سائیں کمال خان شیرانی: لٹ خانے سے قیادت سازی تک

عبد الحئی ارین 

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ لیڈر ایجاد نہیں دریافت کئے جاتے ہیں۔ حقیقی سیاسی قیادت فیکٹریوں میں پیدا نہیں کئے جاسکتے بلکہ زمان و مقام کے حالات ہی ایسے رہنما پیدا کرتے ہیں جو قوموں کی تقدیر بدلتے ہیں۔ ایک ایسا ہی قیادت سائیں کمال خان شیرانی کی تھی۔ کمال خان شیرانی ایک سیاسی عالم،، روشن فکر دماغ کے مالک تھے،۔ پشتون قومی تحریک کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے۔ محکوم اقوام کے حقوق کیلئے عمر بھر سیاسی و علمی جدوجہد کرتے رہے۔ ہاتھ پر ہمیشہ پلاسٹک کی گھڑی باندھتے تھے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے (بناوٹی) مستقبل بنانے اور روائتی بیورکریٹی پیسوں کی مشین بننے کی بجائے ، آپ نے اپنی زندگی محکوم اقوام کی آزادی کیلئے وقف کردی تھی۔

زمانہ طالبعلمی ہی سے کمال خان شیرانی اپنے قوم ، سماج کو سدھارنے اور عوام کو غلامی سے نکالنے کیلئے سوچتے تھے۔ اکتوبر کے عظیم انقلاب کے جہاں اس خطے پر ہر سو اثرات مرتب ہوئے تھے وہاں 1924میں جنوبی پشتونخوا ( برٹش بلوچستان) کے ضلع ژوب کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے اس عظیم انسان کا بھی انگریزی استعمار اور سامراج کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا فطرتی عمل تھا۔ ادب فلسفہ، تاریخ اور اُس وقت کے انقلابی سوشلسٹ افکار اُن کی انقلابی و مزاحمتی سوچ کے بنیاد کی خشت ثابت ہوئے تھے ۔تاہم بعد میں برٹش بلوچستان اور قلات اسٹیٹ (موجودہ بلوچستان) میں انقلابی سیاست کے علمبردار خان شہید عبدا لصمد خان اچکزئی نے کمال خان شیرانی کو پشتون قوم، تاریخ اور پشتون نیشنلزم سےروشناس کروایا تھا۔

سائیں کمال خان، عبداللہ جان جمالدینی ، سردار بہادر خان بنگلزئی اور ڈاکٹر خدائیداد کے قائم کردہ لٹ خانے نے صوبے کے لوگوں کیلئے ایک سیاسی ،سماجی ، علمی و تحقیقی لائبریری جیسا کردار نبھایا جس سے نئی نسل آ ج تک مستفید ہورہی ہے۔ پشتونوں کی سماجی پسماندگی ، غربت ، بے کسی ، بے بسی اور سیاست سے دوری سائیں کو پریشان کرتی تھی۔ سائیں اور اُنکے رفقا ء عبداللہ جان جمالدینی صاحب، سردار بہادر خان بنگلزئی نائب تحصیلدارتھے ۔مگر استعماری پالیسوں کے طرز پر چلنے والی یہ اعلی نوکریاں قومی خدمت میں مدد گار ثابت نہیں ہورہی تھیں ۔

قلات اسٹیٹ اور برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) میں پنجابی بیوروکریسی اور اُن کے پالے ہوئے سرداروں و نوابوں کے عوام دشمن روّیوں کے خلاف کمال خان شیرانی اوراُن کے رفقاء نے یکے بعد دیگرے احتجاجاَ سرکاری ملازمتوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ ریاست کی اس عوام دشمن سیاست کے خلاف سب سے پہلے کمال خان شیرانی نے بغاوت کا علم بلندکرتے ہوئے ایک درجن سے زائد صفحات پر مشتمل استعفیٰ لکھا جس کا مسودہ اُس وقت کے انجمن ملکی ملازمین ( صوبے کے لوکل محکوم افسروں کی تنظیم) نے ملکر تیار کیا اور بعد میں جسٹس اکبر کاکڑ (مرحوم) نے اُسے (ٹیکنکل) انگریزی میں تحریر کیا تھا۔

یہ استعفیٰ بظاہرکمال خان شیرانی کا تھا مگر حقیقت میں یہ صوبے کے مقامی محکوم افسروں کا سیاست و بیورکریسی پر قابض استعماری قوتوں کے خلاف بغاوت کا اعلان تھا۔ جس کو بعد میں مشاورتی کونسل کے چئیر مین نواب محمد خان جوگیزئی و کونسل کے سیکرٹری جناب قاضی محمد عیسیٰ خان کو بھیجا ۔ یہ ایک تاریخی دستاویز تھی جس کی درجنوں کاپیاں بھی بنائی گئی تھی۔ کچھ نادان جب سائیں سے یہ سوال کرتے کہ اگر آپ 1953میں نوکری سے استعفی نہیں دیتے تو آج آپ چیف سیکرٹری کے عہدے تک پہنچ چکے ہوتے، جس پر سائیں ایک معنی خیز مسکراہٹ کیساتھ ایک معنی خیز جواب دیتے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک دولت، شہرت کیلئے جیتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے انسان انسانیت کیلئے جیتے ہیں۔

دیکھا جائے تو آج اولذکر لوگ بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، بلکہ اب تو حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ لوگ ڈانگہ، ٹھیکہ و دیگر معمولی نوکری نہ دینے کے ردعمل میں قومی تحریک کو چھوڑ دیتے ہیں۔

نائب تحصیلدار کی نوکری سے مستعفی ہونے کے بعد کمال خان شیرانی اور اُس کے رفقاء نے عوام کی سماجی و سیاسی حقوق کے جدوجہد کیلئے سب سے پہلے بلوچی اسٹریٹ کوئٹہ میں ایک بیوہ عورت سے کرائے پر ایک جونپڑی نما چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لیکر لٹ خانہکی بنیاد رکھی تھی۔ لٹ خانہ لوگوں کیلئے سیاسی و فکری تربیت گاہ تھی جو بعد میں صوبے کے عوام کی سیاسی و سماجی حیثت کو تبدیل کرنے میں سنگ میل ثابت ہوئی تھی۔اس کے علاوہ، بیورکریسی کے اعلی پوزیشن سے مستعفی ہوئے اس مفلس الحال افسر نے اپنے ایک رشتہ دار سے 700 روپے ادھار لیکرلٹ خانہ کے ساتھیوں کی مدد سے فی الحال اسٹیشنری کے نام سے ایک دُکان کھولی۔ جو بعد میں انقلابی و ترقی پسند ادب کے کتابیں فروخت کرنے اور نوجوانوں میں انقلابی و سیاسی افکار منتقل کرنے کا مرکز بنا ۔

سائیں اگرچہ عملی سیاست بھی کرتے رہے، خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو اپنا رہبر سمجھتے تھے۔ اور ان کیساتھ ورور پشتون” ,نیشنل عوامی پارٹی پشتونخوا اور بعد میں محمود خان اچکزئی کی رہبری میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کرتے رہے۔ایک سیاسی رہنما کے علاوہ وہ ایک سیاسی دانشور بھی تھے جو سقراط کے طرز پر) مطالعہ پاکستان کے متاثرین” (نئی نسل کے دماغوں کو حقیقی انقلابی افکار سے روشناس کرتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ سائیں کمال خان اپنے گاوں کے گھر کا مہمان خانہ بھی نوجوانوں کی سیاسی تربیت گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے، جہاں کالج ، یونیورسٹیوں کے طالبعلم بکثر ت آتے۔

یہ لارشود( عظیم رہنما) ان کی دماغوں کے اوپر سیاسی شعور کی سطوریں لکھتے رہتے، یہاں پر یہ جوان ملک و خطے میں جاری سیاسی حالات پر سیر حاصل بحث کرتے اور سائیں کے سیاسی فکر ، تجربہ اور تجزیوں سے مستفید ہوتے،بعد میں یہ نوجوان اپنے اپنے علاقوں اور تعلیمی اداروں میں جا کر وہاں ان افکار کی تبلیغ کرتے اور عوام کو شعوری سیاست کے زیور سےآراستہ کرتے۔ سائیں نے خود کتاب لکھنے کو ترجیح دینے کے بجائے انگریزی و دیگر زبانوں میں لکھی گئی کئی بہترین کتابوں کو پشتو زبان میں ترجمہ کئے۔

جس میں سقراط کا مقدمہ، زندان اور زہر کا پیالہ، افلاطون کے ڈائیلاگ، والٹیر کا مشہور ناول کینڈیڈ (پشتو: سپیسلئی) میکسم گورکی کی سوانح عمری کا پہلا حصہ( میرا بچپن ) کرسٹوفر کاڈیل کی کتاب سٹڈی ان ڈائنگ کلچر کا ایک حصہ لبرٹی (آزادی)، جان ریڈ کی کتاب ٹین ڈیز دیٹ شاک دی ورلڈ” اور اسلام ان پریکٹس(رشتنی اسلام) جیسے عالمی شہرت یافتہ و شہر آفاق کتابوں کی پشتو میں ترجمے کئے۔

سائیں ان متراجم میں پشتو کے نایاب و قدیم الفاظ کو محفوظ کرنے کیلئے بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا کرتے تھے۔ سائیں نے اگرچہ کوئی کتاب نہیں لکھی تھی مگر اُنھوں نے اپنے سقراطی طرز قیادت سے ایسے درجنوں سیاسی رہنماء پیدا کئے جو اپنے اپ میں لائبریریاں و بڑے رہنما ہیں، جن میں پشتونخوا میپ کے چئیرمین محمودخان اچکزئی، ڈپٹی سنئیر چئیرمین استاد و پوھاند عبدا لرحیم مندوخیل، رحیم کلیوال شہید، سائیں حسن خان ، ڈاکٹر عبدا واحد، ڈاکٹر شاہ محمد مری، اسد لونی، جعفر خان اچکزئی، معصوم خان اچکزئی، خالد خان ایڈوکیٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے صالح محمد خان مندوخیل کے علاوہ سینکڑوں ایسے معلوم و نا معلوم ہستیاں ہیں جن کی سیاسی تربیت و سیاسی بصیرت میں سائیں کمال خان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

ان میں سے اکثر آج نہ صرف صاحب کتاب ہیں بلکہ پشتون و بلوچ قومی تحریکوں میں ان کا اہم کردار رہا ہے اور یہ رہنما خود درجنوں انقلابی سیاسی لیڈرشپ بھی پیدا کرتےآرہے ہیں۔میکسم گورکی کی طرح سائیں کمال خان شیرانی بھی نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے، لکھنے میں رہنمائی کرتے، اُن کو کتابیں فراہم کرتے اور اُنھیں قوم اور قومی تحریک کیلئے اپنا قلم استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ۔ صوبے بھر کے ادبا ء کو جب بھی موقع ملتا تو وہ علم کی پیاس بجھانے کیلئے سائیں کے محفل کا رخ کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان شعراء و ادبا کے کلاموں میں مترقی و انقلابی رنگ سب سے زیادہ چھایا ہوا ہے۔ 

ایک صدی پر محیط زندگی میں سائیں اپنی قوم و معاشرے میں موجود ذہنی و سیاسی غلامی کے خلاف بڑی جرات سے علمی ا ور عملی بنیادوں پرجدوجہد کرتے رہے مگر خودی و جرات کے یہ پیکر اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ جسمانی طور پر کینسر کے مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں جو بعد میں ان کیلئے جان لیوا ثابت ہوا۔5 نومبر 2010کو رحلت کے وقت آپ نے اپنی قوم کیلئے جمع پونجی میں چند سو کتابیں چھوڑیں، عظیم نظریات و افکار چھوڑے، خودی و قوم دوستی جیسے عظیم افکار بطور کل اثاثہ چھوڑے۔ جن کو آگے لے جانے اور ہمیشہ زندہ رکھنے کیلئے باشعور و با صلاحیت سیاسی قیادت چھوڑی ۔

سائیں کی اس سوچ کو زندہ رکھنے کیلئے نوجوان قیادت آج بھی لٹ خانے کی سوچ و روایات کو پروان چڑھارہے ہیں اور محکوم اقوام کو ذہنی غلامی سے نجات دینے کیلئے پرعزم ہیں۔  بلوچوں کے تحریک آزادی کے رہنما نواب خیر بخش مری کو جب لوئی لارشود (عظیم رہنما) سائیں کمال خان شیرانی کی اس جہان فانی سے رحلت کی خبر دی گئی توآپ نے افسردہ ہوکر کہا تھا

 آپ نے مرنا نہیں ، آپ نے ابھی نہیں مرنا تھا ہمیں آپ کی ضرورت ہے، آپ صرف ایک پشتون نہیں۔بلکہ عظیم انسان ہو، اسلام آباد نہیں جاتے ہو۔۔۔تقریریں نہیں کرتے ہو، فرنٹ سیٹوں پر بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہو۔

عبدا الحئی ارین امریکہ سے ملٹی میڈیا میں ڈگری کرچکا ہے اور ٹیلی وژن میں نیوز ایڈیٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔

♦ 

Comments are closed.