علی احمد جان
تخلیق پاکستان کی ضرورت پر عموماًتین طرح کی توضیحات پیش کی جاتی ہیں ۔ پہلی تو دو قومی نظریے والی تشریح ہے جو پاکستان میں رہنے والوں کو بار بار سنائی،بتائی، پڑھائی اور دھرائی جاتی ہے ۔ دوسری تشریح متحدہ ہندوستان کے حامیوں کی طرف سے یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہندوستان کبھی ایک ملک تھا ہی نہیں بلکہ یہ مختلف مذاہب، عقائد، نسلوں، ریاستوں اور ممالک پر مشتمل ایک خطہ ہے جو آپس کی نفرت اور محبت کے مختلف ادوار میں جغرافیائی تشکیل کی مختلف ہئیتوں سے سے گزرتارہا ہے ۔
انگریز استعمار کا مطمع نظر دراصل پنجاب، بنگال ، افغانستان اور کشمیر جیسی مضبوط فطری ریاستوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے ان کو کمزور کر دینا تھا تاکہ مستقبل میں کسی بھی ممکنہ خطرے کا احتمال نہ رہے۔ تیسرانکتہ نظر اشتراکیت پسندوں کا ہے جس کے مطابق انگریز وں اور ان کے اتحادیوں کو روس سے امڈنے والےکمیونزم کےسرخ انقلاب سے خطرہ تھا کہ وہ مشرقی یورپ کی طرح بر صغیر کو بھی لپیٹ میں لیکرکہیں مشرق وسطیٰ نہ پہنچ جائے جہاں سے تیل پر انحصار کے علاوہ ان کی تجارتی شہ رگ نہر سویز گزرتی ہے لہذا اس کے لئے ایک مذہبی ریاست کا بند باندھنا لازمی تھا۔
انگریزوں کے مغرب کی طرف سے لاحق خطرات پر بہت پہلے سے اپنی نظر رکھنے کے اس کے باوجود جس وقت 16 مارچ1846 کو کشمیر کی ریاست مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کی گئی تو ان کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ معاہدہ امرتسر میں وہ علاقہ بھی شامل ہے جس پر ڈوگروں کا قبضہ نہیں اور اس کی سرحدیں افغانستان کے علاوہ چین اور روس سے بھی ملتی ہیں ۔
انگریزوں کے اس علاقے میں قدم رکھنے سے قبل اپنے امرتسر میں کئے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ڈوگروں نے یاسین کے مڈوری کے قلعے پر وحشیانہ یلغار کی اور یہاں بربریت کی ایک داستان رقم کی جس سے رائیل جیوگرافک سوسائٹی کے ممبر سرجارج ہائیورڈ نے برطانوی پریس کو آگاہ کیا جس کی پاداش میں مہاراجہ کشمیر کی شہ پر اس کا قتل ہوا۔ سر جارج ہائیورڈ کے قتل نے برطانیہ میں تھر تھلی مچادی اور انگریزوں کو چوکنا کردیا کہ وہ کس خطرے سے دوچار ہیں۔
ڈوگروں کےامرتسر کے معاہدے میں دعویٰ کے برعکس ہنزہ ،نگراور چترال میں ان کی موجودگی نہیں تھی جو ہندوستان میں برطانوی راج کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی ۔ انگریزوں نے اس علاقے کی اہمیت کے پیش نظر ہنزہ، نگر،اور چترال کے علاقوں پر قبضہ کرنے میں ڈوگروں کی مدد کی۔ قبضے کی جنگ میں چلاس، مڈوری کے بعد نلت کی لڑائی بھی شامل ہے جس میں برطانوی فوج کو بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑا اور اس جنگ میں برطانیہ کے سب سے بڑے تین فوجی اعزاز ملٹری کراس بھی دئے گئے۔
یہ اس علاقے کی دفاعی اہمیت کا تقاضا تھا کہ انگریزوں نے 1935 میں مہاراجہ کشمیر سے دوبارہ ساٹھ سال کے لئے پٹے پر حاصل کرکے گلگت ہنزہ، نگر اور غزر(پونیال، گوپس، یاسین اور اشکومن) کے علاقے کو کو برٹش انڈیا کے ساتھ ملاکر اپنے پولیٹکل ایجنٹ کے ذریعے دہلی کےزیر انتظام کردیا ۔
سنہ 1947 میں انگریز جب ہندوستان سے واپس جا رہے تھے تو ان کو اس بات کا پہلے سے ادراک تھا کہ کشمیر کے ہندوستان اور پاکستان سے الحاق یا آزاد رہنے کے ان کی روس کے خلاف دفاعی حکمت عملی پر کیا نتائج مرتب ہوسکتے ہیں ۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے راہنما شائد خطے کی جغرافیہ سے بھی بھر پور آگاہی نہیں رکھتے تھے اس لئے ان کا دھیان گلگت کی طرف جا ہی نہ سکا۔ اس بارے میں انگریز سول انتظامیہ اور فوجی افسران میں بھی اختلاف نظر آتا ہے۔
انگریز سول انتظامیہ کی آگاہی نہ ہونےکی بنا پر ہی لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے گلگت کے1935کےپٹے کو ختم کرکے مہاراجہ کشمیر کو واپس کردیا تھا۔ انگریز فوجی افسران اس سارے خطے کی جغرافیہ اور دفاعی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اس لئے یکم اگست1947کے بعد بھی جنرل ڈگلس گریسی نے ایک برطانوی آفیسر میجر ولیم لیگزنڈر براؤن کو بحثیت کمانڈنٹ گلگت سکاوٹس گلگت میں اور لیفٹنینٹ میتھی سن کو چلاس میں بٹھائے رکھا۔ میجر براؤن اپنی یاد داشت میں گلگت کے 1935 کے پٹے کو ختم کرکے مہاراجہ کشمیر کو واپس کرنا انگریزوں کی ایک بڑی سیاسی حماقت سمجھتے ہیں۔
چھبیس اکتوبر 1947 کو مہا راجہ کشمیر کے ریاست کا ہندوستان سے الحاق کے فیصلے نے گلگت سکاوٹس کی بیرکوں میں بے چینی پیدا کی۔ گلگت سکاؤٹس کے جونئر کمیشنڈ افسران جو زیادہ تر ہنزہ، نگر، پونیال، یاسین ، گوپس اور اشکومن کے راجاؤں اور میروں کے بھائی، بھتیجے یا بھانجے تھے جن کو برطانوی حکومت کی طرف سے مخصوص مراعات حاصل تھیں ۔ انگریزوں کے گلگت کو مہاراجہ کشمیر کو حوالہ کرنے پر جونئر کمیشنڈ افیسر اپنی مراعات کے جاری رہنے یا نہ رہنے پر بے یقینی کی کیفیت سے دوچار تھے ۔
مطالبات کے حق میں جب مہاراجہ کشمیر کے نمائندے گورنر بریگیڈئیر گھنسارا سنگھ سے بات کی جس کا تسلی بخش جواب نہ ملا تو گلگت سکاؤٹس کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوا ۔ میجر براؤن نےاس بے چینی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی جونیئر کمیشنڈ افسروں کو گورنر گھنسارا سنگھ کے خلاف مزید بھڑکایا۔ کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کے چار دن بعد ۳۱ اکتوبر کی رات کو گلگت میں گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے گلگت کوآزاد کرانے کا فیصلہ کیا گیا جس پر اگلی صبح یکم نومبر ۱۹۴۷ کو عملدرآمد ہوا۔
دوسری طرف مہاراجہ کشمیر کی فوج میں بھی ریاست بھر میں مختلف جگہوں پر مسلمانوں نے بغاؤتیں کیں ۔ گلگت سے34میل دور بونجی کے مقام پر جموں و کشمیر انفنٹری کی چھٹی بٹالین موجود تھی یہاں بھی نوجوان کیپٹن حسن خان اور ان کے ساتھیوں نے علم بغاؤت بلند کیا اور بونجی کی چھاؤنی کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد حسن خان گلگت پہنچے اور یہاں پر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرنے والے سکاؤٹس سے مل گئے۔
سنہ 1947 تک گلگت میں پاکستان بنانے یا انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی کوئی عوامی تحریک موجود نہیں تھی اور نہ ہی یہاں ہندوستان کی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ اور کانگریس اور کشمیر کی سیاسی جماعتوں مسلم کانفرنس یا نیشنل کانفرنس کا کوئی وجود تھا ۔ لوگوں کو انگریزوں کے چلے جانے اور ڈوگروں کے واپس آنے کا ملال کسی حد تک ضرورتھا جو گھنسارا سنگھ کی گرفتاری کے بعد ختم ہوگیا تھا۔ امور مملکت چلانے کے لئے گلگت میں کیپٹن حسن خان کی سربراہی میں ایک مقامی انقلابی حکومت تشکیل دے دی گئی جس کے صدر گلگت کے راجہ شاہ رئیس خان اور آرمی کے کمانڈر انچیف خود حسن خان مقرر ہوئے۔
میجر ولیم براؤن نے ہنز،ہ نگر، پونیال، اشکومن، یاسین اور گوپس کے راجاؤں اور میروں سے پاکستان سے الحاق کے خطوط لکھوالئے تاکہ تقسیم ہند فارمولے کے تحت ریاستوں کے الحاق کے لئے لازمی والیان ریاست کی رضا مندی کی شرط کا تقاضا بھی پورا کیا جاسکے ۔ میجر براؤن نےمقامی راجاؤں اور میرو ں کی طرف سے الحاق کی دستاویزات کے ساتھ حکومت پاکستان کو اس علاقے کا انتظام سنبھالنے کی دعوت دی ۔ 16 نومبر کو حکومت پاکستان کے نمائندے پولیٹکل ایجنٹ محمد عالم کی آمد پر مقامی انقلابی حکومت کو تحلیل کرکے پاکستان کا جھنڈا بلند کیا گیا ۔یوں ڈوگروں سے آزادی لیکر سولہ دن تک ایک انقلابی حکومت بنا کر آزاد رہنے کے بعد گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام آگیا۔
میجر ولیم براؤن نے اس وقت کے تمام حالات اپنی ڈائری میں لکھے جو ان کی بیوی نے بعد میں کتابی شکل دے کر چھپوایا جس کا اردو ترجمہ بغاؤت گلگت کے نام سے دستیاب ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر پاکستان بنانے کی تیسری توضیح سمجھ میں آتی ہے کہ اگر دہلی اور ماسکو کے بیچ زمینی رابطہ قائم ہو جاتا تو شائد آج دنیا کا نقشہ بدل گیا ہوتا۔ افغانستان اور اس کے بعد قبائلی ایجنسیوں کا بفر قائم کرنے کے بعد بھی اگر ہنزہ ، اشکومن یاچترال سے روس کا ہندوستان سے زمینی رابطہ ممکن ہو جاتا تو آج امریکہ دنیا کا اکیلا سپر پاور نہ ہوتا اور نہ سوویت یونین بکھر کر تاریخ کا حصہ بن گیا ہوتا۔
گلگت میں26 اکتوبر سے یکم نومبر1947 کے دوران ان چار دنوں میں دنیا کی نظروں سے اوجھل کوہ قراقرم ، ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑوں میں جو ہوا اس کے اثرات آج تک دنیا محسوس کر رہی ہے۔ راجستھان حکومت کے پرنسپل سیکرٹری سنجے ڈکشٹ کے مطابق ہندوستان سے اصل ہیمالیائی غلطی (ہمالیان بلنڈر) چین کے ساتھ1962 کی جنگ میں نہیں بلکہ1947 میں گلگت میں ہوئی ہے جب چند سو گلگت سکاوٹس اور سول لوگوں نے اٹھائیس ہزور مربع میل کا علاقہ آزاد کروادیا تھا۔
آج کا پورا پاکستان ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت مذاکرات کی میز پر بنا بنایا ملا، ما سوائے گلگت بلتستان کے اٹھائیس ہزار مربع میل کے علاقے کا جو گلگت سکاؤٹس اور مقامی لوگوں نے بغیر کسی بیرونی امداد کے حاصل کرکے پاکستان کا حصہ کا حصہ بنادیا۔ آج پاکستان چین کے ساتھ اپنی سمندر سے گہری، شہد سے میٹھی دوستی کے ساتھ تجارتی راہ داری کے جس منصوبے پر نازاں ہے وہ اگر گلگت اس کا حصہ نہ ہوتا کیسے ممکن ہوپاتا۔ اگر گلگت آزاد نہ ہوتا تو آج چین کا سینکڑوں سال کا خواب پورا نہ ہوتانہ ہندوستان کو افغانستان آنے سے کوئی روک سکتا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے اونچے پہاڑوں، دریاؤں اور آبشاروں کی سرزمین پاکستان کی جھولی میں ڈالنے والے لوگ آج ستر سال بعد بھی اپنے لئے آئینی تحفظ اور اور قانون کی حکمرانی کے محتاج ہیں۔مہاراجہ گلاب سنگھ کی چوری کے پیسے سے خریدی ڈوگرہ ریاست میں انگریزوں کو دھوکہ دے کر شامل کئے گلگت بلتستان کے لوگوں نے غاصبوں کے خلاف راجہ گوہر امان کی لڑائی ایک بار پھر لڑ کر جو آزادی حاصل کی تھی اس کو حکومت پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا ۔
مگرپاکستان کے حکمرانوں نے کشمیر کے مسئلے پرا قوام متحدہ جاکر گلگت بلتستان کو بھی متنازع تسلیم کیا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت آج بھی گلگت بلتستان کی دفاعی ، سیاسی ، معاشی اورجغرافائی اہمیت سے اتنی ہی نابلد نظر آتی ہے جتنی 1947 سے قبل تھی مگر دوسری طرف گلگت کے اہمیت کی آوازوں کی بازگشت دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں ایک دفعہ پھرگونج رہی ہے۔
دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے والے گلگت بلتستان کے لوگ آج یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے آباواجداد نے ڈوگروں سے آزادی تو حاصل کی مگر کیا وہ آزاد بھی ہوسکے؟
♦
One Comment