ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کو جب ان کی ذات میں کوئی عیب دکھائی نہیں دیتا تو یہ الزام لگادیا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے بھی سیاسی پرورش آمر ایوب خان کی آغوش میں پائی ،اورانکی سیاست ایوب خان کی فوجی ٹوپی کے سائے تلے پروان چڑھی، مخالفین ذوالفقا ر علی بھٹوپر یہ الزام بھی لگاتے کہ وہ ایوب خان کو’’ ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔
جنرل ضیا ء الحق یہ ارمان دل میں ہی لیے اس جہان سے اٹھ گیا کہ اسے بھٹو کی بدعنوانی ،کرپشن اور لوٹ مار ہاتھ لگتی کیونکہ وہ ذوالفقا ر علی بھٹو کو پاکستانی اور عالمی سطح پر خائن ثابت کرنے کی آگ میں شب و روز جلتا تھا ۔بہت سارے قرطاس ایبض شائع بھی کیے مگر تمام کاوشیں بیکار ثابت ہوئیں قومی دولت پانی کی طرح بہانے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کے اجلے سیاسی کردار پر کوئی بدنما داغ نہ لگاسکا۔ جبکہ اس کا اپنا ظاہردامن و باطن سانحہ اوجڑی کیمپ کے سیاہ دھوئے سے بھی سیاہ نکلا۔
نومبر 2017 کو پاکستان پیپلز پارٹی ( تلوار کے نشان والی) خیر سے 50 برس کی ہوگئی ہے اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی گولڈن جوبلی ہے 30 نومبر1967 کے دن سندھ کی عظیم روحانی و سیاسی شخصیت مخدوم طالب المولی کے گھر ہالہ شریف میں اس پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ذوالفقار علی بھٹو پہلے چیئرمین منتخب ہوئے، باقی ممبران میں بھی صاف، شفاف اور بے داغ کردار کے حامل راہنما شامل تھے جن میں جے اے رحیم( وفاقی وزیر) خورشید حسن میر( وفاقی وزیر)، ملک معراج خالد( پنجاب کے وزیر اعلی) غلام مصطفی خان جتوئی( سندھ کے وزیر اعلی و وفاقی وزیر مواصلات)، غلام مصطفی کھر(پنجاب کے گورنر و وزیر اعلی رہے) ڈاکٹر مبشر حسن( وفاقی وزیر خزانہ)، عبدالحفیظ پیرزادہ( وزیر تعلیم و وزیر قانون)، ڈاکٹر غلام حسین ( وفاقی وزیر)، شیخ رفیق احمد ( صوبائی اسمبلی کے اسپیکر) شیخ محمد رشید بابائے سوشلزم( وفاقی وزیر صحت)رسول بخش تالپور ( 29 اپریل 1972 سے 14 فروری 1973تک سندھ کے 10 ویں گورنر رہے)۔
میر علی احمد تالپور ( ضیاء دور میں وزیر دفاع بھی رہے) معروف دانشور ادیب صحافی محمد حنیف رامے ( پنجاب کے وزیر اعلی ) صحافی ،دانشور مولانا کوثر نیازی ( وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات )معروف مزدور راہنما مختار رانا، اور معروف ترقی پسند راہنما معراج محمد خان سمیت بہت سے ترقی پسند راہنماؤں کے نام قابل ذکر و فخرہیں۔
نومبر 1968سے نومبر 1978تک پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس ذوالفقا ر علی بھٹو کی قیادت میں منائے جاتے رہے۔ 30 نومبر1978 کے دن مانایا جانے والا یوم تاسیس اس حوالے سے منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس یوم تاسیس پر پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقا ر علی بھٹو نے پاکستان کے عوام اور پارٹی کارکنان کے نام جیل سے اپنا آخری پیغام جاری کیا تھا۔بعد ازاں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں پیپلز پارٹی اپنا یوم تاسیس مناتی رہیں اور عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تجدید کرتی رہیں۔
بیس20 ستمبر1996 کے بعد بیگم نصرت بھٹو ہر لحاظ سے خاموش ہوگئیں تو پھر ذوالفقا ر علی بھٹو کی بھٹو بیٹی کی فکر انگیز اور سحرانگیز شخصیت کی راہنمائی و قیادت میں پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس منایا جاتا رہا مگر جیالوں، متوالوں اور ذوالفقا رعلی بھٹو کے دیوانوں پروانوں کے جذبات میں وہ گرمی دیکھنے میں نہ رہی ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد تو معاملات مزید سرد مہری کا شکار ہوتے گئے۔ جس کی جھلک 4اپریل اور 27 دسمبر کے روز منائی جانے والی ذوالفقا ر علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی ’’برسیوں‘‘ کے مواقع پر واضح نظر آتی رہی۔ ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ کے قومی خزانے سے بھاری رقوم خرچ کرکے اخبارات کے خصوصی ایڈیشن شائع کروانے پڑے جبکہ پہلے اخبارات اپنے طور پر شہیدوں کی سیاسی بصیرت ، لیاقت ، نظریات، ذہانت فطانت اور پالیسیوں کے تناظر میں اسپیشل ضمیمہ جات شائع کرکے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا کرتے تھے۔ جس سے عوام اور پیپلز پارٹی کے جیالے کارکنان اپنے تشنگی دور کرکے اپنے سیاسی عقیدے کو پختگی عطا کرتے اور ان خصوصی ضمیمہ جات میں شہدا کی ملکی اور بین الااقوامی کامیابیوں کے تذکرے عوامی محبت کو وسعت دینے اور گہرا کرنے کا سببب ٹھہرتے۔
ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے اپنی ہم عصر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں منفرد اور بڑی بڑی کامیابیاں اپنے نام کیں، ملک کو ’’آئین 1973‘‘ کے نام سے مشہور دستور دیا، اس پارٹی کی قیادت نے ملک کے بڑے حصے کی علیحدگی کے باوجو د پاکستانی قوم کو دنیا میں سر اٹھا کے چلنے کے قابل کیا، جنگ 1971 میں دشمن کے ہاتھوں قید ہونے والے ایک لاکھ کے قریب سول و فوجی باعزت رہا کروانے کا سہرا بھی پیپلز پارٹی کے سر ہے۔
مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ جس پر دشمن نے قبضہ کرلیا تھا واپس حاصل کرنے بھی ذوالفقا رعلی بھٹو کی بے پناہ لیاقت ،ذہانت اور سیاسی تدبر و بصیرت کا کمال ہے۔ورنہ ہمارے مسلم برادر عرب ممالک اسرائیل سے وہ علاقے واپس لینے میں کامیاب نہ ہوسکا ہے جو اسرائیل نے 1967کی جنگ میں عربوں سے ہتھیائے تھے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت اور ورکروں نے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خاتمے کے لیے اپنی لازوال جدوجہد کی ہے اور اس حوالے سے ایک تاریخ رقم کی ہے، مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سیاسی جدوجہد میں قربایوں کا ذکر آتا ہے تو پیپلز پارٹی سرفہرست شمار ہوتی ہے اور اگر آمریت سے لڑائی کا حوالہ درکار ہوتو بھی پیپلز پارٹی کے علاوہ کوئی دوسرا نام اذہان میں نہیں آتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ایک سیاسی جماعت نہیں ایک سوچ اور نظریہ کانام ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سے ایک کروڑ اختلافات ہوں،اس کی قیادت میں لاکھ برائیاں موجود ہوں اس کے باوجود اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پیپلز پارٹی اس ملک کی سیاست کو جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور فوجی جرنیلوں کے ڈرائینگ روموں سے نکال کر ہاریوں ،مزدوروں کسانوں اور غریبوں کی جونپڑیوں میں لے کر آئی۔ پیپلز پارٹی کو مزدور کسان ،ہاری طلباء کھیت مزدوروں اور دہی مزدوروں نے اپنی آواز قرار دیا، اس کو اپنے خاندان کادرجہ دیا ۔
یہی وجہ ہے کہ جب آمر ضیا الحق نے اس کے بانی چیئرمین ذوالفقا ر علی بھٹو کو ختم کرنے کا پروگرام بنایا تو تمام طبقات کے لوگوں نے اس کی رہائی کے لیے قربانیاں دیں، خودسوزی کرکے اپنی زندگیاں ذوالفقا ر علی بھٹو پر نچھاور کردیں یہ سب کچھ جیالوں نے بھٹو کی زندگی کی شمع کو گل ہونے سے بچانے کے لیے کیا۔ اپنے سیاسی اور محبوب قائد کی جان بچانے کے لیے اس لازوال قربانی کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔
ذوالفقا ر علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے پاکستان کو پہلی مسلم جوہری ریاست بنانے میں اہم کردار ادا کیا تو بے نظیر بھٹو شہید کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی سے مزین کرکے دشمن کی نیندیں حرام کردیں۔سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے سابقہ اور موجودہ رفقائے کا ر، معتمدین ذوالفقا ر علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے اپنے تمام تر سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود اس حقیقت کوتسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستان کو جوہری قوت اور ایٹمی ٹیکنالوجی دینے کا سہرا باپ بیٹی( ذوالقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو)کے سر ہے۔
تیس نومبر ہے اور ، پیپلزپارٹی اپنا پچاسواںیوم تاسیس بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو شہید کے بغیر منارہی ہے۔ اس بار نئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں یہ یوم تاسیس منایا جا رہا ہے، پی پی پی کی قیادت سنبھا لنے کے بعد بلاول بھٹو زرداری کے ناتواں اور ناتجربہ کار کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری عوام کو اسی طرح متاثر کرپائیں گے جیسے انکی والدہ اور ناناجان سے عوام متاثر ہوئے ،اور ان کے دلوں پرحکمرانی کی اور کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے؟ کیا بلاول بھٹو زرداری اس سیاست کی جھلکیاں عوام کو دکھا پائیں گے جس سے عالمی رائے عامہ سمیت ملکی ووزٹر ان کے گرویدہ ہوجائیں اور ان کی شخصیت کو قابل بھروسہ سمجھیں۔
اگلے عام انتخابات میں وقت بہت کم باقی رہ گیا ہے، پیپلز پارٹی کے کارکنان سمیت عام پاکستانی بھی یہ سمجھنے لگا ہے کہ منشور و دستور کی مناسبت سے تمام پارٹیاں ایک جیسی ہیں، سب سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں پروگرام ترتیب دینے لگی ہیں، سب کی سب جیتنے والے امیدواروں کی دوڑ میں شامل ہیں ، بلاول بھٹو زرداری اگر پیپلز پارٹی کو 1970 کی نہج پر لیجانے کے خواہاں ہیں تو انہیں پیپلز پارٹی کے ترقی پسندانہ نظریات کی طرف رجوع کرنا ہوگا، ذوالفقا ر علی بھٹو کی سیاست ،سوچ،اورنظریات کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہوگا۔
سوشلسٹ نظام حکومت کو نعرہ نہیں منشور کا حصہ بنانا ہوگا، بڑی بڑی گاڑیوں اور بنگلوں والوں کے طواف کرنے کی بجائے ’’ بارش میں ٹپکتی چھتوں والے گھروں اور جھونپڑیوں کے پاس جانا ہوگا، پیدل اور موٹرسائیکل سواروں کو اپنی قربت میں جگہ دینی ہوگی۔۔۔ بابا ہیرا سائیں پیدا کرنے ہونگے ۔۔۔ مجھے یہ بات کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کوئی چاچا غلام رسول، عارف خان،سیٹھ بشیر احمد جیسا ورکر پیدا نہیں کرپائی۔
بلاول بھٹو زرداری کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرمایہ دار وں کوپارٹی میں شامل کرنے کی بجائے غریبوں کے دلوں پر دستک دیں، غریبوں کسانوں ،ہاریوں اور مزدوروں کی سیاست کودوبارہ زندہ کریں تو۔۔۔’’جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا‘‘ کے نعرہ کو حقیقت بنایا جا سکے گا۔۔۔ورنہ عوام دوسری سیاسی جماعتوں اور پیپلز پارٹی میں کوئی فرق نہ سمجھتے ہوئے اس سے دور رہیں گے۔پیپلز پارٹی اور عوام میں فاصلے بڑھتے جائیں گے۔
♦