پاکستان آرمی اور ان کے لاڈلے

دھرنے کے خاتمے کے ساتھ ہی تحريک لبيک يا رسول اللہ کے سربراہ خادم حسين رضوی نے فی الحال اُن نعروں کی گونج تو بند کروا دی ہے،جو ملکی تاریخ میں پہلی باراس شدت سے سننے گئے۔ کیا زاہد حامد کا استعفی ان گھمبیر مسائل کا حل ہے؟

پاک سر زمین‘ کہلانے والے جنوبی ایشیا کے اس ملک کی تاریخ میں بہت سے ادوار رقم کیے جا چکے ہیں جن سے پاکستانی معاشرے کی زبوں حالی اور فکری، اخلاقی اور سیاسی بدحالی کے انتہائی مایوس کن واقعات منسوب ہیں۔ ہاں ایک عنصر جو ان تمام واقعات میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے، وہ ہے مذہب کا سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال۔

مذہب کے نام پر نہ صرف عوام کو بہت آسانی سے بیوقوف بنایا جاتا ہے بلکہ مذہب کے نام پر ہی بالادست قوتیں عوام کا استحصال کرتی ہیں۔ اس کی ایک بہت واضح مثال 70 کی دہائی میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ہے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مذہبی جماعتوں نے مل کر اتحاد بنایا تھا اور اس کا مقصد ابتدائی طور پر 1977 ء کے انتخابات کے نتائج کا بائیکاٹ کرنا اور سیکولر ذہن رکھنے والے مغرب زدہ سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو کسی صورت اقتدار سے دور رکھنا تھا۔

تاہم اس اتحاد نے جلد ہی پاکستان نیشنل الائنس قائم کر کے ملک کے تمام مذہبی رہنماؤں کو اکٹھا ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کر دیا جس نے اپنے سیاسی ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا اور عوام میں بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔ تب ہی سے ذوالفقار علی بھٹو کا زوال شروع ہوا یہاں تک کہ انہیں ایک آمر فوجی کے حکم پر تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔

 تجزیہ نگار اس صورتحال کا ذمہ دار فوجی ڈکیٹٹر جنرل ضیا کو قرار دیتے ہیں ان کے مطابق جنرل ضیاءالحق کے بوئے ہوئے بیج کتنے بارآور ثابت ہوں گے اس کا اندازہ شاید ہی صحیح طور پر لگایا جا سکا ہو، ایک ہی درخت کی کتنی شاخیں ہوں گی جو ملک بھر میں پائے جانے والے مذہبی انتہا پسندوں کو سایہ فراہم کریں گی؟ اس کا احساس دہائیوں بعد ہو رہا ہے۔

جبکہ کچھ تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی تحریک پاکستان کے خمیر میں شامل تھی اور اسے مذہبی انتہا پسندی کی طرف پہلا قدم کہا جاسکتا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد قرارد اد مقاصد کی منظوری مذہبی انتہا پسندی کی طرف دوسرا قدم تھا اور اس کے بعد چل سو چل۔

ایک طرف بدعنوان اور نااہل سیاستدانوں کی نسل در نسل اور خاندانی جاگیر کی شکل میں چلی آرہی سیاست ہے تو دوسری جانب انتہائی مضبوط ہاتھوں والی فوج اور اسٹبلشمنٹ ہے، جو جب چاہیں ملک اور قوم کی قسمت کا فیصلہ اپنے مفادات اور اپنی حکمت عملی کے تحت کھڑے کھڑے کروا دیں، ایسے میں پاکستانی عوام کے پاس آپشنس کیا ہیں؟

طالبان، امریکی اور سعودی ایجنڈا پر کام کرنے والے گروپ، ایران جو علاقائی سیاست میں اپنے مفادات کے لیے سرگرم ہے، داعش یا ملک کے قیام سے اب تک چلی آ رہی وڈیرہ شاہی اور خاندانی سیاست۔ عوام ایک کے چنگل سے نکلتے ہیں تو دوسرے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ جس ملک میں پانی و بجلی اور روزگار کے مسائل عوام کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو سلب کر دیں وہاں آئے دن کسی نئی مذہبی تحریک کے نعرے سننے کو ملیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ دین اسلام کی جو شکل پاکستان میں رائج ہو چکی ہے، اس میں ہر مسئلے کا حل عقیدے میں ڈھونڈا جاتا ہے۔

توہین رسالت کے متنازعہ قانون پر رہ رہ کر شور اٹھانا اور اسے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں کا وتیرہ تو بن ہی چکا ہے، اب اس میں پاکستانی فوج کا کردار بھی کھل کر سامنے آنے لگا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی ذمہ دار پاکستان آرمی کی جانب سے مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت بھی ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے مذہبی انتہا پسند وں کی نہ صرف پشت پناہی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دہشت گردی کے لیے لاجسٹک سپورٹ بھی مہیا کرتی ہے۔

متعدد ہلاکتوں اور ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ اور دیگر پر تشدد کارروائیوں سے پہنچنے والے نقصانات اور ان سے عوام کو پیش آنے والی دشواریوں کے بعد پير ستائيس نومبر کو فوج کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کے بعد دھرنے کے خاتمے کا اعلان ہوا اور وہ بھی نہایت ڈرامائی انداز میں۔ مظاہرین کے مطالبات پورے کرتے ہوئے وزیرِ قانون زاہد حامد نے استعفیٰ دیا جسے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے منظور کر لیا۔ ادھر احتجاج کرنے والے تحريک لبيک يا رسول اللہ کے سربراہ خادم حسين رضوی نے اپنے قريب ان ڈھائی ہزار حاميوں )جنہیں آٹھ ہزار سے زائد پولیس اہلکار منتشر کرنے میں ناکام رہے( سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’آرمی چيف کی يقين دہانی پر ہم دھرنا ختم کر تے ہيں‘‘۔

اس طرح پاکستانی فوج نے ایک بار پھر اس تاثر کو مزید مضبوط کر دیا ہے کہ ملکی سیاسی دھارے کو موڑنا فوج کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ دوسری جانب اگر پاکستان کی سول حکومت اور فوج دونوں ہی پر سے عوام کا اعتماد پوری طرح اٹھ جائے تو ملک میں ہر طرح کی انتہا پسندی اور مذہبی شدت کی یہ شکل جو اس وقت نمایاں ہے، کسی تعجب کا باعث نہیں ہونی چاہیے۔

DW/News Desk

5 Comments