بیرسٹر حمید باشانی
فعالیت اور غنڈہ گردی میں فرق ہے۔ ان دونوں کے درمیان محض کوئی باریک لکیر نہیں جو نظر نہ آئے، یا جسے نظر انداز کیا جا سکے۔ یہ دونوں بالکل مختلف چیزیں ہیں، جن میں بہت ہی نمایاں فرق ہے۔ مگر ہمارے ہاں ایک عرصے سے ان دونوں چیزوں کو ایک ہی سمجھا جا رہا ہے، یا بزور طاقت ان کو ایک ہی چیز سمجھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
غنڈہ گردی ایک جرم ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی کے پاس اس کی کتنی بڑاجواز ہے۔ یہ دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں اخلاقی، سماجی، قانونی اور مذہبی اعتبار سے ایک مذموم کام سمجھاجاتا ہے۔ ہمارے سمیت تمام مہذب دنیا کا اس پر اتفاق ہے۔ اس کا ثبوت بیشتر دنیا کے آئین و قوانیں ہیں، جن میں غنڈہ گردی غیرقانونی فعل ہے۔ جرم ہے۔
ہمارے ہاں کچھ عرصے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جہاں سوال مذہب یا عقیدے کا ہو وہاں غنڈہ گردی کوئی برا فعل نہیں سمجھاجانا چاہیے۔ گویا مذہب اور عقیدے کے نام پرکچھ لوگوں کو غنڈہ گردی کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس روئیے کا اظہار ہماری تاریخ کے مختلف ادوارمیں مختلف شکلوں میں ہوتا رہا۔ یہ مظاہرہ آج بھی جاری ہے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مظاہرے کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس انبوہ گردی، ہجوم کی حکمرانی اور غنڈہ گردی کو فعالیت، سیاسی سرگرمی یاایکٹوازم کا خوبصورت نام دیاجارہا ہے۔ گویا رواداری اور روشن خیالی جیسی اصطلاحوں کو بد نام کرنے کے بعد اب فعالیت یا ایکٹیوازم کی باری ہے۔
دنیا بھر کے دانشور وں کے نزدیک ایکٹیوازم یعنی فعالیت یا سیاسی سرگرمی سے مراد ایسا احتجاج یا منظم کوشش ہے جس کا مقصد تبدیلی لانا ہو۔ یہ تبدیلی سیاسی، سماجی، معاشی، سیاسی، تعلیمی ، موحولیاتی یا کسی بھی شعبہ حیات سے متعلق ہو سکتی ہے۔ تاریخی اعتبار سے ایکٹیوازم بائیں بازوں کی پہچان رہی ہے۔ بائیں بازو اور ترقی پسند نظریات کے حامل افراداور تنظیموں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی مسائل جن میں ماحولیات، انسانی حقوق، غربت، نا انصافی وغیرہ جیسے مسائل پر سرگرمی کی ہے۔
یہ سرگرمی کئی بائیں بازوں کی سیاسی پارٹیاں براہ راست کرتی رہی ہیں، اور کئی اپنے طلبہ محاذ یا مزدور کسان انجمنوں کے ذریعے یہ فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ یہ سرگرمیاں کئی پر امن اور نتیجہ خیز رہی اور کئی ہجوم گردی کا شکار ہو کر ختم ہو گئی۔
فعالیت کے ذریعے دنیا میں کئی حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ کئی انقلاب برپا ہوئے۔ مگر ایسا تب ہی ممکن ہوا ، جب اس سرگرمی کی قیادت ایک منظم سیاسی تنظیم اور تاریخ کا شعور رکھنے والی انقلابی قیادت کے ہاتھ میں تھی۔ خواہ اس میں 1789سے لیکر1919 کے درمیان یورپ میں رونما ہونے والے جمہوری انقلاب ہوں، یا 1917 کا لینن کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب ہو یا پھر1949 میں کا چئیرمین ماوء کا چینی انقلاب۔ تاریخ میں کوئی ایسی ایک مثال بھی نہیں ملتی جہاں کسی انبوہ، ہجوم یا بھیڑ نے کسی ملک میں کوئی انقلاب لایا ہو، یا کسی سماج میں کوئی بامعنی تبدیلی لائی ہو۔
ہجوم اور بھیڑکی سیاست نے البتہ رد انقلاب کا کام ضرور کیا ، یا پھر کئی جمے جمائے سماجوں کو غیر مستحکم کیا۔ حالیہ برسوں میں کچھ عرب و افریقی ریاستوں میں انبوہ گردی اور بھیڑ کی سیاست نے انتشار، توڑ پھوڑ، فرقہ پرستی اور حتہ کہ دہشت گردی کو فروغ دیا۔ چنانچہ کسی بھی سماج میں اس انبوہ گردی اور بھیڑ کی سیاست کو ان تاریخی تجربات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ اور ان لوگوں کو زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے جن کا وعوی ہے کہ مذہب یا عقیدے کے معاملے میں ان کو احتجاج یا فعالیت کے نام پر غنڈہ گردی، ابنوہ گردی اور بھیڑ بازی کی اجازت ہونی چاہیے۔
مذہب اور عقیدے کے نام پر ہونے والے احتجاج یا اس باب میں کسی خاص گروہ کی طرف سے خصوصی استحقاق کے مطالبے کو بڑی احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ کون سا معاملہ مذہب یا عقیدے کا معاملہ ہے ؟ یہ طے کرنے کا اختیار ایک گروہ، مسلک ، فرقے ، جماعت یا مکتبہ فکر کو نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہونے لگے تو ہر کوئی ہر مسئلے کو مذہب و عقیدے کا سوال بنا کر لوگوں کو خاموش کرانے اور خود کو خصوصی سلوک کا حق دار ٹھہرانے پر بضد ہو گا۔
مذہب و عقیدے کے تقدس کے تحٖفظ اور اس تقدس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے درمیان بہت فرق ہے۔ اس فرق کو ہمارے ہاں ماضی میں نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ اب بھی ایسا کیا جا رہا ہے۔ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور اپنے سیاسی نظریات کو مذہب کے نام پر دوسروں پر مسلط کرنے کا عمل ہمارے ہاں ایک مدت سے جاری ہے۔ اس سوال پر قانونی ، اخلاقی اور سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے کہ کسی کو بھی کسی بھی مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو۔
پر امن احتجاج، جلسہ وجلوس ہر شہری کا بنیادی حق ہے ، جس کا ہر قیمت پر دفاع ہونا چاہیے۔ مگر اس حق کے نام پر ہلڑ بازی ، گالی گلوچ ، راستے روکنااور دوسرے کی زندگی اجیرن کرنے کا اختیار کسی کو نہیں۔ جلسے، جلوس ، احتجاج اور دھرنے وغیرہ کے لیے الگ جگہیں مختص کرنا اب جمہوری دنیا میں ایک مسلمہ روایت ہے ۔ شہریوں کو دوسرے شہریوں کی آزادی نقل حمل کی قیمت پر شاہراہوں پر دھرنے دینے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ہمارے ہاں حالیہ چند برسوں میں احتجاج اور دھرنوں کے نتیجے میں رونماہونے والے کچھ نہ خوشگوار واقعات اور ان سے جڑے نتائج نے ریاستی اہل کاروں اور سیاست کاروں کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ وہ قانونی اور سیاسی نتائج کے خوف کا شکار ہیں۔ اس خوف نے ان کی قوت فیصلہ اور عمل کو مفلوج کر دیا ہے۔ لہذا اب صورت یہ ہے کہ جو کوئی بھی پانچ دس ہزار لوگ جمع کر سکتا ہے وہ پوری ریاستی طاقت کو بے بس کر سکتا ہے۔ عدالتوں کا حکم ماننے سے انکار کر سکتا۔ قانون کا مذاق اڑا سکتا ہے۔ مجمع لگا کر کسی کو بھی گالیاں دے سکتا ہے۔ اور پھر اس کو مذہب و عقیدئے کا معاملہ قرار دے کر بری الذمہ ہو سکتا ہے۔ موجودہ اور مستقبل کے دھرنوں، مارچوں اور احتجاجوں کو اس تناطر میں دیکھنے کی ضرورت ہے