ڈاکٹر طاہر منصور قاضی
یہ مضمون روس کے بالشویک انقلاب کی وجوہات اور ناکامی کی تاریخی اور سماجی جہات کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ طوالت کی وجہ سے اسے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مگر اسے ایک مکمل اکائی کے طور پر پڑھا جانا چاہَے۔
حصہ دوم
بادشاہت اور عوامی سیاست
اُس ماحول اور معاشرے میں سیاسی پارٹیاں غیر قانونی تھیں اور تمام مارکسی دانشوروں کو دیس نکالا مل چکا تھا۔ مارکسی خیالات کے حامی ان دانشوروں نے 1883 میں سوئزرلینڈ میں“لیبر لبیریشن” کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا جس نے بعد میں سوشل ڈیموکرٹیک لیبر پارٹی کی شکل اختیار کی۔
سوشل ڈیموکرٹیک لیبر پارٹی کے اراکین معیشت اور معاشرے کے بارے میں مارکسی نظریات کے حامی تھے۔ تاہم پارٹی کے اندر مستقبل کی سیاست کے طریقہء کار پر اختلاف تھا۔ لینن کا خیال تھا کہ مستقبل کے روس میں مکمل جمہوری نظام کی بجا ئے پارٹی کے معتبر ممبران پر انحصار کیا جائے تا کہ زار روس کے آلہ کاروں کو دور رکھا جا سکے۔ پارٹی کے الیکشن میں اس نقطہ نظر پر لینن کو پارٹی ووٹ میں شکست ہوئی تاہم مرکزی کمیٹی کے چناؤ میں وہ اراکین جیتے جن کی لینن نے حمایت کی تھی۔ دیگر اختلافات میں انقلاب کے وقت کا تعین بھی تھا۔ لینن کے ساتھی فوری انقلاب کے حامی تھے۔
دوسرے لیڈر پلیخنوف تھے۔ یہ وہی دانشور ہیں جنہوں نے مارکس کی کتابوں کا روسی زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا– پلیخنوف کا خیال تھا کہ قدم آہستہ اٹھایا جا ئے۔ جوں جوں معاشرہ زرعی سے صنعتی سرمایہ دار نظام کی طرف جا ئے گا اور معروضی حالات تبدیل ہونگے تو مستقبل میں وہ وقت سوشلسٹ انقلاب کے لئے زیادہ سازگار ہو گا۔
اسی طر ح کی باتوں پر اختلافِ را ئے کی وجہ سے سوشل ڈیموکرٹیک لیبر پارٹی کے دونوں گروپ 1903 ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے بلکہ علیحدہ پارٹیاں بن گئیں۔ لینن کے ساتھی جو تعداد میں زیادہ تھے، “بالشوِیک” کہلا ئے۔ بالشویک معنوی طور پر بھی اکثریت کو ہی کہتے ہیں۔ دوسری پارٹی “منشویک” کہلائی جس کا مطلب اقلیت ہے۔
ان دنوں سوئزرلینڈ میں بیٹھی انقلاب کی حامی سوشلسٹ پارٹیوں کے پاس ایسی کوئی واضح حکمتِ عملی نہیں تھی جس سے زار کو تخت سے اتارا جا سکتا یا زار کے جابرانہ اور آمرانہ نظام کا خاتمہ کیا جا سکتا۔ ان حالات میں پارٹی منشور عوامی بہبود کا امید افزاء خیال تو ضرور تھا مگر فوری قابلِ عمل ضابطہ نہیں تھا۔
یہ بات اس وجہ سے وضاحت کا تقاضا کرتی ہے کہ سیاست سے وابستہ بہت سے عمل پرست سماجی انقلاب کو تبدیلی کا ایک لمحہ گردانتے ہیں اور اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ پرانے نظام کو اپنے اندرونی تضاد کی وجہ سے اندر سے ٹوٹنے میں ایک زمانہ لگتا ہے۔ اس نقطے کی حکیمانہ تشریح مارکس نے فلسفہء تاریخ کی رو سے کی تھی اور کوئی معاشرہ بھی تاریخ کے اس اصول سے مبرا نہیں۔ پرانے سماجی نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے بغیر انقلاب کی شمع روشن کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
سنہ1905 کی بغاوت
روس کے اندر سماجی اور معاشی سطح پر زار کی آمریت اور جنگوں میں جا بجا حصہ لینے کا تمام بوجھ استحصال زدہ مزدوروں اور فاقہ کش کسانوں پر تھا۔ اس صورتِ حال میں روس کے اندر معاشی اور سماجی فشار دن بدن بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ 1905 میں کسانوں نے زار کے خلاف باقاعدہ بغاوت کر دی۔
جب کسانوں نے بادشاہ کو اپنی عرضداشت پیش کرنے کی کوشش کی تو سپاہیوں نے ان پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے ہیں ہزارہا کسان جاں بحق ہوئے۔ تاہم بادشاہ نے یہ مطالبہ مان لیا کہ قومی اسمبلی “ڈوما” بنائی جائے گی اور اسمبلی میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا جا سکے گا جن کے پاس کوئی جائیداد نہیں۔ اس بغاوت سے پہلے جائیداد سے محروم لوگوں کے پاس سیاست میں ذرہ برابر گنجائش نہیں تھی۔ اس کے علاوہ آزادئ اظہار اور جلسے جلوس کی آزادی بھی دے دی گئی مگر سیاسی اور سماجی حقیقت اس کے برعکس رہی کیونکہ زار ڈوما کے فیصلوں کو کسی خاطر میں نہ لاتا تھا۔
زار ڈوما کے فیصلوں کو نظر انداز کر بھی سکتا تھا کیونکہ پولیس اور فوج پر اس کی آہنی گرفت تھی۔ اس بغاوت کے بعد ٹریڈ یونین بنا نے کی اجازت تو دی گئی مگر پولیس کے پاس یونین کو بند کرنے کا اختیار تھا۔ سیاسی جماعتیں بنا نے کی اجازت مل گئی مگر پولیس کے پاس سیاست دانوں کو بلا روک ٹوک پکڑنے کا اختیار تھا۔ لہٰذا 1905 کی بغاوت کے نتیجے میں آزادی کا کوئی پہلو بھی بارآور نہ ہو سکا اور یوں 1905 کی بغاوت کلی طور پر ناکام ہو گئی مگر آ نے والے سالوں میں روس کے معاشرتی اور معاشی حالات مزید دگر گوں ہوتے چلے گئے۔
سنہ1917 کا انقلاب
23 فروری 1917 کو ٹیکسٹائل میں کام کرنے والی مزدور عورتوں نے پٹروگراڈ میں ہڑتال کر دی جو جنگل کی آگ کی طرح چند دنوں میں دوسرے مزدوروں میں بھی پھیل گئی۔ اس کے بعد طلباء بھی اس میں شامل ہو گئے۔ یاد رہے کہ اس موقعے پر ہڑتال کرنے والوں کا کوئی لیڈر نہیں تھا تاہم باہر بیٹھے ہوئے منشویک گروپ نے مزدوروں کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان میں مزدوروں اور دوسرے احتجاج کرنے والوں سے کہا گیا وہ مجموعی فیصلے کرنے کے لئے اپنے نمائندے منتخب کر کے ایک کونسل بنائیں۔ “سوویت” دراصل کونسل کو ہی کہا جاتا ہے۔ انقلاب مکمل ہونے کے بعد سوویت کونسلوں کے لئے ہر جگہ سے نمائند ے منتخب ہوئے جن سے سوویت یونین وجود میں آئی۔
بالشویک پارٹی نے بھی مزدوروں کی حمایت کی حامی بھری لیکن ذرا بعد میں۔ تا ہم اُنہوں نے سوویت بنا نے کے خیال کو ایک قدم اور آ گے بڑھایا۔ بالشویک پارٹی نے احتجاج کرنے والوں کو نعرہ دیا کہ “طاقت کا سر چشمہ سوویت ہیں“۔ ہڑتالی مزدور اور عوام شروع سے نعرہ لگا رہے تھے کہ جنگ بند کی جائے۔ یہ مطالبہ بہت سے دلوں کی آواز بن چکا تھا۔ بالشویک پارٹی نے اس مطالبے کی بھی دل و جان سے حمایت کی۔
تاریخی تناظر میں یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ 1914 سے جنگِ عظیم اوّل ہو رہی تھی جس میں روس باقاعدہ شریک تھا۔ اس سے پہلے روس نے 1904 میں جاپان کے ساتھ محاذ آرائی کی، 1908 میں بوسنیا کو سلطنت میں شامل کرنے کی فوجی کاروائی اور پھر جنگِ عظیم اوّل میں شمولیت کی۔ اس طرح فوجوں پر اٹھنے وا لے اخراجات سے ملک کنگال ہو گیا۔
روسی بادشاہوں میں جنگی جنون اس قدر تھا کہ بیسویں صدی کے شروع میں روس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی باقاعدہ فوج تھی جس کی تعداد 14 لاکھ تھی۔ ہارورڈ یونیوسٹی میں انقلابیات کی پروفیسر تھیڈا سکوکپول کے نزدیک جنگ میں شکست، انقلاب کی بنیادیں استوار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
آبادی کا بوجھ اور معاشرتی اور اقتصادی کمزوری
پہلی جنگِ عظیم کے شروع ہونے سے پہلے کے 50 سالوں میں روس کی آبادی 1860 میں 74 ملین سے بڑھ کر 1914 میں 164 ملین ہو چکی تھی۔ اسی دوران آبادی کی شر حِ اضافہ سے کہیں زیادہ اضافہ افسر شاہی کی بھرتی میں ہو رہا تھا جس سے خزا نے پر بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھتا چلا گیا۔ اسی عرصے میں صنعتی مزدوروں کی تنخواہوں میں قریب قریب دوگنا اضافہ ہوا مگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ تین گنا ہوا۔
آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ دنیا میں ہر جگہ اور ہمیشہ سیاسی اور سماجی نظام کی کمر ٹوڑتا چلا آیا ہے۔ روس میں بھی آبادی میں اضا فے کے ساتھ وابستہ بوجھ کے نتائج بھی ہو بہو وہی نکلے۔ عوام نے دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقلِ مکانی شروع کر دی مگر شہروں میں نئے آنے وا لے مزدوروں کو کھپا نے کی سکت نہیں تھی۔
اس سے جو باتیں زیادہ واضح ہو کر سامنے آئیں؛ ایک تو یہ کہ دیہی علاقوں میں بہت پہلے سے بے پناہ غربت تھی جس سے نکلنے کا واحد راستہ جو عام لوگوں کی سمجھ میں آیا وہ شہروں کی طرف رخ کرنا تھا۔ دوسرے یہ کہ 1914 میں روس کی شہری آبادی قریبا” اٹھارہ فیصد ہو چکی تھی جبکہ ملازمت کی شرح ایک فیصد سے بھی کم تھی۔ سو روس کے شہر اور دیہات دونوں غربت سے بھرے پڑے تھے۔
دوسری طرف زار کے امراء کے اخراجات، افسران کی تنخواہیں اور جنگی اخراجات اس بات کے متقاضی تھے کہ رعایا سے زیادہ سے زیادہ وسائل چھینے جائیں۔ ایسے حالات میں حکومت اور نظام کے پاس ظلم اور زیادتی ہی سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ سو باقی دنیا کی تار یخ کی طرح روس میں بھی یہی ہوا مگر کہاں تک؟ یہی وہ مقام تھا جہاں بادشاہ اور اس کی حکومت معاشی اور اخلاقی دیوالیہ پن کی وجہ سے اپنے ہونے کے جواز سے محروم ہو چکے تھے۔ دھیرے دھیرے پولیس اور فوج پر بھی وسائل کی کمی اثر انداز ہونے لگی اور پھر انہوں نے حکومتی احکامات سے بے پروائی برتنی شروع کر دی۔
زار کی حکومت پر گرفت کمزور ہوتے ہی “ڈوما” کو بھی اپنی حیثیت منوا نے کا موقع مل گیا۔ ڈوما نے ایک عبوری حکومت تشکیل دی اور فوجی جرنیلوں کو اس بات پر رضامند کر لیا کہ وہ بادشاہ کی حمایت نہیں کریں گے بلکہ زار کو تخت چھوڑنے پر رضامند کریں گے۔ بالآخر بادشاہ کو 16مارچ 1917 کو تخت سے علیحدہ ہونا ہی پڑا۔ بادشاہ زار نکولس کو فیملی سمیت پہلے نظر بند کیا گیا اور پھر جولائی 1918 کو تمام خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یوں انقلاب کا پہلا حصہ تکمیل کو پہنچا۔
انقلاب کے حصے
اس مقام یہ بتلانا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ انقلاب کو سمجھنے کے لیئے اسے کم از کم تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: اوّل، پرانے نظام کا ٹوٹنا اور اس کی وجوھات، دوم، سماجی انتشار اور بغاوت کی تفصیل اور سوم، نئے نظام کے خدوخال کا واضح ہونا۔ روس کے عظیم انقلاب کے بھی یہی تین حصے ہیں۔
پہلا حصہ
Pingback: انقلاب روس: سماجی تار یخ میں نویدِ صبح نو۔3 – Niazamana
Pingback: انقلاب روس: سماجی تار یخ میں نویدِ صبح نو۔4 – Niazamana