ نہیں رہا۔ یہ کثیر اللّسانی مسئلہ بن گیا ہے۔ اب یہ مسئلہ لسّانی بنیاد کی بجائے تمام قومیتوں کے یکساں حقوق اور وسائل و اقتدار میں منصفانہ باہمی شراکت کے اصول کے تحت ہی حل ہوسکتا ہے۔
سندھ میں موجود تمام قومیتوں کو اپنے تنازعات پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کے لئے آپس میں یگانگت اور احترام کا رشتہ قائم کرنا ہوگا۔ مردم شماری کی بنیاد اور ڈیموگرافیکل سروے کو سامنے رکھ کر معاملات طے کرنا ہونگے۔ نا انصافیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے ، وسائل اور اقتدار میں شرکت کا سائنٹیفک فارمولا تشکیل دینا ہوگا۔ سندھ کے مستقل باشندوں کے درمیان مفاہمت کے عمل کو موثّر کرنے کے لئے اپنے درمیان سے اسٹیبلشمنٹ کو بے عمل اور غیر موثّر کرنا ہوگا، ورنہ اسٹیبلشمنٹ سندھ میں قوم پرستی کا کھیل ، کھیل کر سندھیوں، مہاجروں، پٹھانوں اور پنجابیوں کو آپس میں لڑوا کر حالات خراب کرے گی۔ مفاہمت کے ہر عمل کو سبوتاژ کرے گی۔
اسٹیبلشمنٹ کو سندھ کی بقاء اور ترقّی سے کوئی غرض نہیں اسٹیبلشمنٹ کا مفاد دودھ دینے والی گائے کے تھنوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں ہے۔ ملک کی قومی آمدنی میں کراچی سے اپنا حصّہ وصول کرنے میں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے کھیل جاری رہیں گے۔ بربادی سندھ کا مقدّر بن جائے گی۔ سندھ کے مستقل باشندوں کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ ہی سندھ کو مزید تباہی سے بچا سکتا ہے۔ ورنہ مستقبل قریب میں سندھ میں سول وار کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
♦
3 Comments