سائرس ادریس
یہ عظیم انسان آج سے بارہ ہزار سال پہلے ہماری دنیا میں نمودار ہوئے۔ ان کے بارے میں بہت سے قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ مذہبی پیشواؤں نے جوش عقیدت میں انھیں دیوتا بلکہ خدا بنا لیا۔ البتہ لوگوں کی اکثریت انھیں خداؤں اور انسانوں کی مشترکہ اولاد سمجھتی تھی۔ ان کے بقول خدا کے دو بیٹے زمین پر اترے اور انہوں نے دو عورتوں سے شادی کر لی۔ یوں خداؤں اور انسان کے ملاپ سے اوسیرس اور ہرمیس پیدا ہوئے۔ خیال رہے قرآن میں جس ادریس نبی کا ذکر ہے مفسرین اسے بائبل کا نبی حنوک سمجھتے ہیں جو کہ درست نہیں۔ ادریس علیہ السلام کی جو خصوصیات بیان ہوئی ہیں مثلا” عقل و فراست ارو علم و فضل وہ اوسیرس پر فٹ آتی ہیں، حنوک پر نہیں۔
دیو مالائی قصے کہانیوں کو چھوڑ کر جو بات تاریخ اور آثار قدیمہ سے ثابت ہے وہ یہ کہ اوسیرس اور ہرمیس کی آمد سے مصر کے پہلے سنہری دور کا آغاز ہوا۔ انہوں نے مصر میں ایک عظیم الشان درسگاہ کی بنیاد رکھی اور مصریوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، اور جدید علوم سے روشناس کرایا۔ اس درسگاہ میں آرٹ، موسیقی، ریاضی، تشریح الا بدان، علم نجوم، علم فلکیات، علم کیمیا، جغرافیہ، علم قانون، ستارہ سناشی، فلسفہ، علم طب، اور فن تحریر کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دنیا کے کونے کونے سے علم کے متلاشی اس درسگاہ کا رخ کرتے تھے۔
ہرمیس عالم اور سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صوفی بھی تھے۔ دنیا کے تمام مذاہب حتی کہ یہودیت، عیسائیت، اور اسلام میں موجود تصوف کا ماخذ بھی ہرمیس کی تعلیمات ہیں۔ اسی وجہ سے ہرمیس کو علم و عقل کا سرچشمہ بھی کہتے ہیں۔ ہرمیس کی تعلیمات اور بائبل کی آیات میں حیرت انگیز مشابہت یا مماثلت ہے۔ مثلا” ہرمیس کہتا ہے کہ انسان خدا کا ہوبہو عکس ہے۔ جب انسان روح کی شکل میں تھا تو خدا کی نافرمانی کی۔ خدا نے اسے مادی جسم میں منتقل کرکے زمین پر بھیج دیا اور اس پر موت مسلط کر دی۔ مادی دنیا نے انسان کو اپنے روحانی منبع سے مزید دور کر دیا۔ انسان اس وقت تک مرتا اور بار بار پیدا ہوتا رہے گا جب تک وہ اپنی مقدس شناخت دریافت نہیں کر لیتا۔ لہذا انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ علم و دانش حاصل کرے جس کے بغیر اس کی اپنے آسمانی گھر واپسی ممکن نہیں۔
ہرمیس سات کائناتی یا آفاقی قوانین کو سمجھنے اور ان کی پابندی کرنے پر زور دیتا ہے۔ بادشاہ اور مذہبی رہنماؤں کے لئے ان آفاقی قوانین کا مطالعہ لازم تھا۔ وہ سات قوانین یہ ہیں۔
نظریہ ذہن کا اصول
کائنات اور اس میں موجود تمام اشیا کا وجود ذہن کل کا مرہون منت ہے۔ دوسرے لفظوں میں کائنات کی تمام اشیا خدا یا کل کے ذہن میں موجود ہیں۔ ہر شئے کل (خدا) میں ہے اور کل (خدا) ہر شئے میں ہے۔ ذہن انسانی بھی ذہن کل کے اندر ہے۔ صوفیا کا نظریہ وحدت الوجود اسی اصول سے ماخوذ ہے۔
مطابقت کا اصول
جیسا اوپر ویسا نیچے اور جیسا نیچے ویسا اوپر۔ خیال رہے ہماری سوچ یا خیال “اوپر” یعنی ذہن میں جنم لیتے ہیں اور ان کے نتیجے میں واقعات یا حوادث “نیچے” یعنی مادی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ہماری سوچ یا خیالات مثبت اور تعمیری ہوں گے تو مادی دنیا میں ان کا اظہار تعمیر و ترقی کی صورت میں ہو گا۔ منفی یا تخریبی سوچ کا نتیجہ ہمیشہ تخریب یا فساد کی صورت میں نکلتا ہے۔ لہذا خوشگوار ماحول میں زندگی گزارنے کے لئے لازم ہے کہ ہمارے خیالات مثبت اور تعمیری ہوں۔
اصول ارتعاش
اس اصول کی رو سے کائنات کی ہر شئے حرکت میں ہے۔ کوئی شئے بھی ساکت نہیں۔ دوسرے لفظوں میں حرکت یا ارتعاش ہر شئے کی بنیادی صفت ہے۔ ہر شئے چل رہی، جھول رہی، گھوم رہی، یا گردش کر رہی ہے۔ انسان کی ذہنی سطح پر بھی ارتعاش موجود ہے۔ اصول ارتعاش کو سمجھنے اور اس سے ہم آہنگی رکھنے والے ان شاطر لوگوں کی مداخلت سے محفوظ رہتے ہیں جو دوسروں کے اذہان کو ٹیلی پیتھی کے ذریعے متاثر یا کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اصول قطبیت یا خَواص مَتيائن
اس اصول کو رو سے ہر شئے میں دوہرا پن ہے یا ہر شئے کے جوڑے یا مثبت اور منفی قطب ہیں۔ اس اصول کو یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں، سیدھا اور الٹا۔ مادہ اور روح ایک ہی شئے کے دو قطب ہیں۔ کل یعنی خدا اور سب موجودات ایک ہی ہیں۔ لامحدود ذہن اور محدود ذہن ایک جیسے ہیں۔ ان میں فرق صرف درجے کا ہے۔ اسی طرح محبت اور نفرت بظاھر ایک دوسرے کے الٹ ہیں لیکن یہ ایک ہی شئے کے دو سرے ہیں جیسے مثبت اور منفی قطب۔ سب سچائیاں آدھی یا ادھوری ہیں۔ لہذا مطلق سچائی کا کوئی وجود نہیں۔
اس اصول سے آشنائی ہمیں اپنی ذہنی حالت کو سمجھنے اور اسے درست یا متوازن رکھنے میں معاون ہوتی ہے۔
اصول ترنم یا آہنگی
ہر شئے اندر سے باہر اور باہر سے اندر کی طرف بہتی ہے۔ چیزوں کی اس خاصیت کو سمجھنے کے لئے سمندری لہروں کے مدوجزر یا پنڈولم کے دائیں بائیں جھولنے کو تصور میں لائیں۔ اس اصول کی ایک سادہ تعریف عروج و زوال ہے۔ عمل اور ردعمل، پیش قدمی اور پسپائی، ابھرنا اور ڈوبنا، طلوع و غروب جیسے مظاہر قدرت کا مشاہدہ ہم اکثر کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہماری کائنات کی تمام اشیا خواہ وہ جاندار ہوں یا بے جان، انسان ہوں یا حیوان، نباتات ہوں یا معدنیات، سیارے ہوں یا ستارے سب عروج و زوال دیکھتی ہیں۔
علت و معلول کا اصول
ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اور ہر ردعمل کے پیچھے کوئی عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر سبب کا کوئی نتیجہ نکلتا ہے اور ہر نتیجے کے پیچھے کوئی سبب ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہماری دنیا بلکہ کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات اور حوادث کے پیچھے یہی علت و معلول کا اصول یا قانون کارفرما ہے۔ سادہ الفاظ میں اس اصول کو یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ جیساہم بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں پرورش پانے والے خیالات اور ذہنی عمل میں بھی بے پناہ توانائی ہوتی ہے۔ خیال یا سوچ ذہن سے نکل کر جسم کے ایک ایک خلیے سے گزرتی اور فضا میں منتشر ہو کر کائنات یا عالم وجود میں پھیل جاتی ہے۔ پھر اصول ارتعاش اور اصول ترنم اس سوچ کو بھیجنے والے کو واپس کر دیتے ہیں۔ اس اصول کو اکثر “کرما” کے قانون سے جوڑا جاتا ہے۔ یعنی ہم اپنے خیالات اور الفاظ سے جو کچھ بوتے ہیں مادی دنیا میں وہی کچھ کاٹتے ہیں۔
اصول جنس (مذکر،مونث)۔
ہر شئے میں جنس موجود ہے۔ یعنی ہر شئے مذکر ہے یا مونث۔ ذہنی سطح پر مذکر یا نر ذہن کا تعلق زیریں شعور کے ساتھ ہے اور مونث یا مادہ ذہن کا تعلق تحت الشعور یا بالائی شعور کے ساتھ۔ عقل و دانانی کے حصول کے متلاشی اسے مونث ذہن میں پاتے ہیں۔ انسانی روح کا بسیرا بھی مونث ذہن میں ہے۔
قصہ مختصر ہماری زندگیوں میں نظم و نسق اور اتفاق و اتحاد اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم ان آفاقی اصولوں یا قوانین کو پابندی کریں۔ خیال رہے انسان کا ذہن اور کائنات کو چلانے والے کا ذہن ایک جیسے ہیں۔ لہذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی دنیا کو بھی ویسا ہی آفاقی قوانین کا پابند بنائیں جیسی یہ کائنات ہے۔ تب ہی ہم زندگی، مصائب، اور موت کے اس کبھی نہ ختم ہونے والے چکر سے نکل سکیں گے۔