شرمین عبید چنائے پاکستان کی وہ واحد خاتون ہے جنہوں نے عالمی سطح پر تحریکِ نسواں کو پروان چڑھایا اور ساتھ ہی پاکستان میں خواتین کی غیرت کے نام پر قتل اور جنسی ہراساں ہونے پر دستاویزی فلمیں بناکر دو مرتبہ عالمی اعزاز” آسکر ایوارڈ” اپنے نام کرکے پاکستان کا نام روشن کر چُکی ہے۔
آجکل پاکستان کی یہ عالمی شہرت یافتہ خاتون تمام نیوز چینلز اور اخبارات کے نیوز ہیڈلائنز کی توجہِ کی مرکز بن چکُی ہے۔ حال ہی میں انُہوں نے ٹوئٹر پہ اپنے جاری کردہ بیان میں آغا خان یونیورسٹی اینڈ ہسپتال کی ایک ڈاکٹر کی طرف سے اپنی بہن پر جنسی ہراسانی کاالزام عائد کیا جس کے بعد آغا خان ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے ڈاکٹر کو فوری طور پر برطرف کیا گیا۔
ایک طرف جہاں شرمین صاحبہ کے اسِ جُرات مندانہ اقدام کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے تو دوسری جانب سے اُنہیں شدید قسم کی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہیں۔ شرمین صاحبہ کی جذبات، احساسات ، نظریات اور پاکستان میں حقوقِ خواتین کی پامالی پر جُرات کا مظاہرہ قابلِ قدر ہے لیکن اگر انصاف اور حقیقت کے نقطہِ نگاہ سے دیکھا جائے تو اُن کا یہ حالیہ اقدام بالکل بے بنیاد ، غیر منطقی اور غیر منصفانہ ہے۔ شرمین صاحبہ کی بنا تحقیق کے الزام تراشی پر کئی سوالات اُٹھائے جا سکتے ہیں کیونکہ موصوفہ کے الزام سے یوں لگتا ہے کہ جیسے اُن کی ذہنیت صرف اور صرف اسُی محدود دائرے میں ہی قید ہو کر رہ چکُی ہے جس کی عکاسی پہلے بھی وہ اپنی دستاویزی فلموں میں کئی بار کر چکُی ہے اور جس بناء پر موصوف نے اپنی بہن کو جنسی ہراساں ہونے کا شکار ثابت کیاہے ، وہ بنیاد ہی سراسر غلط ہے۔
شرمین صاحبہ نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ انُ کی بہن کو فیس بکُ پر فرینڈ ریکویسٹ بھیج کر ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں جنسی ہراسائی کا مطلب جاننا چاہیے کہ جنسی ہراساں ہونے سے کیا مرُاد ہے، جنسی ہراساں کیسے کی جاسکتی ہے اور وہ کونسی ایسی حرکات یا عمل ہے جو جنسی ہراساں ہونے کے زمرے میں آتا ہے؟
قانونی اور اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو جنسی ہراسانی سے مرُاد وہ عمل ہے جس کے رونما ہونے سے کوئی بھی شخص اپنی عزت و حیاء کو غیر محفوظ سمجھے جیسے کے زبانی طور پر ہراساں کرنا یا زیادتی کرنا، جنسی حرکت کیلئے اشارتاََ دباؤ ڈالنا ، جنسی واقعات بیان کرنا، جنسی دست اندازی کرنا، ہاتھ لگانا، تھپکی دینا ، کسی کے جسم کو شہوانی نظر سے دیکھنا یا جنسی عنایات کا مطالبہ کرنا ۔ لیکن جہاں تک موصوف کی بہن کو ہراساں کرنے کا الزام ہے، تو یہ بالکل غیر منطقی ہے کیونکہ انُ کا الزام ) فیس بکُ فرینڈ ریکویسٹ( جنسی ہراسانی کی تعریف کے زمرے سے کوسوں دور ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شرمین صاحبہ نے فیس بکُ پر فرینڈ ریکویسٹ کو جنسی ہراساں کرنے کا بنیاد بنا کر پیش کی ہے لیکن اگر پاکستان کے سائبر کرائم بل 2016 کو دیکھا جائے تو فیس بکُ پرفرینڈ ریکویسٹ بھیجنا کسی بھی صورت جنسی ہراسانی کے عمل میں نہیں آتا جس کی تصدیق ، اسِ واقعے کے فوراََ بعد ایف ائی اے سائبر کرائم سیل کراچی کے انچارج نے بھی کی ہے جن کے مطابق یہ ریکویسٹ یا تو نظرانداز کی جاسکتی ہے یا رضا مندی سے قبول کی جا سکتی ہے۔
کچھ لمحوں کیلئے ہم مان لیتے ہے کہ ایک فیس بک فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے سے شرمین صاحبہ کی بہن کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے جس پر شدید ردِ عمل کا مطالبہ ہونا چاہئے اور شرمین صاحبہ کے جذبات کی بھی قدر کرنا چاہئے لیکن کیا موصوفہ کے جذبات صرف اور صرف اُنکی اپنوں تک ہی محدور ہے؟ موصوفہ کی یہ تمام با قدر جذبات تب کہاں تھے جب کوئٹہ میں ہزارہ خواتین کو بسوں میں سوار ہو کر اور سر عام سڑکوں پر گولیاں ماری گئیں تھیں اور کہاں ہے تحریکِ نسوانی کے وہ تمام جذبات جب کچھ ہی دنوں پہلے بلوچ علیحدہ پسند لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر کی بیٹی اور بیوی کو کوئٹہ سے سرعام لاپتہ کیا گیا؟ کیا بلوچستان کی خواتین خواتین کا درجہ نہیں رکھتی؟ کیا ان پر کئے گئے مظالم ہراسانی کے زمرے میں نہیں آتے؟ کیا بلوچستان کی خواتین کی غیرت ، درد اور قتل پہ شرمین صاحبِہ کے جذبات نہیں جاگے؟
شرمین صاحبہ کے اسِ بلا وجہ ردِ عمل و شور شرابااور بلوچستان میں خواتین پر ریاستی مظالم پرخاموشی یہی ثابت کرتی نظر آ رہی ہے کہ نہ تو شرمین صاحبہ کوئی فیمنسٹ ہے اور نہ ہی حُرمتِ نسواں کا محافظ بلکہ ایک عام خود غرض ، ڈرامائی اور شہُرت پسند شخصیت۔
♦
2 Comments