فیض آباد دھرنا اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی خاموشی

انور عباس انور


بات تو چھوٹی سی تھی ،چٹکی بجانے میں لگنے والے وقت سے بھی کم وقت میں سلجھ سکتی تھی اگر سلجھانے کی نیت سے معاملات کو ہینڈل کیا جاتا۔انیس بیس دن انتظار کرنے کی بجائے اعلی سطحی حکومتی وفد دھرنے والوں سے مذاکرات کرنے بھیجا جاتا۔  تحریک لبیک کے دھرنے میں مسلم لیگ نواز کی مذاکرات نہ کرنے کی پالیسی نے فوج کو مداخلت کی دعوت دی۔ یاد رہے کہ دسمبر 2012 میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت کی کرپشن کے خلاف طاہر القادری نے جب دھرنا دیا تھا تو حکومت کے اعلیٰ سطحی وفد نے طاہر القادری سے مذاکرات کرکے ان سے معاہدہ کرکے دھرنے کو ختم کرایا تھا ۔

نوازشریف کے حمایتی لکھاری اور تجزیہ نگار اس وقت جہاں پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں وہیں وہ  پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف  زرداری کو بھی جمہوریت کا ساتھ نہ دینے کا طعنہ دے رہے ہیں لیکن کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ اس تمام معاملے میں ان کے اپنے بھائی شہباز شریف کا کیا کردار تھا؟

فیض آباد پنجاب حکومت کی حدود میں ہے اور دھرنے کے معاملے میں وزیراعلیٰ پنجاب کی خاموشی بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ وفاقی حکومت کو پنجاب حکومت سے جواب طلبی کرنے کی ضرورت ہے پنجاب حکومت نے نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کو اسلام آباد پہنچنے کے لیے فری ہینڈ کیوں دیاگیا؟ اول تو انہیں لاہور ہی میں روک لینا چاہیے تھا اگر لاہور کا تخت وفاقی دارالحکومت سے کہیں زیادہ عزیز تھا تو بھی اسے لاہور سے نکلنے کے بعد جی ٹی روڈ پر کہیں ویرانے میں دبوچ کر سرکاری مہمان بنا کر مارچ کے شرکاء کو اسلام آباد پہنچنا آسان ہدف نہ بننے دیا جاتا تو آج حکومت بے بسی کی تصویر نہ بنی ہوتی۔

وزیر داخلہ قوم کو اعتماد میں لیں کہ علامہ خادم حسین رضوی کو فیض آباد میں دھرنا دینے کی اجازت کس نے مرحمت فرمائی، اجازت کے لیے درخواست کس نے دی ؟ کیا اس سے پہلے والے دھرنوں سے حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا اگر سیکھا تھا تو اس سبق کی جھلکیاں کیوں دکھائی نہیں دیں؟ عمران خاں کے دھرنے سے نبٹ کے لیے حکومت نے اپوزیشن کو ساتھ ملایا تھا یا اپوزیشن نے خود دست تعاون بڑھایا تھا صورتحال کچھ بھی رہی ہو لیکن فائدہ تو ہوا دھرنے والوں کو ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار ہی رہا، یہ سب حکومت اور اپوزیشن کے باہمی تعاون سے ممکن ہوا۔ اس بار حکومت نے اپوزیشن سے خود پنگا لیا ہوا تھا تو تعاون کی بیل منڈھے چڑھتی تو کیسے چڑھتی۔ 

پاک فوج کے سپہ سالار جناب جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ اپنے لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کیا جائے اور معاملات کو افہام تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جناب قمر جاوید باجوہ کی بات تو سو فیصد ٹھیک ہے لیکن دھرنے پر بیٹھے اور ملک بھر میں عوام کا جینا دوبھر کرنے والے اخلاق حسنہ پر کب سرنڈر کرنے والے ہیں، ان کا خمیر ایک خاص مٹی سے گوندہ ہوا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانتے ہیں۔

حکومت کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ شہباز شریف جو آہنی ’’شہباز سپیڈ‘‘ کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہے حالانکہ ان کے متعلق مسلم لیگیوں کا کہنا ہے کہ وہ نواز شریف سے زیادہ لائق ،فائق ،ذہین و فطین ہیں اور معاملہ فہمی میں بھی وہ سب مسلیم لیگیوں سے آگے ہیں لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ وہ اب تک کہاں چھپے ہوئے ہیں ،منظر نامے پر آکر علامہ خادم رضوی اور ان کے ساتھیوں سے خود بات چیت کیوں نہیں کی؟

قابل غور اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سلمان تاثیر شہید کو بے گناہ قتل کرنے والے ممتاز قادری کے پھانسی پر جھولنے کے بعد علامہ کادم حسین رضوی اچانک پردہ سمیں پر نمودار ہوا ہے اور ان کی تقاریر کے حوالے سے عام تاثر یہی ہے کہ وہ نفرت انگیز تقاریر کرکے عوام مین مقبولیت حاصل کرتے ہیں اور تقاریر میں انکا لب و لہجہ کوئی اچھا خیال نہیں کیا جاتا جیسے انہوں نے علامہ طاہر القادری کے خلاف تقاریر میں لہجہ اپنایا ہے۔

ایسی نفرت انگیز تقاریر کرنے والے حکومت پنجاب کی نظروں سے کیسے اوجھل رہے جبکہ نیشنل ایکشن پلان میں ایسی تقاریر کرنا ممنوع ہیں، دھرنا کے اول دن سے اب تک ہمارے خفیہ والوں کی کیا رپورٹس ہیں؟ ان کی کارکردگی کیا ہے اسے بھی عوام کے سامنے لائی جائے اور راجہ ظفرالحق و دیگر ارکان پر مشتمل کمیٹی کی رپورٹ بھی منظر عام پر لائی جائے۔ ایک بات اور کہ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے ارکان بھی اپنی صفائی پیش کریں کہ انہوں نے ختم نبوت کے حوالے سے ترمیم کی کیسے منظوری دی اور کس کی ہلا شیری سے منظوری دی۔ جب تک پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے ارکان سچ نہیں بتاتے اس وقت تک ان کی رکنیت معطل کردی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

Comments are closed.