پاکستان میں توہین رسالت یا توہین مذہب ایک ایسا حساس موضوع ہے، جس پر بحث و تکرار کے اکثر سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ ایسے الزامات کے بعد یا تو مشتعل شہری قانون اپنے ہاتھ مں لیتے ہوئے مبینہ ملزم کو خود ہی مار ڈالتے ہیں یا پھر پولیس کو اطلاع دی جائے، تو ملزم حوالات میں پہنچ جاتا ہے۔ اس شخص کی فریاد اکثر سنی ہی نہیں جاتی، جس پر ایسی کسی مبینہ توہین کا الزام عائد کیا گیا ہوتا ہے۔ توہین مذہب کے کئی الزامات میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ایسے الزامات ذاتی دشمنی کے نمٹانے یا پھر بدلہ لینے کے لیے عائد کیے گئے تھے۔
اس کی ایک مثال رمشا مسیح ہے، جس پر 2012ء میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کی آیات کی بے حرمتی کا الزام اس وقت عائد کیا گیا، جب وہ ابھی صرف تیرہ برس کی تھی۔ بھلا ہو پیپلز پارٹی کی حکومت کا جس نے ذاتی دلچسبی لے کر کیس کی غیر جانبدارنہ تفتیش کرائی اور اس پر لگایا گیا الزام جھوٹا ثابت ہوگیا۔بعد ازاں ذہنی طور پر معذور اس مسیحی بچی پر یہ الزام تو جھوٹا ثابت ہو گیا تھا تاہم رمشا کے خاندان کے پاس پھر بھی گمنامی کی زندگی گزرانے یا بیرون ملک چلے جانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔ ایسے واقعات کی فہرست اب طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔
بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد، جنید حفیظ پر بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ نے توہین مذہب کا الزام لگایا اور پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا لیکن کئی سال گذرنے کے بعد بھی ان کے کیس کی نہ کوئی پیروی کرنے والا ہے اور نہ کوئی سننے والا۔ یاد رہے کہ پیروی کرنے والے ایک وکیل راشد رحمان کو قتل کر دیا گیا تھا۔
اس قانون کا تازہ نشانہ ایس ایس نامی ایک نئی خاتون کی ہے۔ جن کی اصل شناخت کو ڈی ڈبلیو کی پالیسی کے تحت اس لیے ظاہر نہیں کیا جا رہا کہ اس ’ملزمہ‘ کی جان کو کوئی نیا خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔ لاہور کی رہائشی اس خاتون پر ان کے مالک مکان (آئی اے) نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کے الزامات عائد کیے تھے۔
اس واقعے کی لاہور کے ڈیفنس تھانے میں ایک ایف آر بھی درج کی جا چکی ہے۔ ایس ایس کا موقف ہے کہ ان کے مکان کا مالک ان سے غیر اخلاقی تعلقات کی خواہش رکھتا تھا اور اپنے مقصد میں ناکامی کے بعد اس نے توہین مذہب کا یہ جھوٹا الزام لگا دیا۔ اس صورتحال میں سلامتی کے ذمے دار اداروں کی جانب سے بھی انہیں کوئی تحفظ فراہم نہ کیا گیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایس ایس کو اپنے خاندان کے تحفظ کی خاطر لاہور شہر ہی چھوڑنا پڑ گیا۔ اس دوران کراچی میں ان کی والدہ نے بھی، جو خود ایک سابقہ بیوروکریٹ ہیں، حکومت سے مدد کی درخواست کی تو اس درخواست کو بھی وزارت داخلہ نے رد کر دیا۔ اس دوران کراچی میں ایس ایس کی والدہ کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا۔
اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے لاہور پولیس کے اس سب انسپکٹر سے بھی رابطہ کیا، جس کا نام اس ایف آئی آر پر درج ہے۔ اس پولیس اہلکار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایس ایس کو سزا دلوانا ان کا مذہبی فریضہ ہے اور ان کی کوشش ہو گی کہ ملزمہ کو سخت سے سخت سزا دلائی جائے۔
اس پولیس افسر کے بقول ایس ایس مفرور ہیں اور ان کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایس ایس کے خلاف الزامات غلط بھی ہو سکتے ہیں، اس پولیس افسر نے کہا، ’’ہم مسلمان ہیں اور کوئی بھی بغیر کسی وجہ کے ایف آئی آر درج نہیں کراتا۔‘‘ ان کے بقول ان الزامات کی چھان بین کرنے کے بعد ہی رپورٹ درج کی گئی تھی۔
بے بسی
ایس ایس کی طرح توہین مذہب کے الزام کے بعد بہت سے افراد بالکل بے بس ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد کو جب حکومت بھی تنہا چھوڑ دیتی ہے، تو ان کے لیے اپنے رہائشی علاقے میں معمول کی زندگی گزارنے کے مواقع انتہائی محدود ہو جاتے ہیں۔ اگر توہین مذہب کا الزام جھوٹا ثابت ہو بھی جائے، تو بھی انہیں شک کی نگاہ سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ اسی لیے ایسے افراد کو ہمیشہ ایک انجانے خوف کا سامنا رہتا ہے، جس کے باعث وہ دوبارہ معاشرے کےپہلے جیسے رکن نہیں بن پاتے۔
لوگ بھولتے نہیں
ایسے الزامات کے بعد اگر کوئی ملک سے باہر بھی چلا جائے، تو بھی اس کی زندگی کو خطرہ برقرار رہتا ہے۔ اس سلسلے میں رواں برس اپریل میں پیش آنے والے ایک واقعے کی مثال دی جا سکتی ہے کہ سیالکوٹ کے قریب فضل عباس نامی ایک شخص کو تین خواتین نے اس لیے قتل کر دیا کہ اس پر تیرہ سال قبل توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ عباس 2004ء میں گرفتاری سے بچنے کے لیے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ عباس بیلجیم سے واپس آ کر تحقیقات میں تعاون کر رہے تھے۔ عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا بھی کیا ہوا تھا۔ تینوں ملزم خواتین نے بعد ازاں اس قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عباس کو اس کی ’گستاخی کی سزا‘ دینا چاہتی تھیں۔
اسی طرح اپریل میں ہی مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو بھی ایسے ہی ایک الزام کی وجہ سے یونیورسٹی کے احاطے میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
قانون ہاتھ میں لینے کی دلیل
توہین مذہب کے مبینہ واقعات میں پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کی خاموشی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر اہلکار اس صورت حال میں مبینہ ملزم کو خود ہی مجرم سمجھتے ہوئے اپنی ذمے داری کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل ہے۔ انہیں جنوری 2011 میں ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے اسلام آباد میں گولیاں مار دی تھیں۔ ان پر توہین مذہب کا الزام تھا۔ پاکستان میں بہت سے عام شہری مشتعل ہو کر کسی بھی ’مبینہ ملزم‘ کو ’واقعی مجرم‘ سمجھتے ہوئے اسے اپنے طور پر ماورائے عدالت سزا دینا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔
DW/News Desk